رسول اللہ ﷺ کی محبت جوہرِایمان اور حقیقت ِایمان ہے ۔ آپﷺ کا ارشاد ہے :''تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی اولاد ‘ والد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں (اور دوسری حدیث میں ) آپ ﷺ نے خاندان اور مال کا بھی ذکر فرمایا‘ (صحیح مسلم : 69-70)‘‘۔ان احادیثِ مبارکہ میں مومن ہونے کے لیے رسول اللہ ﷺ کو کائنات میں سب سے زیادہ محبوب ہونے کولازمی قرار دیا گیا ہے ۔ اس کی شرح میں علما نے فرما یا : جس شخص کے دل میں نفسِ محبتِ رسول نہیںوہ نفسِ ایمان سے محروم ہے اور جس کے دل میں کمالِ محبتِ رسول نہیں ہے وہ کمالِ ایمان کی سعادت سے محروم ہے ‘بلکہ کمالِ ایمان کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مومن اللہ تعالیٰ کے رسولِ مکرمﷺ کو اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب جانے اور مانے ۔
عبداللہ بن ہشامؓ بیان کرتے ہیں: ہم نبی ﷺ کے ساتھ تھے اور آپ عمر بن خطابؓ کے ہاتھ کو پکڑے ہوئے تھے ‘عمرؓ نے آپﷺ کی خدمت میں عرض کیا: یارسول اللہؐ! آپ مجھے اپنی جان کے سواہرچیز سے زیادہ محبوب ہیں‘ نبی ﷺ نے فرمایا: (عمر!) ابھی (کامل) ایمان کا تقاضا پورا نہیں ہوا‘ اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ‘ (ایمان تب مکمل ہوگا) جب میں تمہاری جان سے بھی زیادہ تمہیں محبوب ہوجائوں‘ حضرت عمر ؓنے عرض کیا: (یارسول اللہؐ!) اب یہی کیفیت ہے ‘واللہ!آپ ضرور مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں ‘ نبی ﷺ نے فرمایا: عمر! اب تم نے ایمان کے مرتبۂ کمال کو پالیا‘ (صحیح البخاری: 6632)‘‘۔
محبتِ رسول ﷺ کا دعویٰ تو ہر ایک بڑھ چڑھ کر کرتاہے ‘ لیکن قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس کی کسوٹی بھی بیان فرمائی ہے ‘ جیسے : دنیا میں چیزوں کے لیے کوالٹی کنٹرول اور معیارات ہوتے ہیں ‘ اسی طرح ایمان کو جانچنے کے معیارات بھی قرآن و حدیث میں بیان فرمائے گئے ہیں ‘ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ''(اے رسول ﷺ !)آپ فرما دیں: اگر تمہارے آبا(واجداد) ‘ تمہارے بیٹے (بیٹیاں) ‘ تمہارے بھائی (بہنیں) ‘ تمہاری بیویاں (یا شوہر)تمہارا خاندان‘ تمہارا کمایا ہوا مال ‘ (تمہاری ) تجارت جس کے خسارے میں جانے کا تمہیں کھٹکالگا رہتا ہے اور تمہارے پسندیدہ مکانات (اگر یہ سب چیزیں جداجدا اور مل کر بھی ) تمہیں اللہ تعالیٰ ‘ اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہوجائیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے (عذاب کا ) فیصلہ صادر فرماد ے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت (سے فیض یاب ) نہیں فرماتا ‘ (التوبہ : 24)‘‘۔
اس آیتِ مبارکہ میں تقابل کے طور پر جن چیزوں کا ذکر فرمایا گیا ہے ‘ وہ سب انسان کے محبوب رشتے اور پسندیدہ چیزیں ہیں ۔ اگر ان تمام متعلقات سے محبت کی مطلقاً نفی کو ایمان کے لیے لازم قرار دیا گیا ہو تا تو خلافِ فطرت ہوتا اور اسلام دینِ فطرت ہے ۔ پس درجہ بدرجہ ان چیزوں کی محبت کو ایمان کی ضد قرار نہیں دیا گیا‘ بلکہ اللہ تعالیٰ ‘ اس کے رسول مکرمؐ اور اس کی راہ میں جہاد کے مقابلے میں ان چیزوں کے محبوب ترین ہونے کو ایمان کے منافی فرمایا گیا ہے ۔ گویا یہ بتلادیا کہ تمہارا محبوب کوئی بھی ہو سکتا ہے ‘ لیکن محبوب ترین صرف یہی تین چیزیں ہونی چاہیں ۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ کیسے جانا جائے کہ فلاں شخص کو اللہ اور اس کے رسول ؐاور اس کی راہ میں جہاد سب سے زیادہ محبوب ہیں یا کوئی اور چیز ؟
