تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     02-11-2019

سانحہ تیز گام، آزادی مارچ اور 3 دن کی مہلت

اپوزیشن کو یہی زیبا تھا۔ نواز شریف نے عمران خان کے زخمی ہونے پر، اگلے روز ملک بھر میں مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم معطل کر دی تھی اور یہاں تو لیاقت پور ٹرین سانحہ میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 74 تک پہنچ گئی تھی (40 سے زائد زخمی تھے، بعض کی حالت نازک تھی)۔ 31اکتوبر کی سہ پہر مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کو اسلام آباد پہنچنا تھا (اپوزیشن کے مرکزی قائدین کو جس سے خطاب کرنا تھا اور آزادی مارچ کے اگلے مرحلے کا اعلان ہونا تھا) ہسپتال میں نواز شریف کی حالت خطرے سے باہر نہیں تھی۔ ایسے میں شہباز شریف کی تمام تر توجہ بڑے بھائی کی صحت پر تھی۔ وہ جو ''دنیا و ما فیہا سے بے خبر‘‘ والا محاورہ ہے، شہباز شریف پر سو فیصد صادق آتا تھا۔ 
گفتگو کسی سے ہو تیرا دھیان رہتا ہے
ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے، سلسلہ تکلم کا
بدھ کو آزادی مارچ لاہور میں تھا۔ شہباز صاحب نے فون پر مولانا کا خیر مقدم کیا، (سہراب گوٹھ کراچی سے روانگی کے وقت بھی شہباز صاحب نے لاہور سے فون کیا تھا) آزادی مارچ اس روز (تقریباً نصف شب کے لگ بھگ) لاہور پہنچا تھا اور ٹھوکر نیاز بیگ سے آزادی چوک (مینار پاکستان) تک سارے راستے مسلم لیگی ارکان اسمبلی، کارکنوں کی بڑی تعداد کے ساتھ موجود تھے۔ مولانا میاں صاحب کی مزاج پرسی کے لیے ہسپتال آنا چاہتے تھے، لیکن ڈاکٹروں کی طرف سے ملاقات پر پابندی کے باعث، ممکن نہ ہوا۔ جمعرات کی سہ پہر تک، میاں صاحب کی صحت میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی تھی، اس کے باوجود شہباز شریف آزادی مارچ کے اسلام آباد جلسے میں شرکت کے لیے تیار تھے کہ لیاقت پور کے سانحہ تیزگام کے باعث، جلسہ اگلے روز پر ملتوی کردیا گیا۔
تیزگام کا یہ سانحہ، پاکستان ریلوے کے سنگین حادثوں میں ایک اور اضافہ تھا۔ بلا شبہ یہ قومی سوگ کا معاملہ تھا اور ایسے موقعہ پر ذمہ داروں کا غیر ذمہ دارانہ رویہ سانحہ کی سنگینی میں اضافے اور زخموں پر نمک پاشی کا باعث ہوتا ہے۔ خواجہ سعدرفیق کی پانچ سالہ وزارت میں پاکستان ریلویز کہاں سے کہاں جاپہنچی تھی اور شیخ صاحب کی سواسال کی وزارت اسے کہاں لے آئی؟ یہ ایک طویل مقالے کا موضوع ہے۔ (پاکستان ریلوے دوسری بار شیخ صاحب کی دستبرد میں ہے۔ اس سے پہلے وہ مشرف دور میں بھی ریلوے کے وزیر رہے) حالیہ وزارت کے ابتدائی دس بارہ ماہ میں شاید ہی کوئی ہفتہ ریلوے کے کسی نہ کسی حادثے کے بغیر گزرا ہو‘ اور شیخ صاحب کا موقف ہوتا، میں کوئی ڈرائیور ہوں، کوئی گینگ مین ہوں، کوئی پھاٹک والا ہوں کہ اس حادثے کا ذمہ دار قرار پائوں... اور لیاقت پور کے اس سانحے میں تو وہ ریلوے کو بری الذمہ قرار دے کر تمام تر ذمہ داری مسافروں پر عائد کر رہے تھے۔ ہمیں یاد ہے، خواجہ سعدرفیق کی وزارت کے دوران پلیٹ فارم پر مسافروں کے داخلے کے لیے باقاعدہ واک تھرو گیٹ تھے، گاڑی میں سوار ہونے سے پہلے مسافروں کو (اپنے سامان کے ساتھ) سکیننگ کے عمل سے بھی گزرنا پڑتا۔ 
مسافروں کے لیے محفوظ (اور آرام دہ) سفر ریلوے کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ دھماکہ خیز مواد سمیت متعدد اشیاء ہیں مسافر جنہیں ساتھ نہیں لے جا سکتا۔ ان میں گیس کے چولہے (سلنڈر) بھی ہیں۔ پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ مسافر ان سلنڈرز کے ساتھ ٹرین میں سوار ہو گئے؟ ایک ستم ظریف کا کہنا تھا، اس کا تو یہ مطلب ہوا کل کلاں کوئی مسافر میزائل کے ساتھ یا خطرناک بم کے ساتھ بھی ٹرین میں سوار ہو سکتا ہے۔
ادھر بعض عینی شاہدین کا دعویٰ ہے کہ اس سانحہ کا سبب گیس والے چولہے نہیں تھے۔ مسافر رائے ونڈ کے اجتماع میں شرکت کے لیے آرہے تھے۔ کچھ لوگ اپنے کھانے پینے کے لیے چولہے ساتھ لے آتے ہیں، لیکن ان میں گیس نہیں ہوتی، یہ رائے ونڈ آکر بھروائی جاتی ہے۔ یہ چولہے بھی گیس کے بغیر تھے۔ عینی شاہدین کے بقول، آگ شارٹ سرکٹ سے لگی۔ گیس کے چولہے اس کا سبب ہوتے تو دھما کے بھی ہوتے لیکن یہاں دھماکوں کی کوئی آواز کسی کو سنائی نہ دی۔ میڈیا (اور سوشل میڈیا) پر جناب عمران خان کی 2017 کی ایک فوٹیج چل رہی ہے جس میں ایک ریلوے حادثہ پر وہ وزیر ریلوے سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہے ہیں، کہ مہذب معاشروں اور جمہوری ملکوں میں اپنی وزارت میں کسی خرابی پر، متعلقہ وزیر ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مستعفی ہو جاتا ہے، وہ اس کی ذمہ داری اپنے ماتحتوں پر ڈال کر خود بری الذمہ نہیں ہوتا۔ اللہ بخشے، ہمارے نواب زادہ صاحب، اپنے پڑوس میں بھارت کی مثال دیا کرتے تھے، جہاں ریلوے کے ایک حادثے پر، وزیر ریلوے لال بہادر شاستری نے اپوزیشن کے مطالبے سے پہلے ہی، رضا کارانہ استعفیٰ دے دیا تھا‘ جس سے ان کی سیاسی عزت اور احترام میں اضافہ ہوا۔ بعد میں وہ بھارت میں وزارتِ عظمیٰ کے منصب تک پہنچے۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ انہی کے دور میں ہوئی تھی۔
وزیر اعظم صاحب نے اس سانحہ کی انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔ وزیر ریلوے نے جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کیلئے پندرہ، پندرہ لاکھ اور زخمیوں کیلئے پانچ، پانچ لاکھ روپے کی امداد کا اعلان کیا۔ استعفے کے حوالے سے ایک سوال پر فرمایا، یہ کوئی مسئلہ نہیں اس کا جواب اتوار کو دوں گا۔ 
