تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     04-11-2019

اک مو ہوم نشانی پر طالبؔ ہم نے کُوچ کیا

دلائل 3ہیں...
پہلا:دھرنا تو عمران خان نے بھی دیا تھا۔ دوسرا: 2018ء کے پورے الیکشن میںصرف دھاندلی ہی ہوئی ہے۔ تیسرے:فوج کی نگرانی کے بغیر الیکشن کروائے جائیں۔
روڈ میپ بھی 3عدد...
پہلا روڈ میپ‘ اعلان میرا ہے اس لئے پلان بھی میرا ۔ دوسرا:ستارے 9ہیں ‘ لیکن بے چارے ستاروں کی چال بھی نہیں جانتے ۔ چندا ماموں مٹھی کھولیں گے‘ جو برآمد ہو گا‘ وہی ٹمٹماتے ستاروں کی تقدیر۔ تیسرا: روڈ میپ‘پاکستان کی حدود سے بھی ماورا ہے۔دھرنے کے لیے غیر ملکی افرادی قوت کی کمک ‘ Proscribed Organizationsکے پرچم۔غیر ملکی تنظیموں کے لہراتے ہوئے بینرز‘ صرف بینرز ہی نہیں بلکہ اُن پر لکھے ہوئے جتھہ اکٹھا کرنے والوں کے نام۔ دھرنے میں کھلے عام غیر ملکیوں کے کیمپ۔
ایکشن پلان بھی 3نکاتی ہے...
ایکشن پلان نمبر 1! آئندہ پاکستان میںمخالفوں کی گرفتاری کے لئے حزبِ اختلاف کے جتھے استعمال ہوں گے‘ جو پہلے لائوڈ سپیکر پر یہ اعلان فرمائیں گے کہ ہزاروں افراد کسی کے گھر میں گھس کر اُسے گرفتار کرنے آرہے ہیں۔ ظاہر ہے‘ سٹریٹ جسٹس اس کے علاوہ اور کس کو کہتے ہیں۔ Mob lynching جو آر ایس ایس پورے ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ اُس میں اورمذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کے اس اعلان میں فرق کیا ہے؟ ماسوائے مقامِ ِواردات کے۔
ایکشن پلان نمبر2! اب رِٹ ریاست کی نہیں رہی بلکہ ہماری ہو گئی۔ ہم ملک چلائیں گے۔ حکمرانوں کو معیشت کی الف ب کا بھی پتہ نہیں ۔ حکومت لانا یا اُس کو گھر بھیجوا نا‘ آئینی میکنزم کا کام نہیں۔ میرا ایجنڈا ‘میری مرضی۔ بالکل ویسا ہی جیسے ' میرا جسم میری مرضی‘ والا نعرہ۔
ایکشن پلان نمبر3! کرتار پور کی طرح افغانیوں کے لیے بھی راستے کھول دئیے جائیں۔(ویسے قوم نے پوچھنا یہ تھا‘ 1979ئکے بعد یہ راستے بند کب ہوئے تھے۔ فرق صرف اتناپڑا ہے کہ افواجِ پاکستان کی عظیم شہادتوں نے اپنے لہو سے ڈیورنڈ لائن پر بابِ آزادی کے بارڈر کی باڑ بلند کر دی ہے۔) 
stakeholderکی تعداد بھی 3...
آزادی مارچ‘ جس کے لئے اسلام آباد کے جبری بند سکولوں کے لڑکے لڑکیوں نے فسادی مارچ کاٹرینڈ چلایا ہو ا ہے۔ (المعروف خلافِ معاہدہ دھرنا) اس میں شامل stakeholderبھی 3ہیں۔ پہلے‘ وہ جن بے چاروں‘ حسرت کے ماروں کو اسٹیبلشمنٹ نے کبھی سپورٹ ہی نہیں کیا۔ نہ تو بریگیڈئر قیوم ان کے لئے کچھ کر سکے۔نہ ہی جنرل جیلانی کی11سالہ رفاقت ان کی ضرورتوں کے پیٹ بھر سکی۔ اور پھر جنرل ضیا بے چارے تو انہیں اپنی عمر لگ جانے کی دعا عطیہ کرنے کے بعد بھی راضی نہ رکھ سکے۔ اس کی تفصیل جنرل ضیا کی لاڈلی صاحب زادی محترمہ زین ضیا ‘جو جنرل ضیا کے تیسرے بیٹے کی ترقیوں کی ہوش ربا داستان کی چشم دید گواہ ہیں‘ سے پوچھی جا سکتی ہیں۔
دھرنے کی فکری بنیادیں بھی 3...
پہلی بنیاد‘ اب یہ راز کوئی راز نہیں رہاکہ دور دراز کے غریب دیہاتی مقتدی بڑے امام صاحب کے کہنے پر اہلِ اسلام کے شہر اسلام آباد کیوں پدھارے۔ پہلی ایمرجنسی یہ بتائی گئی ‘اسلام آباد کے بڑے سرکاری ایوان پہ اسرائیل کا جھنڈا لہرایا جا رہا ہے۔ آئیے‘ اسے روک کے جذبۂ ایمانی کا ثبوت دیں ۔
دوسری بنیا د ‘ یہ کہ پاکستان کے آئین و قانون کا اسلامی تشخص تبدیل کر دیا جائے گا۔ اسلامی شقیں حذف کی جارہی ہیں۔ اس تبدیلی کو روکنا جہاد ہے اور اس کاروان میں شامل نہ ہونا گناہِ کبیرہ۔ دو دن سے اسی نام پر اسلام آباد کے غربی سیکٹروں کے ٹریفک سگنلز پر گاڑیاں روک کر چندا جمع کیا جا رہا ہے۔
تیسری بنیا د ‘حکومت نا کام ہو گئی ۔ تجربہ کار ٹیم کی ضرورت ہے۔ اسلام آباد کے سیکٹر آئی الیون کی افغان بستی والی جگہ بیٹھے دھرنا باز‘ واقعی تجربہ کار ٹیم ہے۔ آئیے اس کی کچھ جھلکیاں اسلام آبادی ہونے کے ناطے آپ سے شیئر کریں۔ 
پہلی جھلکی... دھرنے میں شریک خواتین اینکرز پہلے دن لباسِ دگر میں نظر آئیں۔ معمول کا وہی لباس جو ورکنگ ویمن اپنے ورک پلیس میں عشروں سے پہنتی آرہی ہیں۔ اب سر تا پا سیاہ پوش ہیں۔ اسلام آبا د عجیب بستی ہے۔ یہاں بڑے بڑے پارسا اپنے گائوں‘ حلقے اور اپنی رہتل میں انتہائی شریفانہ لباس زیب ِتن کرتے ہیں‘ لیکن جونہی‘ انہیں ریڈ زون کے پیچھے کسی ایمبیسی میں جانا ہو‘ ان کا لباس شور مچا مچا کر '' It's My Life‘‘ کا نعرئہ مستانہ بلند کردیتا ہے۔ یہ لباس صرف نعرہ بازی نہیں کرتا بلکہ گھوم برابر گھوم کہہ کر جھوم‘ جھوم اُٹھتا ہے۔ 
دوسری جھلکی... سوشلزم کے نفاذ کی ہے۔ لبرل ڈیمو کریٹس یا سوشل ڈیمو کریٹس کا تازہ شعوری فیصلہ ‘جس کے مطابق بقولِ شاعرِ مشرق اور اب بقول اعتزاز احسن بھی ‘ دھرنے کا منظر نامہ یوں ہے۔ ؎
ہے عیاں یورشِ تاتار کے ا فسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کوصنم خانے سے
وسائل کی منصفانہ تقسیم بھی اب کوئی خواب نہیں رہا۔ جسے یقین نہ آئے شہر کے غربی سیکٹروں میں جا کر دیکھ لے ۔ جہاں اکیلی خواتین کو روک کر درست لباس پہننے کا سلیقہ سکھایا جا رہا ہے ۔ سلیقہ سکھانے والے مقامی زبان نہیں جانتے اور لطف کی بات ‘ ان کی زبان سے مقامی خواتین واقف نہیں۔ بقول شاعر (تھوڑے تصرف کے ساتھ )؎ 
کوئی اس انجمن میں خاک بولے / حقیقت ناچتی ہے بال کھولے
نہیں دیکھا تھا جو اس بار دیکھو/ لگا ہے مصر کا بازار دیکھو
تیسر ی جھلکی... پاکستان کو پیرس بنا دینے والی ہے ۔پیرس کا معائنہ کرنے پنجاب کے آئرن مین المعروف خادمِ اعلیٰ بذات خود نئی ''شانزے لزے آف دھرنا‘‘ پر تشریف لائے ۔مگر 'ککھ نہ رہے ‘ اس چُک کا‘ جو شہباز شریف کا پیچھا نہیں چھوڑتی ۔ اقتدار ہو تو سٹیج پر ناچنے کودنے کی اجازت ہے‘ لیکن جونہی ‘ بے چارہ آئرن مین اپوزیشن میں جائے ‘اُس سے پھر پٹھو گرم جیسی چھیڑ چھاڑ شروع کر دیتی ہے۔ آپ خود سوچیں ‘ اپنی ''شانزے لزے‘‘ پر یہ مناظر دیکھ کر جرمنی اور فرانس کے سوشلسٹوں پر کیا گزرتی ہو گی؟
چوتھی جھلکی ...مولانا کی شرارت سے نکلی ۔ جب اُن کے ارد گرد گرفتارِ کرپشن لیڈروں کی باقیات کھڑی تھیں ‘ تب موصوف نے دھاڑ کر ان کی طرف دیکھا اور بے دھڑک بولے ''یہا ں تو سارا ٹبر چور ہے‘‘۔ اس پہ مولانا کا قہقہہ آسمان چیر گیا۔ لیکن چورٹبر والے کھسیانی ہنسی بھی نہ ہنس سکے۔ مذہبی سیاست کے ایک دوسرے مفتی صاحب نے بھی اظہارِ حقیقت کیا۔ فرمایا:میرے ساتھ مل کر نعرہ لگائو '' گو نواز گو۔ گو نواز گو‘‘۔
چلتے چلتے ‘اوپر درج پہلی دلیل کی طرف واپس چلیں۔ دھرنا تو عمران خان نے بھی دیا تھا‘ والی۔ تقابل کے لئے دور جانے کی ضرورت نہیں ۔ پہلا فرق‘ عمران نے چار حلقے کھولنے کا کہا ۔ الیکشن کمیشن ‘ پھر الیکٹورل ٹریبونلز ‘ اس کے بعد سپریم کورٹ کے سامنے۔ سپریم کورٹ نے 40فیصد الیکشن کو دھاندلی زدہ کہا‘ لیکن الیکشن کالعدم قرار دینے کی بجائے انتخابی اصلاحات پر زور دیا۔ پھر دھرنا آیا۔ جس میں پنڈی ‘اسلام آباد کی فیملیز کا غلبہ رہا۔آج Crowd on Rentہے ۔مقامی شہری کوئی نہیں۔ محترم طالبؔ جوہری نے خوب کہا۔؎
کوزہ گروں کی بستی میں مٹی کی کمیابی ہے
کوزے کتنے مہنگے ہیں پانی کتنا سستا ہے
اک موہوم نشانی پرطالب ؔہم نے کوچ کیا
منزل بھی انجانی تھی رستہ بھی ان دیکھا تھا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved