تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     03-11-2019

فاسٹ باؤلر اور ڈیڈ وکٹ

مئی 2013ء کے انتخابات کے نتائج نے عمران خان کی سیا ست کا انداز سرے سے بدل کر رکھ دیا۔ اپنی بے پناہ عوامی مقبولیت کے باوجود قومی اسمبلی میں صرف 34 نشستیں حاصل کرنے کے بعد 1996ء سے کرپشن اور پاکستان کے گلے سڑے نظام کے خلاف جدو جہد کرتا ہوا‘ عمران خان جیسا شخص اندر سے ٹوٹ کر رہ گیا اور اس کے قریبی ساتھیوں کے سمجھانے کے بعد اپنی ضد چھوڑ کر الیکٹ ایبلز کو ساتھ ملانے پر راضی ہو گیا ۔ انتخابات سے قبل پی ٹی آئی اندازہ کر چکی تھی کہ بھر پور عوامی قوت رکھنے کے با وجود پارلیمنٹ میںاس کی گرفت مضبوط نہیں ہو گی‘ لیکن پھر بھی عوام کو یقین دلایا جا رہا تھا کہ جیسے ہی عمران خان کو اقتدار ملے گا‘ پاکستان میں چاروں جانب ہرا ہی ہرا نظر آئے گا اور یہی وہ غلطی تھی‘ جس کا خمیازہ آج عمران خان بطورِ وزیر اعظم بھگت رہا ہے۔ 
بیرون ملک بیٹھے ہزاروں کی تعداد میں لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے آئیڈیل عمران خان کی مرکز میں وزارتِ عظمیٰ اور پنجاب میں عثمان بزدار کی حکومت ‘ان کی اپنی طاقت کے سہارے نہیں‘ بلکہ '' مانگے تانگے کی ان سواریوں‘‘ کی وجہ سے ہے‘ جو ہر دوسرے دن اپنے مطالبات کی تکمیل کیلئے انہیں ہلکے ہلکے سے جھٹکے دیتے رہتے ہیں۔ صورت حال اب یہ ہو چکی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نہ تو اپنی مرضی سے کوئی قانون بنا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی کی کوئی بڑی پوسٹنگ اور پالیسی تشکیل دے سکتے ہیں ‘ مگر سوائے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے ۔ان کو اپنے ہر اتحادی اور آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والوں کی طرف سے آئے روز'' میں تو چلی میکے‘‘ کی دھمکی سنناپڑ رہی ہے ‘جس نے ان کے اعصاب اور ارادوں کو ایک عجب قسم کی جھنجلاہٹ کا شکار کر دیا ہے۔ آج ان کی حکومت کرکٹ کی زبان میں ایسے ہی ہے ؛ جیسے کسی فاسٹ بائو لر کا امتحان لینے کیلئے اسے اپنی بائولنگ کے جوہر دکھانے کیلئے ڈیڈ وکٹ دے دی جائے ۔ 
کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں ‘وہ اپنے سوچے گئے انقلابی فیصلوں کیلئے بے تاب ہیں‘ لیکن ان کی اتحادی‘ پنجاب کی بڑی طاقت‘ کچھ عرصے سے یہ کہتے ہوئے ان کے اعصاب پر سوار ہے کہ سابق صدر اور ان کی بہن پر ہاتھ ہولا رکھا جائے ‘کیونکہ ان کے ہمارے خاندان پر بہت سے احسانات ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان حکومت کو سہارا دینے والی یہ سیا سی قوتیں بضد ہیں کہ معاملات ختم نہیں کر سکتے‘ تو ان پر زیادہ دباؤ بھی نہیں ڈالا جائے۔وزیر اعظم عمران خان کیلئے نرم قسم کے این آر او کیلئے بھی کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہو چکا اور ان کے سامنے واضح طور پر آگ کا دریا ہے‘ تو ان کے پیچھے گہری کھائی ہے۔ 
وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ کی دانستہ یا نا دانستہ چھوٹی چھوٹی غلطیوں نے عوام کو ان سے آہستہ آہستہ دور کرنا شروع کر دیا ہے اور یہ کہنا سراسر غلط ہو گا کہ ان کی مقبولیت پہلے کی طرح قائم ہے۔ نیت ابھی بھی ان کی نیک ہے‘ قوم کے ایک ایک پیسے کا انہیں احساس بھی ہے ‘تاہم پانچ دہائیوں سے قائم ان کی مقبولیت اور شہرت اس وقت دائو پر ہے اور وہ اس سورج کو گہنانا بھی نہیں چاہتے‘ انہیں قرضوں کی دلدل میں پھنسے ملک کی عظمت کی بحال کرنے کا جنون ہے‘ لیکن ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس مکمل اقتدار نہیں اوران کی سیاسی قوت کراچی سے لے کر پنجاب اور کے پی کے میں ان کی اتحادی سیا سی قوتوں اور اپنے ہی اراکین کے درمیان بٹی ہوئی ہے۔آج بہت سے ایسے دانشور‘ جو کئی برسوں سے اپنی زبان‘ کلام اور تحریر سے عمران خان کے مخالفین کے جتھوں کے آگے‘ بے خوفی اور کسی لالچ کے بغیر ڈھال بنے رہے‘ ان میں سے کچھ مایوس ہوتے ہوئے میڈیا اور عوام کے سامنے تاثر دینا شروع ہو گئے ہیں کہ وہ غلطی پر تھے‘ جو انہوں نے بے خوف اور بے لوث ہو کر اس وقت عمران خان کیلئے دن رات کام کیا۔ 
بے شک انہوں نے لفافے اوربوریاں ٹھکراتے ہوئے‘ عمران خان کا ساتھ نبھایا‘ لیکن آج مہنگائی اور کمزور گڈ گورننس کے شکوے کرتے ہوئے ‘وہ وزیر اعظم عمران خان سے خود ہی مایوس نہیں ہو رہے‘ بلکہ دوسروں کو بھی مایوس کر رہے ہیں۔ اگر تو ان کے پاس وزیر اعظم عمران خان یا ان کے کسی ساتھی کی کرپشن اور اس کی کابینہ کے کسی رکن کی بد دیا نتی کی کوئی خبر ہی نہیں‘ بلکہ پورے ثبوت موجود ہیں‘ تو پھر انہیں چاہیے کہ ان کو سامنے لا کر وزیر اعظم کا احتساب کرنے کا کہا جائے اور ایسا نہ کرنے پر اگر وہ ان کا ساتھ چھوڑنے کا اعلان کریں تو سب کو اچھا لگے گا‘ لیکن اگر ایسا نہیں تو پھران کے ساتھ رہنے والے اور آئے روز ان کی بریفنگ میں بلائے جانے والے ان لکھاریوں کو انتخابات سے پہلے انہیں بتانا چاہیے تھا کہ جناب آپ دو برس تک کچھ بھی نہیں کر سکیں گے‘ کیونکہ جون2020 ء سے پہلے پاکستان کو گیارہ ارب ڈالر دنیا کے مختلف اداروں کو ادا کرنے ہیں اور بجلی اور گیس کے ضمن میں 640 ملین روپے کے گردشی قرضوں کی ادائی اس کے علا وہ ہے۔
اس سچ سے وہ کیسے بے خبر ہو سکتے تھے؟ کیا وہ نہیںجانتے تھے کہ یہ سب سرمایہ وزیر اعظم عمران خان کہاں سے لائے گا؟ کیا پہلے کی طرح عمران خان بھی تمام ائیر پورٹس‘ موٹر ویز ‘واپڈا ہائوس‘ تربیلا اور منگلا ڈیم سمیت تمام اہم اور بڑی بڑی عمارتیں آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ کر مزید مہلت مانگتا اور صرف دو ارب ڈالر سود کی ادائی کرکے باقی 9 ارب قرضے کا پہاڑ پاکستان پر لاد کر ہمیشہ کی طرح اشیائے ضروریات سستی کر کے سستی شہرت اور سیا ست بچالیتا؟اگر کسی دانشور اور میڈیا کے سینئر کو پاکستان پر واجب ان ادائیگیوں کے فوری شیڈول کی خبر نہیں تھی تو پھر وہ بھی میرے جیسے لوگوں کی طرح اناڑی ہی کہلائیں گے۔ 
اس وقت اکیلا وزیر اعظم عمران خان ہی نہیں‘ بلکہ تحریک انصاف کی تمام کور کمیٹی عوام کے کٹہرے میں کھڑی ہے اور سچ بتانے کی کسی کوہمت نہیں ہو رہی۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ تحریک انصاف کو اپنے پاس سے ابھی تک کوئی آصف غفورصاحب جیسے لوگ نہیں مل سکے؛ حالانکہ اگر وہ اپنے دوستوں کی جانب دیکھیں تو ان کیلئے آصف غفورصاحب جیسے لوگ ڈھونڈنا مشکل نہیں۔ وزیر اعظم اپنی ٹیم میں تبدیلی کا فیصلہ ہر روزکرتے ہیں اور پھر چند گھنٹوں بعد نہ جانے کیوں توڑ دیتے ہیں؟ وقت آ گیا ہے کہ انہیں اب اپنی میڈیا ٹیم کیلئے کرکٹ کے کپتان کی طرح سنجیدہ ہوکر فیصلے کرنے پڑیںگے ۔ 
سمجھ میںنہیں آتا کہ جذباتی ہو کرایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں جیسے بلند بانگ دعوے کیوں کئے گئے؟ کیا آپ کے پاس الہٰ دین کا چراغ تھا‘ جسے ہلکاسے رگڑنے سے آپ نے عوام کے دل کی ہر مراد پوری کر دینی تھی یا کوئی ایک ایسی غیر مرئی قوت تھی‘ جو پلک جھپکتے ہی دنیا بھر کے خزانے عوام کے قدموں میں ڈھیر کرا سکتی تھی؟ جب ایسانہیں تھا تو پھر آپ کو ایسے وعدے کرنے ہی نہیں چاہئے تھے‘ جو نہ تو اس مفلس ملک کے بس میں تھے اور نہ ہی آپ کے ۔ریل گاڑی جب کسی طویل سرنگ سے گزرنے لگتی ہے تو ایک دم اندھیرا چھا جاتاہے‘ لیکن اس طویل سرنگ کی دوسری جانب روشنی انتظار کر رہی ہوتی ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں مانگے تانگے کی سواریوں سے موجودہ حکومت جب اپنا سفر شروع کرنے لگی تھی‘ تو چاہیے تھا کہ اسی وقت کھل کر بتا دیا جاتا کہ پنجاب اور مرکز کا اقتدار تحریک انصاف کی اکثریت کی بجائے‘ نہ جانے کتنے آدمیوں کے ہاتھوں میں تھامی ہوئی بیساکھیوں کا مرہون ِمنت ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved