مقبوضہ کشمیر کی تاریخ میں 31اکتوبرکوایک اور سیاہ ترین دن قرار دیاجائے توغلط نہ ہوگا‘ کیونکہ مقبوضہ ریاست کو دو حصوں‘ جموں و کشمیر اور لداخ میں باضابطہ طور تقسیم کر دیا گیا ۔مودی سرکار نے 5 اگست کے سیاہ فیصلے‘ دفعہ 370 کے خاتمے کے دوسرے مرحلے کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر اور لداخ کو دو حصوں میں تقسیم کرکے بھارتی قوانین نافذ کر دیئے ۔ بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے لیے گریش چندر اور لداخ کیلئے آر کے ماتُھر کو گورنر تعینات کردیا۔ نئے قوانین کے تحت دیگر ریاستوں کے ہندو شہریوں کو مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خریدنے اور مستقل رہائش کا حق حاصل ہوگیا ہے۔یقینا یہ سوچی سمجھی سازش کے تحت جامع منصوبہ بندی سے کیا گیا۔جب 1950ء میں بھارت کی پارلیمنٹ نے ملک کا آئین منظور کیا تو اس میں مقبوضہ کشمیر کو دفعہ 370 کے تحت خصوصی درجہ دیا گیا۔اس دفعہ کے تحت بھارت کی کسی بھی ریاست کا شہری کشمیر میں زمین یا دوسری جائیداد کا قانونی مالک نہیں بن سکتا۔ کشمیر میں سرکاری ملازمت کا اہل بھی نہیں ہو سکتا اور مقامی حکومت کے سکالرشپ کا مستحق نہیں قرار پا سکتا تھا۔ شہری حقوق کی مزید وضاحت چار سال بعد انڈین آئین میں دفعہ 35-A کے تحت کی گئی۔ اس میں واضح کیا گیا کہ کشمیریوں کو پورے بھارت میں شہری حقوق حاصل ہوں گے‘ لیکن دیگر ریاستوں کے باشندوں کومقبوضہ کشمیر میں یہ حقوق نہیں ہوں گے۔ دفعہ 370 کے تحت مقبوضہ کشمیر کا الگ وزیراعظم ہونا تھا اور ریاست کے سربراہ کو صدر کا عہدہ ملنا تھا۔مگر بعد میں1975 میں اندرا گاندھی اور شیخ عبداللہ کے درمیان معاہدے کے بعد یہ عہدے باقی ریاستوں کی طرح وزیراعلیٰ اور گورنر شپ میں تبدیل کردئیے گئے‘ تاہم شہریت کے خصوصی حقوق کو دفعہ 35-A کے ذریعے تحفظ حاصل رہا۔
جولائی1947میں مسلم کانفرنس میں'قرار داد الحاق پاکستان‘ منظور ہوئی۔مگر بھارت کی چالاکیوں سے تنگ آکر مسلح جدوجہد کا آغاز کیا گیا۔راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ نامی ہندو انتہا پسند تنظیم نے راجہ کو قائل کر کے جھوٹا الحاق کروایا ۔ ایسے میں مسلمان مجاہدین نے جدوجہد جاری رکھی اور 15ماہ کی جدوجہد کے بعد کشمیر کا کچھ علاقہ آزاد کروالیا گیا۔بھارتی وزیراعظم نہرو کو جب کشمیر ہاتھ سے جاتا نظر آنے لگا تو جنگ بندی کیلئے اقوام متحدہ سے مدد کے لئے بھاگا۔اقوام متحدہ نے جنگ بندی کا حکم دے دیا اور مسئلہ کشمیر کو رائے شماری کے ذریعے حل کروانے کی قرار داد منظور ہوئی۔
بھارت نے رائے شماری کا وعدہ کیا‘مگر آج تک اپنے اس وعدے سے منحرف ہے۔ رائے شماری کی بجائے معصوم و نہتے کشمیریوں کو شہید کیا جانے لگا۔آزادی کشمیر کی تحریک کچلنے کے لئے 6لاکھ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر پر قابض ہوگئی اور ظلم و تشدد کا سلسلہ جاری ہو گیا۔مسلمانوں کی نسل کشی کی پوری کوشش کی گئی‘یہاں تک کے ہندو بستیاں آباد کی جانے لگیں‘ نام نہادکٹھ پتلی حکومتیں بننے لگیں۔مکاربھارت نے پاکستان کو پہلے دو لخت کر کے کمزور کیا اور اب اپنے بنائے گئے آرٹیکل کو ختم کردیا گیا۔
ہندو انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ باقاعدہ راکی ٹریننگ کے ساتھ اسرائیلی اسلحے سے لیس مقبوضہ کشمیر کے علاقوں میں تعینات کی گئی‘ تا کہ ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جائیں۔کشمیری 70سالوں سے اپنے حق خود ارادیت کی جنگ لڑ رہے ہیں ‘حقوق کی طویل جنگ میں خراج تحسین پیش نہ کرنا زیادتی ہوگی ۔ بھارت کے اس فیصلے کے خلاف حریت رہنماوں کے کئی بیانات بھی سامنے آئے ‘مقبوضہ کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے کہا کہ'' بھارت مقبوضہ علاقے کو دو حصوں میں تقسیم کرنے جیسے آمرانہ اقدامات کے ذریعے جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو تبدیل نہیں کرسکتا۔ بھارت کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور بین الاقوامی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کررہا ہے ۔ جموں و کشمیر اور لداخ میں لیفٹیننٹ گورنرز کی حیثیت سے دو کٹھ پتلی آمروں کو مسلط کرکے بھارت کشمیریوں کواپنے حق خودارادیت کے حصول کی منصفانہ جدوجہد جاری رکھنے سے روکنا چاہتا ہے۔ بھارت اس طرح کے ہتھکنڈوں کے ذریعے کشمیری عوام کو محکوم نہیں رکھ سکتا۔ حالیہ بھارتی اقدامات کی وجہ سے بھارت کے خلاف کشمیری عوام نفرت، ناراضگی اور مزاحمت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ یہ آتش فشاں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے اور کشمیریوں کا غم وغصہ ایسی شکل اختیار کرسکتا ہے جسے روک پانا بھارت کیلئے ممکن نہیں ہو گا۔ کشمیری عوام کی طرف سے خاموش احتجاج کو طوفان سے پہلے کی خاموشی سمجھا جانا چاہیے‘‘ ۔ سید علی گیلانی نے کشمیری عوام کو ان کی بے مثال قربانیوں پر شاندار خراج عقیدت پیش کیا اور انہیں بھارتی تسلط سے آزادی کے حصول کیلئے اپنی منصفانہ جدوجہد ثابت قدمی سے جاری رکھنے پر زوردیا۔
مودی حکومت کا خیال ہے کہ کشمیر کو نیم خود مختاری دینے والی ان دفعات کو بھارتی آئین میں شامل کرنا ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کی تاریخی غلطی تھی۔پانچ اگست کو پارلیمان میں اعلان ہوا تومقبوضہ کشمیر پر خوفناک خاموشی چھا گئی ۔خوف کے سائے اب بھی چھائے ہوئے ہیں۔ خواتین نے گزشتہ ہفتے گرفتاریوں اور قدغن کے خلاف احتجاج کیا تو انہیں گرفتار کر کے دس ہزار روپے جرمانہ اور تحریری مچلکے کے عوض رہا کیا گیا۔ ان پر پابندی لگائی گئی کہ وہ نئی تبدیلی سے متعلق بات کی گئی تو جیل کا منہ دیکھنا پڑ سکتا ہے۔