پس جب نفس کی خواہشات ‘ مرغوبات اور پسندیدہ چیزیں اللہ کے حکم سے متصادم ہو جائیں تو پھر پتاچلے گا کہ انسان رب کے حکم کو ترجیح دیتا ہے یا اپنے اور اپنے پیاروں کے نفسانی مطالبات کو‘ مثلاً ایک شخص کے بیوی بچوں کی فرمائشیں اس کی آمدنی کے حلال ذرائع سے پوری نہیں ہوتیں ‘ تو وہ ان کو پورا کرنے کے لیے رشوت یا حرام ذرائع کا سہارا لیتا ہے ‘ پس عملاً اس نے اللہ اور اس کے رسول ؐکے حکم کو پسِ پشت ڈال دیا اوراس پر اپنے پیاروں کی فرمائشوں کی تکمیل کو ترجیح دی ‘ تو پھر عمل کی دنیا میں یہی چیزیں محبوب ترین قرار پائیں ۔ درحقیقت ایمان کی حقیقی آزمائش یہی ہے اور اس مرحلۂ امتحان سے ہمیں دن میں کئی بار دو چار ہونا پڑتا ہے ؛چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں فرمایا:''کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا‘ جس نے اپنی خواہشِ نفس کو معبود بنا رکھا ہے ‘ (الفرقان:43)‘‘۔ گویا باری تعالیٰ کے حکم کے مقابل اپنے نفس کی خواہشات کو ترجیح دینا عملاًاسے خدا ہی تو بنا نا ہے ‘ یہ بھی کوئی بندگی ہے کہ سجدہ تو اللہ کے حضور کرے اور حکم نفس کا یا غیر اللہ کا مانے ‘ یہ معبود بنانا نہیں تو اورکیا ہے‘ حالانکہ ہم ہر روز دعائے قنوت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے یہ اقرار کرتے ہیں :''اور جو تیرا نافرمان ہے ‘ہم اُس سے قطعِ تعلق کرتے ہیں اور اس کو چھوڑتے ہیں ‘‘۔
پھر سیاقِ کلام میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم ﷺ کی کمال محبوبیت کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ کا ذکر فرما کر یہ واضح فرمادیا کہ محبت رسولؐ اور محبت الٰہی کی منزل اتنی آسان نہیں کہ نعت خوانوں اور قوالوں پر نوٹ نچھاور کر کے لوگ بزعم خویش عاشق رسو ل بن جائیں ‘ عشقِ مصطفی ﷺ کی معراج عزیمت و استقامت کے جادۂ مستقیم پر گامزن رہنے والوں کو نصیب ہوتی ہے‘ علامہ اقبال نے کہا ہے :
یہ شہادت گہِ اُلفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
چو می گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلات لاالٰہ را
یعنی جب میں زبان سے اقرار کرتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں تو لرز جاتا ہوں ‘ کیونکہ کلمۂ لاالٰہ الا اللہ کی راہ میں استقامت کے ساتھ کھڑے رہنے کی صورت میں جو مشکلات پیش آتی ہیں ‘ میں ان سے بخوبی آگاہ ہوں ۔ اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا :''کیا تم نے گمان کر رکھا ہے کہ تم (کسی آزمائش کے بغیر ) یوں ہی چھوڑ دیے جاؤ گے ‘ حالانکہ اللہ نے ابھی تک تم میں سے ان لوگوں کوممتاز نہیں کیا جنہوں نے تم میں سے جہاد کیااورانہوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ اور مومنوں کے سوا کسی کو اپنا محرمِ راز نہیں بنایااور اللہ تمہارے سب کاموں سے خوب باخبر ہے ‘ (توبہ : 16)‘‘۔
پھر جس طرح دنیاوی معاملات میں چیک لسٹ ہوتی ہے ‘یعنی کسی چیز کی حقیقت اور فعالیت کو جانچنے کا انتظام ہوتاہے ‘ اسی طرح قرآن نے ایمان ‘ محبتِ الٰہی اور محبتِ رسول ﷺ کو جانچنے کے لیے بھی معیار مقرر کر رکھے ہیں ‘ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :(اے رسولﷺ!) آپ اُن لوگوںکو جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں‘ ایسا نہ پائیں گے کہ وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوں جو اللہ اور اس کے رسول سے عداوت