تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     03-11-2019

سرخیاں ‘ متن اور نبیل احمد نبیلؔ کی غزل

نواز شریف کی قیادت میں ہی پاکستان کو بنائیں گے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کی قیادت میں ہی پاکستان کو بنائیں گے‘‘ کیونکہ نواز شریف کی قیادت میں ہی ملک اس حال کو پہنچا ہے کہ اس لیے ان کے علاوہ کوئی اسے بنا بھی نہیں سکتا؛ اگرچہ اس میں میری عاجزانہ کوششیں بھی شامل تھیں ‘ تاہم بقول شاعر:ع
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
اور‘ اب ؛چونکہ ماشاء اللہ وہ روبصحت ہیں‘ اس لیے جملہ پاکستانی خبردار رہیں‘ ورنہ یہ ساری شفقت مجھے ہی کرنی پڑے گی اور اگر میں کمر کے شدید درد کے باوجود مولانا کے مارچ میں جا کر تقریر کر سکتا ہوں تو میرے لیے کوئی کام بھی مشکل نہیں ہے اور اسی لیے میں تقریر کرتے ہی الٹے پائوں واپس آ گیا ہوں کہ مجھے مولانا کے ارادے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے تھے اور سکیورٹی ادارے بھی تیار تھے۔ آپ اگلے روز میڈیا سے بات کر رہے تھے۔ 
اپوزیشن متحد ہو چکی‘ کٹھ پتلی حکومت کو مل کر گھر بھیجنا ہوگا: بلاول
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن متحد ہو چکی‘ کٹھ پتلی حکومت کو مل کر گھر بھیجنا ہوگا‘‘ اور جس طرح دونوں پارٹیوں نے مل کر اس ملک کی خدمت کی ہے ‘اسی طرح انہیں یہ کارنامہ بھی مل کر سر انجام دینا ہوگا۔ پیشتر اس کے کہ وہ ہمارے ساتھ وہی سلوک کر دے اور مجھے فکر اس لیے زیادہ ہے کہ جعلی اکائونٹس کیس میں میری خدمت مبینہ طور پروالد صاحب سے بھی زیادہ ہے اور میں نے انکل ایم بی بی ایس کو بھی بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے‘ اسے کہتے ہیں ؛ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات اور اس سے پہلے کہ میں ان چکنے چکنے پتوں پر سے پھسل کر اندر وغیرہ ہو جائوں‘ یہ معرکہ سر کر لینا چاہیے‘ اسی لیے میں مولانا صاحب کے ساتھ آخر تک کنٹینر پر کھڑا رہا تھا‘ جبکہ نواز لیگ والے تو تقریر کرتے ہی نو دو گیارہ ہو گئے تھے۔ آپ اگلے روز مولانا کے کنٹینر پر خطاب کر رہے تھے۔
وزیراعظم بنا تو بیروزگاری اور تعلیم کا مسئلہ حل کر دوں گا: شاہد آفریدی
قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم بنا تو بیروزگاری اور تعلیم کا مسئلہ حل کر دوں گا‘‘ کیونکہ عمران خان‘ اگر ٹیم کا کپتان بن کر وزیراعظم بن سکتا ہے تو میں کیوں نہیں‘ بلکہ سابق کپتان سرفراز احمد کو بھی دل بُرا نہیں کرنا چاہیے اور وزارت عظمیٰ کے لیے کوششیں شروع کر دینی چاہئیں اور اگر عمران خان نے کینسر ہسپتال بنایا تھا تو میں نے بھی دو سکول بنانے کا اعلان کر دیا ہے اور چندہ مہم بھی شروع کرنے والا ہوں اور اگر آدمی چندہ مانگنے میں ایکسپرٹ ہو جائے تو وزیراعظم بن کر بھی یہ ہنر بہت کام آتا ہے؛ چنانچہ میں نے اپنی سیاسی جماعت کا نام بھی سوچ لیا ہے ‘جو آفریدی لیگ ہو گا ‘جو بعد میں الف لیگ کے نام سے مشہور ہو جائے گی‘ جبکہ بال ٹمپرنگ کی طرح سیاست میں بھی اپنے ہتھکنڈوں سے کام لینا پڑتا ہے‘ اس لیے اب قوم کو میرے وزیراعظم بننے کا بے صبری سے انتظار شروع کر دینا چاہیے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
ملک میں جمہوریت کے نام پر بدترین
شخصی آمریت مسلط ہے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''ملک میں جمہوریت کے نام پر بدترین شخصی آمریت مسلط ہے‘‘ اور اگر یہ بدتر آمریت بھی ہوتی‘ تب بھی اسے برداشت کر لیا جاتا‘ لیکن آپ ہی بتائیں کہ بدترین آمریت کو کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے اور ہم جنرل ضیاء الحق کی کابینہ میں بھی اس لیے شامل ہو گئے تھے کہ وہ آمریت بدترین نہیں تھی ‘بلکہ انہوں نے تو کافی حد تک ملک میں اسلام بھی نافذ کر دیا تھا اور ہر طرف اسلام کا دور دورہ تھا؛ اگرچہ خود انہوں نے ڈاڑھی نہیں بڑھائی تھی‘ تاہم انہوں نے مونچھوں پر بہت زور دیا تھا ؛حتیٰ کہ انہیں ڈاڑھی بڑھانے کی ضرورت ہی نہیں تھی اور آج صاحب ِ موصوف کو یاد کر کے ایمان کیسا تازہ ہو گیا ہے؛ چنانچہ اب میں کوشش کروں گا کہ ان کے ذکرِ خیر سے اپنا ایمان ہرروز تازہ کر لیا کروں ‘کیونکہ تقریر تو مجھے روزانہ ہی کرنی ہوتی ہے۔ آپ اگلے روز حیدرآباد میں خطاب کررہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں ڈاکٹر نبیل احمد نبیلؔ کی غزل:
چھائوں تو دیتا تھا آنگن میں شجر جیسا بھی تھا
اپنا گھر تھا دوستو‘ وہ اپنا گھر جیسا بھی تھا
چل پڑا تھا لے کے مجھ کو منزلوں کا اشتیاق
میں نے کب دیکھا مرا رختِ سفر جیسا بھی تھا
ایک سایہ اب کی صورت تھا آنگن کے لیے
اک پرندہ پیڑ کا دیوار و در جیسا بھی تھا
ہر طرف پھیلے سکوتِ ظلمت بے نور میں
ایک امکانِ طلب تازہ سحر جیسا بھی تھا
ہو بُہو وہ دھڑکنوں کی مثل تھا دل میں مرے
اور میری آنکھ میں میری نظر جیسا بھی تھا
چار دیواری میسر تھی مکینوں کے لیے
تھی میسر چھت ہمیں وہ اپنا گھر جیسا بھی تھا
اک شجر آنگن میں تھا ابر ِ بہاراں کی طرح
اک دیا گھر میں میرے شمس و قمر جیسا بھی تھا
اپنی اپنی چھائوں تھی اور اپنی اپنی دھوپ تھی
چل رہا تھا سلسلہ‘ کارِ ہنر جیسا بھی تھا
پھر بھی وہ حلقوم سے نیچے نہیں اترا نبیلؔ
ذائقہ پتھر کا قسمت کے ثمر جیسا بھی تھا
آج کا مطلع
چلو اتنی تو آسانی رہے گی
ملیں گے اور پریشانی رہے گی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved