مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ اسلام آباد پہنچنے تک اپوزیشن اور حکومت کی طرف سے حالات کو بگاڑنے والا کوئی بڑا اقدام یا بیان سامنے نہیں آیا‘ لیکن پشاور موڑ پر احتجاجی دھرنے کے شرکا کے خیمہ زن ہونے کے بعد وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نے گلگت بلتستان کے یوم آزادی پر ایک جلسہ کیا اور مولانا فضل الرحمن کو بھارتی ایجنٹ کہہ ڈالا۔ وزیر اعظم نے مولانا فضل الرحمن کے مذہبی تشخص کو بھی نشانے پر رکھا اور کہا کہ اسلام وہ ہے جب آپ کا عمل مسلمانوں کی طرح ہو ''فضل الرحمن اسلام کی بات کرتے ہیں اور قیمت ضمیر کی لگاتے ہیں‘‘ اقتدار کے لئے اسلام کا نام لینے کا دور چلا گیا ہے۔
وزیر اعظم کی طرف سے ذاتی حملوں کے بعد مولانا فضل الرحمن کا بیانیہ ذاتی تلخی اور غصے کا عکاس بن گیا۔ مولانا فضل الرحمن نے آزادی مارچ کے شرکا سے خطاب میں وزیر اعظم کے استعفے کے لیے دو دن کے انتظار کا اعلان کرکے آزادی مارچ کو غیر علانیہ طور پر دھرنے میں بدل دیا۔ مولانا فضل الرحمن نے کسی بھی ادارے کا نام لیے بغیر اداروں کو ایک پیغام دیا اور کہا کہ ہماری نپی تلی پالیسی ہے اور وہ یہ کہ ہم اداروں کے ساتھ تصادم نہیں چاہتے، ہم پاکستان کے اداروں کا استحکام اور انھیں طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن ہم اداروں کو غیر جانبدار بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم محسوس کریں کہ اس ناجائز حکومت کی پشت پر ادارے ہیں، اگر ہم محسوس کریں کہ حکمرانوں کی پشت پناہی ہمارے ادارے کر رہے ہیں تو پھر دو دن کی مہلت ہے اور پھر ہمیں نہ روکا جائے کہ ہم اداروں کے بارے میں اپنی کیا رائے قائم کرتے ہیں؟
وزیراعظم کا کسی اپوزیشن رہنما کو بھارتی ایجنٹ کا طعنہ، ان کے منصب کے شایان شان نہیں جبکہ مذہبی تشخص کے حوالے سے طعنہ زنی کو کسی بھی معاشرے میں معیوب فعل تصور کیا جاتا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کی اس گرماگرمی میں ایک ایسی بات ہوئی‘ جس کا خدشہ موجود تھا‘ لیکن کوئی بھی اس خدشے کو زبان پر لانے سے گریز کر رہا تھا۔ اور وہ ہے مولانا فضل الرحمن کی طرف سے اداروں کے متعلق بیان اور اس پر مقتدرہ کے ترجمان کا ردعمل۔ اس ردعمل سے ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے، کچھ لوگوں کے خیال میں یہ ردعمل غیر ضروری تھا۔ ہر بات کا جواب ضروری نہیں ہوتا۔ میں ذاتی طور پر سیاسی معاملات میں مذہب کے استعمال سے اختلاف رکھتا ہوں لیکن جب سیاسی کھیل میں شریک ہر فریق اسلام کی بات کر رہا ہے تو خاموشی کے متعلق اسلام کی تعلیمات کیا ہیں یہ بتانا ضروری ہو جاتا ہے۔ حدیث کی مستند ترین کتب، صحیح مسلم و بخاری میں ایک آدھ لفظ کے فرق کے ساتھ حدیث نبوی بیان کی گئی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان لایا اس کے لیے بھلائی اسی میں ہے جب بات کرے تو نیکی اور بھلائی کی بات کرے یا خاموش رہے۔
وزیراعظم اور ان کی کابینہ چودہ ماہ کے دوران بار بار اعلان کرتے رہے کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔ حکومت کی طرف سے یہ راگ مسلسل الاپ کر اپوزیشن کو دبانے کی کوشش کی جاتی رہی اور یہ پیغام دیا گیا کہ حکومت کو مشکلات میں ڈالنے کی ہر کوشش ناکام بنا دی جائے گی۔ وزیراعظم کی طرف سے گلگت جلسہ میں ایک بار پھر سب کو جیل بھجوانے کے عزائم کا اعلان ہوا۔ جیل بھجوانے کا اعلان اپوزیشن کی گھیرا بندی کے تاثر کو پختہ کرتا رہا اور ایک پیج کی راگنی اپوزیشن کے تحفظات کو بڑھاوا دیتی رہی۔ اب اگر اسلام آباد میں دھرنے کی نوبت آئی ہے تو اس کی ذمہ دار خود حکومت اور حکمران جماعت کے کرتا دھرتا ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے دو دن کے انتظار کی حکمت عملی اپنا کر دھرنے کا لفظ استعمال کرنے سے گریز کیا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اس دھرنے میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور آزادی مارچ کے سٹیج سے تقریروں پر اکتفا کیا۔ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کی یہ حکمت عملی اب بھی حکومت کے لیے ایک راستہ کھولنے جیسی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ اگرچہ ان کی جماعت کا فیصلہ اور سیاسی طاقت کا اظہار ہے لیکن اس مارچ کے پیچھے دیگر سیاسی جماعتوں کی اخلاقی مدد موجود تھی۔ دو بڑی جماعتوں کی دھرنے سے دور رہنے کی پالیسی سے جے یو آئی (ف) آئندہ کے فیصلوں کی خود ذمہ دار ہے۔ اس کے باوجود اپوزیشن کی ایک رہبر کمیٹی موجود ہے۔ حکومت کی طرف سے معاملات کو درست کرنے کی سنجیدہ کوشش کو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت سے مدد میسر آ سکتی ہے۔
دھرنے کے مقاصد تو مولانا فضل الرحمن نے طے کر لیے ہیں۔ ان پر جوابی حکمت عملی حکومت نے بھی بنا رکھی ہو گی۔ دونوں فریق اپنی اپنی پوزیشن پر ڈٹے رہے تو معاملہ تصادم کی طرف جا سکتا ہے۔ کچھ حلقوں کے مطابق ادارے صرف ریاست کے وفادار ہوتے ہیں۔دوسری جانب کچھ لوگ اس بیان کو بالکل جائز قرار دیتے ہیں ان کا ماننا ہے کہ ہجوم کے بل بوتے پر کسی بھی شخص یا جماعت کو قانون ہاتھ میں لینے یا بلوہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
مولانا فضل الرحمن نے بنیادی طور پر چار مطالبات رکھے، وزیراعظم کا استعفیٰ، الیکشن اصلاحات کے بعد نئے انتخابات، سیاسی قیدیوں کی رہائی اورآئین میں شامل اسلامی شقوں کا تحفظ۔ آزادی مارچ سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے اپنے مقاصد میں میڈیا کی آزادی کو بھی شامل کر لیا اور کہا ہے کہ میڈیا پر عائد پابندیاں نہ اٹھائی گئیں تو وہ بھی کسی پابندی کے پابند نہیں رہیں گے۔ اس طرح مولانا فضل الرحمن کے مطالبات پانچ ہو گئے ہیں۔
حکومت پہلی دو شقوں پر کسی بھی صورت بات کرنے کو تیار نہیں۔ تیسری شق کے حوالے سے حکومت کا ردعمل گلگت جلسے سے عیاں ہے‘ جہاں وزیراعظم نے کہا کہ ان سب کا مقدر جیل ہے۔ اسلامی شقوں پر ابھی تک کوئی ردعمل باضابطہ سامنے نہیں آیا۔ میڈیا پابندیوں کے حوالے سے حکومت خود ابہام کا شکار نظر آتی ہے اور کسی کو یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ میڈیا پالیسی کون بنا رہا ہے۔ وزیراعظم نے ٹی وی اینکرز سے ملاقات میں میڈیا کی آزادی کی حمایت کی اور مولانا فضل الرحمن کی کوریج روکے جانے سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ کابینہ کے ارکان میڈیا کی آزادی کے حوالے سے کچھ اور موقف اپنائے ہوئے ہیں۔ رہی سہی کسر ٹی وی اینکرز کی دوسرے ٹی وی چینلز کے پروگراموں میں شرکت پر پابندی لگا کر پوری کر دی گئی، اس اقدام سے میڈیا پر پابندی اور کنٹرول کی خواہش کا تاثر مضبوط ہوا۔
حالات سدھارنے کا واحد طریقہ فریقین کے درمیان بات چیت ہے۔ آزادی مارچ اور دھرنے میں کسی فریق کی جیت یا ہار کی سوچ حالات کو بگاڑ کی طرف لے جائے گی۔ اگر اپوزیشن کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے حکومت کو کچھ معاملات پر موقف نرم کرنا پڑتا ہے تو کوئی حرج نہیں۔ مولانا فضل الرحمن بھی حکومت کو گھر بھجوانے کی ضد چھوڑ کر ملکی سیاسی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے حقیقی اپوزیشن کے کردار پر آمادہ ہو جائیں تو دونوں فریقوں کے لیے باعزت راستہ موجود ہے۔
الیکشن اصلاحات ایسا مطالبہ ہے جس کے لیے کسی دور میں تحریک انصاف خود تگ ودو کی دعویدار رہی ہے۔ الیکشن اصلاحات کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اگر روڈ میپ طے ہو جائے تو سیاستدانوں کے اپنے مستقبل کے لیے اچھا ہوگا۔ سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ حکومت پورا نہیں کر سکتی۔ اس کے لیے عدالتی راستہ اختیار کرنا ہوگا؛ البتہ حکومت احتساب کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے اقدامات کر سکتی ہے اور انتقام کے تاثر کو دور کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔ اس کے لیے سب سے ضروری یہ ہوگا کہ وزیراعظم تمام اپوزیشن لیڈروں کو جیل بھجوانے اور انہیں رلانے کے بار بار اعلانات سے گریز کریں اور احتساب کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے مل کر قانون سازی کی جائے۔ اسلامی شقوں کا تحفظ کوئی ایسا مطالبہ نہیں جس پر ڈیڈ لاک پیدا ہونے کا امکان ہو، ریاست مدینہ کے دعویدار اس مطالبے کی راہ میں رکاوٹ کھڑی نہیں کر سکتے۔ اس حوالے سے مذہبی حلقوں کے تحفظات دور کرنے کی سنجیدہ کوشش اور یقین دہانی ضروری ہے۔
میڈیا پابندیوں کے حوالے سے حکومت کو یہ ذہن نشین کرنا ہوگا کہ اقتدار دائمی نہیں ہوتا۔ کبھی نہ کبھی انہیں بھی اپوزیشن کا کردار نبھانا پڑے گا۔ تحریک انصاف آج میڈیا کے حوالے سے جو مثال قائم کرے گی کل وہی اس کے سامنے آئے گی۔