گھر سے نکلنے میں دیر ہو گئی تھی، اس لیے سب پر بوکھلاہٹ طاری تھی۔ ٹرین کا وقت شام چار بجے تھا۔ گھر کا سربراہ صلاح الدین دوسروں سے زیادہ پریشان تھا۔ بیوی بچوں کے ساتھ بڑی ذمے داری اسی کی تھی۔ بار بار ٹرین انکوائری کو اضطراب میں فون ملاتا لیکن حسب معمول اور حسب دستور کوئی فون اٹھانے کا روادار نہیں تھا۔ ادھر یہ بھی خیال تھا کہ راستے کی ٹریفک میں پھنس گئے تو ٹرین ہی نہ نکل جائے۔ اتنی مشکل سے‘ پورا دن لگا کر اور کئی سفارشوں کے بعد تو ٹکٹیں حاصل کی تھیں۔
صلاح الدین اپنی بیگم ثمینہ، بڑی بیٹی 14 سالہ ارم اور دو چھوٹے بیٹوں کاشف اور نعمان کے ساتھ اپنے قریبی عزیزوں کی شادی میں شرکت کرنے لاہور جا رہا تھا۔ جہاز کے ہوشربا خرچے پورے گھرانے کے ساتھ صلاح الدین کے بس سے باہر تھے اور پھر ٹرین کے سفر کا اپنا رومانس بھی تھا۔ شادی اور سفر کی خوشی سب گھر والوں کو کئی ماہ پہلے سے لگ رہی تھی۔ نئے جوڑے بنائے گئے تھے۔ سفر میں ساتھ لے جانے والی کھانے پینے کی چیزیں تیار کی گئی تھیں۔ ہر سٹیشن پر گاڑی رکے گی تو کہاں سے کیا خریدنا ہے‘ یہ طے کیا گیا تھا۔ ارم کو یہ دیکھنے کا شوق تھا کہ ریل جب دریائے سندھ پر سے گزرتی ہے تو نیچے مٹیالا بل کھاتا دریا کیسا لگتا ہے۔ کاشف کو کھیتوں میں سفید سارس دیکھنے کی آرزو تھی اور ننھا نعمان ابھی اتنی عقل نہیں رکھتا تھا کہ اپنی کوئی الگ سے تصویر بنا سکے۔ کوئی دن ایسا نہ تھا جب یہ سفر سب گھر والوں کی گفتگو کا موضوع نہ بنا ہو۔ بچوں کا تو بس نہیں چلتا تھا کہ دن پر لگا کر اڑا دیں اور ایک دم 30 اکتوبر تک پہنچ جائیں۔ وہ دن جب تیزگام ٹرین کا مزے دار سفر ان کا منتظر تھا۔ اور اب وہ دن آن پہنچا تھا تو سب بوکھلائے ہوئے تھے۔ صلاح الدین نے دسویں بار سارا سامان گنا۔ کھانے کے ٹفن کا اطمینان کیا۔ جیب سے نکال کر ایک بار پھر ٹکٹیں دیکھ کر تسلی کی۔ وقت آن پہنچا تھا۔ اب تو گھر سے نکل ہی پڑنا چاہیے۔
ایک گھنٹہ سڑکوں پر رینگتے رینگتے خدا خدا کر کے سٹیشن پہنچے۔ سامان کے لیے کوئی دستی ٹرالی سٹیشن پر تو بعید از قیاس تھی کہ ریلوے کے کسی وزیر نے نہ کبھی خود ٹرین میں سفر کی تکلیف اٹھائی تھی نہ کبھی سامان خود اٹھایا تھا۔ قلیوں کے سوا کوئی صورت ممکن نہ تھی۔ پلیٹ فارم پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ تیزگام ایک گھنٹہ لیٹ ہے حالانکہ اسے کسی پچھلے شہر سے نہیں آنا تھا۔ کراچی ہی سے ٹرین تیار ہو کر چلنا تھی۔ پلیٹ فارم پر بیٹھنے کی کوئی جگہ نہ تھی۔ مجبوراً سامان رکھ کر سب اسی کے اوپر بیٹھ گئے۔ تیزگام کی بوگیاں جب ایک نہیں دو گھنٹے دیر سے آئیں تو مسافر تھکنا شروع ہو چکے تھے۔ اے سی سلیپر کی 12 نمبر بوگی کا سی کمپارٹمنٹ چار برتھوں والا تھا۔ صلاح الدین نے سامان رکھ کر بیگم اور بچوں کو بٹھایا تو اطمینان کی سانس لی۔ ٹکٹوں کا حصول، تحفوں، نئے کپڑوں اور جوتوں کی خریداری، ملازمت سے چھٹی، گھر کا بندوبست‘ کتنے ہی مراحل تھے اس سفر میں اس 12 نمبر بوگی میں پہنچنے تک۔ 'کل ہم لاہور اپنے عزیزوں کے پاس پہنچ جائیں گے‘ صلاح الدین اور ثمینہ نے اطمینان کی سانس بھری اور سر سیٹ کی پشت پر ٹکا دئیے۔
گاڑی روانہ ہو چکی تھی لیکن کہیں سے کچھ جلنے کی بو آ رہی تھی۔ صلاح الدین نے ادھر ادھر دیکھا تو محسوس ہوا کہ یہ بجلی کے تار جلنے کی بو ہے اور پنکھے سے آرہی ہے۔ یہ ایک نیا مسئلہ تھا۔ نہایت مہنگا اور مشکل سے حاصل کیا ہوا ٹکٹ خرید کر بھی مسائل ختم نہیں ہوئے تھے۔ ریلوے اہلکار کو بلایا جو شکل ہی سے اکھڑ، بدمزاج اور کام چور لگتا تھا۔ اس نے بات سنی ان سنی کر دی اور الیکٹریشن کو بھیجنے کا وعدہ کرکے چلا گیا۔ حسب توقع نہ الیکٹریشن آیا نہ وہ اہل کار لوٹا۔ جلنے کی بو تیز ہوتی جا رہی تھی لیکن صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ مسافروں نے توجہ ادھر سے ہٹانے کی کوشش کی لیکن ایسی بو میں توجہ کیسے کسی اور طرف جا سکتی تھی؟ کمپارٹمنٹ کا دروازہ کھول دیا گیا تاکہ تازہ ہوا آسکے؛ اگرچہ اس ہوا کے ساتھ گرد بھی آتی تھی اور ہر چیز پر جمتی جاتی تھی‘ لیکن حل کوئی اور نہیں تھا۔
صلاح الدین نے بچوں کو تسلی دی کہ حیدر آباد پر وہ گارڈ سے مل کر اسے ٹھیک کروانے کی کوشش کرے گا۔ حیدرآباد بھی آیا اور گزر گیا۔ کوئی نظر آتا تو شکایت کرتے۔ اب اسی میں صبر شکر سے گزارہ کرنا تھا۔ رات ہوئی تو اسی میں اس گھرانے نے کھانا کھایا۔ اسی میں برتھوں پر بستر بچھائے اور اسی میں کسی طرح ٹرین کے ہچکولوں کے درمیان انہیں نیند آ گئی۔
30 اور 31اکتوبر کی درمیانی رات صلاح الدین کا گھرانہ بڑی مشکل سے سویا لیکن پھر ایسا سویا کہ جاگا ہی نہیں۔ اور ایک گھرانہ کیا، تیز گام کی بوگی نمبر12 پر ہی کیا موقوف‘ کتنی ہی بوگیوں میں سوتے جاگتے، سفر کرتے لوگ بھسم ہو گئے۔ صبح چھ بجے کے لگ بھگ لیاقت پور کے قریب ٹرین میں بھڑک اٹھنے والی آگ نے سب جلا کر راکھ کر دیا۔ کیا جسم، سامان اور کیا خواب۔80 کے لگ بھگ لوگ لاہور نہیں قبرستانوں میں پہنچے۔ کتنے ہی افراد کی منزل ہسپتال تھے۔ صلاح الدین اور اس کے گھرانے کے فرضی نام تو ان ہنستے کھیلتے، بدنصیب مسافروں پر لہو بہاتے دل اور قلم نے تخلیق کر دئیے لیکن یہ روداد وہی ہے جو ٹرین سے سفر کرنے والوں پر روز بیتتی ہے۔ اسباب کچھ بھی ہوں، واقعات کوئی بھی رہے ہوں‘ کتنے ہی صلاح الدین اپنے بیوی بچوں سمیت ان حادثات کی بھینٹ چڑھتے ہیں‘ جن میں اکثر حادثات اتفاقی نہیں انتظامی غفلت سے پیش آتے ہیں‘ اور انتظامی غفلت حادثہ نہیں قتل کہلاتی ہے۔
شیخ زید ہسپتال کے ایک ڈاکٹر کے مطابق 80 سوختہ جسم گنے گئے ہیں۔ بیسیوں جل بچنے والے ہسپتالوں میں داخل ہیں۔ ان میں کتنے زندگی کی جنگ ہار جائیں گے، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ابتدائی خبروں کے ساتھ ہی یہ بتایا جانے لگا کہ گیس سلنڈر یا چولہے کی وجہ سے آگ لگی۔ یہی بات شیخ رشید صاحب نے کہی اور ذمہ داری جاں بحق اور زخمی ہونے والے مسافروں پر ڈال کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش کی۔ پہلا سوال یہ ہے کہ آتشزدگی کے بعد فوراً ہی یہ بات کیسے متعین ہو گئی کہ سبب یہی تھا جبکہ مسافروں کی ویڈیوز سامنے آچکی ہیں کہ آگ اے سی سلیپر کی بوگی میں پنکھے کے شارٹ سرکٹ سے لگی۔ اے سی سلیپر میں سلنڈرز اور چولہے نہیں لے جائے جاتے۔ اس لیے شیخ رشید کی بتائی گئی وجہ مشکوک ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر چولہا یا بھرا ہوا سلنڈر ٹرین میں تھا تو یہ بھی ریلوے کی غفلت ہے۔ اس کا ذمے دار کون ہے؟ آگ بوگی نمبر12 سے شروع ہوئی ہو جیسا کہ مسافر بتاتے ہیں یا کسی اور بوگی سے‘ شیخ رشید صاحب کو اتنی جلدی الہام کیسے ہو گیا؟
وہ دلیل، وہ سوال کہاں گئے جو اقتدار سے باہر ہوتے ہوئے جناب عمران خان اور پی ٹی آئی کی زبانوں اور میڈیا پر ہوتے تھے؟ اب وہ منصف مزاجی کہاں گئی جس کے تحت سابق وزیر ریلوے سے استعفیٰ اس لیے مانگا جاتا تھا کہ اس کے نیچے درست انکوائری نہیں ہو سکتی؟ وہ دن ماتم کا تھا جب اخباری رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم کی کابینہ میں وزارت ریلوے کے لیے تالیاں بجوائی گئی تھیں کہ سب وزارتوں میں اس کی کارکردگی سب سے اچھی ہے۔ طریق کوہکن میں بھی وہی بلکہ بدتر پرویزی حیلے کیا لوگوں کو نظر نہیں آتے؟ کیا 15 لاکھ کی رقم آئندہ بھینٹ چڑھ جانے والی کسی صلاح الدین، کسی ثمینہ، کسی ارم، کسی کاشف، کسی نعمان کی زندگی بچا لے گی؟
ان بے حس اور خود غرض لوگوں کے درمیان یہی ہوتا رہے گا۔ نہ کوئی وزیر ذمے داری لے گا، نہ استعفیٰ دے گا۔ ٹرینوں سے سفر کرنے والے سب مصیبتیں اپنے مہنگے خرچ پر بھگتتے رہیں گے۔ ہم سب ان وزیروں، افسروں اور اہلکاروں کی تنخواہیں اپنی جیبوں سے الگ ادا کرتے رہیں گے‘ جن کا اپنی وزارت میں صرف تنخواہ سے واسطہ ہے۔ ہم سب ٹرینوں کے ٹکٹ سفارش اور خوشامدوں سے حاصل کرتے رہیں گے۔ وہ مہنگا ٹکٹ جس کی جیب اجازت بھی نہیں دیتی اور بدلے میں یہ کام چور اور بے حس لوگ ہمیں ٹکٹ تھماتے رہیںگے‘ موت کا ٹکٹ۔ بوگی نمبر12 کا ٹکٹ۔