رکھتے ہیں ‘ خواہ وہ ان کے باپ (دادا) یا بیٹے (بیٹیاں) یا بھائی ( بہنیں ) یا قریبی رشتے دار ہی (کیوں نہ )ہوں‘ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش فرمادیا اور اپنی پسندیدہ رو ح سے ان کی مدد فرمائی اور اللہ انہیں جنت کے ایسے باغوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے دریا جاری ہیں ‘ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ‘ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ‘ یہ اللہ کی جماعت ہے ‘ سنو! اللہ کی جماعت ہی فلاح یافتہ ہے ‘ (المجادلہ : 22)‘‘۔ رسول اللہ ﷺ کی محبت کا مرکز و محور اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس ہے اور قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی محبوبیت کامدار اتباعِ رسول اللہ ﷺ کو قرار دیا ہے ‘ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :''(اے رسولؐ!) کہہ دیجیے ! (اے اللہ کے بندو!) اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری فرمانبرداری کرو (اس کے نتیجے میں ) اللہ تعالیٰ تمہیں اپنا محبوب بنا لے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا ‘ (آل عمران : 31)‘‘۔
پس رسول اللہ ﷺ کی محبت کے معیار پر پورا اترنے کے لیے آپ ﷺ کی تعظیم‘ اطاعت اور اتباع لازم ہے ۔ کسی شخص کے دل میں محبتِ رسول ہے یا نہیں ‘ اسے اطاعت و اتباعِ رسول کی میزان اور کسوٹی پر پرکھا جائے گا ۔ صرف محبتِ رسول کا دعویٰ کا فی نہیں ہے ‘ ہر دعویٰ دلیل چاہتا ہے اور حُبِ الٰہی وحُبِ رسولﷺ کی دلیل اطاعت واتباعِ رسول ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ اعراف میں رسول اللہ ﷺ کے اوصاف بیان کرنے کے بعد فرمایا: ''سو جو لوگ اُن پرایمان لائے اور آپ کی تعظیم کی اور آپ کی نصرت کی اور اس نور (قرآنِ مجید ) کی پیروی کی جو ان کے ساتھ اُتارا گیا ‘ بس یہ لوگ فلاح پانے والے ہیں ‘ (الاعراف : 157)‘‘۔ یعنی رسول اللہ ﷺ کی حیثیت محض ایک حاکمِ مُجاز کی نہیں ہے کہ قانوناً اس کا حکم مان لیا ‘ خواہ دل میں اس کے بارے میں ملال ہی کیوں نہ ہو‘بلکہ آپ کی تعظیم و توقیر بھی لازم ہے اور آپ کے فرامین کو نہ صرف ظاہری طور پر ماننا ضروری ہے بلکہ لازم ہے کہ آپ کے کسی بھی حکم کے بارے میں دل میں کوئی ملال پیدا نہ ہو اور آئینۂ دل میں بال نہ آئے ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ''(اے رسولؐ ! )آپ کے رب کی قسم! (ایمان کے دعویدار ہونے کے باوجود ) یہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے‘ جب تک کہ یہ آپس کے تنازعات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں ‘پھر آپ کے فیصلے پر دل میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں (بلکہ اسے دل وجا ن سے قبول کریں ) اور سراپا تسلیم ور ضا نہ بن جائیں ‘ (النسآء: 65)‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ''اے اہلِ ایمان ! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو ‘ (النسآء: 59)‘‘۔ یعنی ایمان کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرمﷺ کی اطاعت لازم ہے اور پھر یہ قولِ فیصل جاری فرما دیا کہ حقیقت کے اعتبار سے اطاعتِ الٰہی اور اطاعتِ رسول ایک ہی ہے ؛چنانچہ فرمایا:''اور جس نے رسول کی اطاعت کی ‘ سو اس نے اللہ کی اطاعت کی ‘ (النسآء : 80)‘‘ اور فرمایا : ''اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی تو اس نے بڑی کامیابی کوپا لیا ‘ (الاحزاب: 71)‘‘۔