27 اکتوبر کی شام کراچی کے سہراب گوٹھ سے مولانا فضل الرحمن کی زیر قیادت مارچ کا آغاز ہوا تو مسلم لیگ(ن) کے زبیر عمر (سابق گورنر سندھ) اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما رضا ربانی سٹیج پر موجود تھے۔ اے این پی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کی مقامی قیادت بھی نمایاں تھی۔ سہراب گوٹھ ویسے بھی پختونوں کا گڑھ ہے‘ جہاں مولانا کی جے یو آئی اور اے این پی وغیرہ کی سیاسی حمایت موجود ہے۔ مارچ کا آغاز خاصا متاثر کن تھا۔ دور دور تک انسانوں کا ہجوم تھا۔ ادھر بلوچستان سے الگ کارواں روانہ ہوا، جسے ڈیرہ غازی خان کے راستے پنجاب میں داخل ہونا تھا۔ کراچی سے سکھر، یہاں سے ملتان‘ ملتان سے لاہور اور یہاں سے جی ٹی روڈ کے راستے اسلام آباد۔ پروگرام کے مطابق اپوزیشن کی جماعتوں کی شرکت صرف ''مقامی حد‘‘ تک تھی۔ کارواں جس علاقے سے گزرتا، مسلم لیگ(ن) سمیت اپوزیشن جماعتوں کی مقامی قیادت اور کارکن ان کے استقبال کیلئے موجود ہوتے۔
مسلم لیگ(ن) کے جاوید لطیف صادق آباد سے شامل ہوئے اور اسلام آباد تک ساتھ رہے۔ ملتان میں جاوید ہاشمی بھی موجود تھے۔ لاہور سے مارچ کی روانگی کے وقت سٹیج پر مسلم لیگ(ن) کی عدم موجودگی تبصروں اور تجزیوںکا موضوع بنی، حالانکہ گزشتہ شب لاہور آمد پر مقامی ارکان اسمبلی اور لیگی کارکنوں نے مارچ کا بھرپور خیر مقدم کیا تھا۔ لاہور سے اسلام آباد تک جی ٹی روڈ پر بھی جابجا مسلم لیگ(ن) موجود تھی۔ سینکڑوں کلومیٹر کے طویل اور پرجوش آزادی مارچ میں کہیں پتہ بھی نہ ٹوٹا۔ کہا جاتا ہے، کام اچھا ہے وہی جس کا کہ مآل اچھا ہے۔ 31 اکتوبر کی سہ پہر جلسے کے التوا کے حوالے سے کنفیوژن نے بدمزگی پیدا کردی۔ 
جلسے کے التوا کا اعلان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگ زیب نے کیا تھا‘ جسے آزادی مارچ کے منتظمین سمیت ساری اپوزیشن کا فیصلہ سمجھا گیا۔ مولانا حیدری کی پریس کانفرنس سے اندازہ ہوا کہ التوا کا اعلان مولانا کو اعتماد میں لئے بغیر کیا گیا تھا؛ تاہم انہوں نے یہ کہہ کر ڈیمیج کنٹرول کی کوشش کی کہ آج کا دن تو گزر گیا، کل مولانا فضل الرحمن کے خطبۂ جمعہ سے جلسے کا آغاز ہوگا، جس نے ملتوی کرنے کی بات کی، اس کی بھی لاج رکھنی چاہیے۔ اے این پی التوا کے اعلان پر قدرے سخت ردِ عمل کے بعد نرم پڑ گئی۔ بلاول بھٹو نے رات گئے مارچ خطاب میں کہا، سلیکٹڈ کو جانا ہوگا جبکہ مولانا استعفے کے لیے ایک 3 دن کی مہلت دے رہے تھے۔ جس وقت یہ سطور قلم بند کی جا رہی ہیں اپوزیشن کے جلسے کا آغاز ہوا چاہتا ہے‘ جس میں شرکت کے لیے شہباز شریف جمعہ کی صبح اسلام آباد پہنچ گئے تھے۔ ادھر مختلف سازشی تھیوریوں، قیاس آرائیوں، تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک سازشی تھیوری دسمبر جنوری میں 2 سال کے لیے ''قومی حکومت‘‘ کے قیام کی ہے‘ جومعیشت کو سنبھالے اوراس کے بعد ملک میں الیکشن ہوجائے۔ جنرل اسلم بیگ نے گزشتہ شب موجودہ قومی امراض کے لیے اسی سے ملتا جلتانسخہ کیمیا تجویز کیا۔ تو کیا اسے ایک ''باخبر‘‘ کی ''خبر‘‘ تصور کیا جائے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved