تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     02-11-2019

ٹرین سانحہ

تیزگام ایکسپریس کی بوگی نمبر12 نے انصاف سرکار کے بیانیوں دعوؤں وعدوں اور گورننس کی قلعی ایک بار پھر کھول کر رکھ دی ہے۔ حکمرانوں نے بغیر تحقیق اور تصدیق کے سارا ملبہ تبلیغی جماعت اور اُن کے سلنڈر پر ڈال دیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پورا ملک ہی بوگی نمبر12 بنا ہوا ہے۔ گورننس کے سگنل تو روزِ اوّل سے ہی ناپید ہیں جبکہ میرٹ بھی شارٹ سرکٹ کا شکار چل رہا ہے۔ فرّاٹے بھرتی تیزگام ایکسپریس کراچی سے راولپنڈی کی طرف رواں دواں تھی کہ رحیم یار خان کے قریب بوگی نمبر12 سے بھڑکنے والی آگ نے دیکھتے ہی دیکھتے ساتھ جوڑی گئی دیگر بوگیوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آسمان کو لپکتے آگ کے شعلوں اور کالے دھوئیں میں لاچار مسافروں کی چیخوں اور آہ و بکا سے پیدا ہونے والی صورتحال کا قیامت خیز منظر ناقابلِ بیان ہے۔ 
ٹرین کے اندر اذیت ناک اور یقینی موت دیکھتے ہوئے کتنے ہی مسافروں نے چلتی ٹرین سے چھلانگیں لگا دیں جن میں اکثر کو دماغ کی ہڈی کا فریکچر ہو گیا، کسی کا بازو ٹوٹا تو کسی کی ٹانگ... شدید زخمی حالت میں سبھی ہسپتال میں زیر علاج ہیں جبکہ 70 سے زائد بدنصیب مسافر جل کر اس طرح خاکستر ہوئے کہ خواتین اور بچوں سمیت 58 مسافروں کی شناخت بھی نہ ہو سکی۔ ان کے علاوہ درجنوں مسافر بری طرح جھلس چکے ہیں۔ تحریک انصاف کے اتحادی اور سیاسی پنڈت شیخ رشید نے پہلے ہاتھ ہی آتشزدگی کی ہولناک واردات تبلیغی جماعت کے اجتماع پر جانے والوں پر ڈال کر خود اور ریلوے انتظامیہ کو بری الذمہ قرار دے دیا۔
عینی شاہدین اور ریلوے عملہ کے بیانات حکومتی الزامات اور دعوؤں کو ردّ کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آتشزدگی پنکھے میں شارٹ سرکٹ کی وجہ سے ہوئی۔ شارٹ سرکٹ شکایت کئی روز قبل ہو چکی تھی لیکن نہ تو کسی نے اس پر توجہ دی اور نہ ہی کسی نے اپنی ذمہ داری کا احساس کیا۔ انجام یہ ہوا کہ شارٹ سرکٹ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی چنگاریاں آن کی آن میں شعلوں میں بدل گئیں اور ان شعلوں نے جیتے جاگتے 74 مسافروں کو بھسم کر کے رکھ دیا۔ خدا جانے شیخ رشید صاحب کو کوئی فوٹیج موصول ہوئی یا الہام ہوا کہ انہیں گھر بیٹھے معلوم ہو گیا‘ ٹرین کے اندر سلنڈر پہ کھانا پکانے کے دوران بستروں نے آگ پکڑ لی اور منزل کی طرف رواں دواں تیزگام ایکسپریس ''برننگ ٹرین‘‘ کا منظر پیش کرنے لگی۔ 27 اگست 2014ء رات 11 بجکر 42 منٹ پر تحریک انصاف کا آفیشل ٹویٹ من و عن پیشِ خدمت ہے جو عمران خان کی طرف سے جاری کیا گیا تھا: 
"All over the world, just on an incident on railway accidents, minister resigns. This is real democracy, says Imran Khan".
انصاف سرکار کی 14 ماہ کی تاریخ میں ریکارڈ ہلاکت خیز ریلوے سانحات پر حکومتی ردِ ّعمل تا حال اس ٹویٹ کا منہ چڑا رہا ہے‘ لیکن نہ کبھی کسی نے اپنے بیانیے کا پاس رکھا اور نہ ہی کسی نے اپنے دعوؤں اور وعدوں کا... تضاد بیانیوں کے سارے ریکارڈ شب و روز ٹوٹتے چلے جا رہے ہیں۔ جو مطالبات سابق حکمرانوں سے یہ کرتے نہ تھکتے تھے آج ان مطالبات کی زد میں خود آ چکے ہیں۔ رہی بات وزیر ریلوے شیخ رشید کی تو ان کی ہر بات ہی نرالی ہے۔ درجنوں ٹی وی کیمروں کے سامنے گھنٹوں بولتے ہیں۔ ایسی ایسی پیشین گوئیاں اور انکشافات کرتے ہیں کہ سننے والا دنگ رہ جاتا ہے کہ وزیر موصوف ہی وہ فردِ واحد ہیں جو ان تمام پوشیدہ گوشوں اور اہم رازوں سے واقف ہیں لیکن اپنی وزارت اور گورننس کے معاملے میں ان کی کارکردگی روزِ اوّل سے زبانی جمع خرچ کے گرد ہی گھوم رہی ہے۔
انٹرویوز اور ہر پریس کانفرنس میں بارہ مصالحوں سے بھرپور گفتگو کرنے والے شیخ صاحب بوگی نمبر12 میں ہونے والی آتشزدگی کی ذمہ داری لینے سے انکاری ہیں جبکہ سابق ادوار میں ریلوے حادثات پر وزیر ریلوے کا استعفیٰ طلب کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ شیخ رشید صاحب سبھی کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں، بہت دور کی کوڑی لاتے ہیں لیکن دور کی کوڑی لانے والے وزیر ریلوے کی نزدیک کے معاملات پر گرفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ الغرض وہ سوائے اپنے اصل کام کے سارے کاموں کے ہی ماہر نظر آتے ہیں۔ فرائض منصبی کو ثانوی حیثیت دینے والے وزیر موصوف سارے جہاں کا درد اپنے جگر میں لیے پھرتے ہیں۔ 
ہولناک آتشزدگی کے نتیجے میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کی بے سروسامانی کا فائدہ اُٹھانے والے شقی القلب بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ وہ ان کے مال و اسباب سے لے کر جیبوں، گھڑیوں اور زیورات تک پر ہاتھ صاف کرنے سے باز نہیں آئے۔ چار ماہ قبل مجھے ایک وفد کے ساتھ چائنہ جانے کا اتفاق ہوا تو بیجنگ ایئرپورٹ پر میرے سامان میں پاور بینک، پرفیوم اور آفٹرشیو کی بوتلیں کسٹم حکام کے سکینر میں آ گئیں۔ انہوں نے اس وقت تک میرا سامان کلیئر نہیں کیا جب تک ان کے قانون کے مطابق وہ ممنوعہ اشیاء میرے سامان سے نکلوا کر انہوں نے قبضہ میں نہ لے لیں۔ کتنی آسانی سے انصاف سرکار اس سانحہ سے فرار اختیار کر رہی ہے کہ یہ سانحہ ریلوے کی غفلت کی وجہ سے نہیں بلکہ سلنڈر پر کھانا پکانے کی وجہ سے پیش آیا۔ 
سکیورٹی کے ایس او پیز پر عملدرآمد کرانے میں ناکام ریلوے حکام کس طرح اس سانحہ سے بری الذمہ ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کمرشل مینول رولز 1949 کے آرٹیکل 4 کی شق نمبر1 کے مطابق کوئی مسافر ٹرین میں آتش گیر مادہ نہیں لے جا سکتا۔ ریلوے پولیس ایکٹ کمرشل مینول کے رول 95 کے تحت ایسی کوشش روکنے کی ذمہ داری کنڈیکٹر، گارڈز اور ریلوے سٹیشن کی حدود میں سٹیشن ماسٹرز پر عائد ہوتی ہے۔ ایسے میں ریلوے پولیس اور دیگر متعلقہ عملہ کہاں جا سویا تھا کہ انہیں معلوم ہی نہ ہوا کہ مسافر ٹرین میں آتش گیر گیس سے بھرے سلنڈر کھلے عام لے جائے جا رہے ہیں۔ ایک سال میں کوتاہی اور ناقص کارکردگی کی وجہ سے مسافر ٹرینوں میں آتشزدگی کے 9 واقعات ہو چکے ہیں۔ ایسے میں ریلوے حکام کے پاس نہ سابقہ حادثات کا جواب ہے اور نہ ہی اس سانحہ پر کوئی مناسب جواب مل سکے گا۔ اس سانحہ پر بھی وقت کی گرد ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتی چلی جائے گی اور یہ بھی دیگر سانحات کی طرح قصہ پارینہ بن جائے گا۔ 
یوں معلوم ہوتا ہے کہ حالات اور معاملات انصاف سرکار کے کنٹرول سے دن بدن باہر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ تبدیلی کا سونامی جس زور شور سے ایوان اقتدار میں داخل ہوا تھا‘ اس سے کہیں زیادہ برق رفتاری سے واپسی کے سفر پر گامزن نظر آتا ہے۔ عوام کے دلوں میں بسنے والی تحریک انصاف دلوں سے اُترتی نظر آ رہی ہے۔ جدھر دیکھو اُجاڑے ہی اُجاڑے... سرکاری ہسپتالوں میں آپریشن تھیٹر مقفل اور لیبارٹریاں بند پڑی ہیں۔ آؤٹ ڈور کے بعد اِن ڈور میں بھی ویرانیاں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ علاج کے لیے مارے مارے پھرنے والے عوام پر ہسپتالوں کے دروازے بند ہوئے 23 روز ہو چکے ہیں۔ کیا بچے، کیا بوڑھے سبھی علاج معالجہ کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ ہزاروں آپریشن ایسے ہیں جو بروقت نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں لیکن کوئی جل کر مرے یا علاج معالجہ نہ ملنے کی وجہ سے اپنا خون جلا کر مرے انصاف سرکار کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ بے حسی کا عالم یہ ہے کہ ٹی وی چینلز پر کس قدر ڈھٹائی سے حکومتی نمائندے کہتے ہیں کہ ہسپتالوں میں علاج معالجہ چل رہا ہے اور حالات ان کے کنٹرول میں ہیں۔ 
جناب نواز شریف کی بیماری کے بعد مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ نے انصاف سرکار کے پلیٹ لیٹس مزید گرا دئیے ہیں جبکہ مولانا جلد واپسی کے موڈ میں نظر نہیں آتے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو تین روز کی مہلت دیں گے اور لڑ کر استعفیٰ لیں گے۔ عین یہی بیانیہ 5 سال قبل عمران خان صاحب کا تھا۔ جو مطالبات عمران خان کرتے تھے‘ انہی مطالبات کا آج خود انہیں سامنا ہے۔ ان حالات کا پہیہ کہاں جا کر رُکتا ہے‘ اس کا نتیجہ آنا ابھی باقی ہے۔ تضاد بیانیوں، عوام سے کیے گئے دعوؤں اور وعدوں سے انحراف کے جزوی نتائج آنا شروع ہو چکے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved