تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     05-11-2019

بغیر بارود والا کارتوس

میاں کہنے لگا؛ عثمان بزدار کی شہرت کافی خراب ہو رہی ہے اور اس کا امپریشن بہت منفی ہو رہا ہے۔ شوکت گجر یہ بات سن کر بڑے زور سے ہنسا اور کہنے لگا ؛شہرت اس کی خراب ہوتی ہے ‘جو پہلے اچھی ہو اور امپریشن اس کا منفی ہوتا ہے‘ جو اس سے پہلے کبھی مثبت رہا ہو‘ اپنے عثمان بزدار صاحب وزارتِ اعلیٰ کی لاٹری نکلنے سے قبل کسی قسم کی شہرت اور امپریشن سے مُبرا تھے۔ انہیں تو تحصیل تونسہ سے باہر کوئی نہیں جانتا تھا۔ اگر اب بھی وزیراعلیٰ نہ ہوتے تو بحیثیت ِممبر صوبائی اسمبلی‘ پنجاب اسمبلی کے خاموش ترین اور فارغ ترین ممبران میں اگر کوئی مقابلہ ہوتا تو پہلی پوزیشن حاصل کرتے۔ بھلا ان کی کیا شہرت خراب ہونی ہے اور کیا امپریشن برباد ہونا ہے؟ ان کی تقرری سے اگر شہرت خراب ہوئی ہے تو عمران خان کی ہوئی ہے اور اگر امپریشن برباد ہوا ہے تو وہ بھی عمران خان کا ہوا ہے‘ جس نے اسے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا چیف ایگزیکٹو تعینات کیا ہے۔ عثمان بزدار کا کیا قصور ہے؟
مسئلہ غلط فیصلہ نہیں‘ بلکہ اس غلط فیصلے پر اڑ جانا ہے۔ اس ناقص فیصلے پر ڈٹ جانا ہے اور اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے فیصلہ نہ بدلنے کی روش اصل قابلِ اعتراض بات ہے۔ غلطیاں انسانوں سے ہی ہوتی ہیں ‘لیکن غلطی کرنا بہرحال ناقابل معافی حرکت نہیں ہے۔ غلطی کا کفارہ دراصل اس کی اصلاح ہے۔ غلطی تسلیم کرنا اور اس کا مداوا کرنا اس کا سب سے بہتر اور مثبت حل ہے‘ لیکن اب اس غلطی کو سال سے اوپر ہو گیا ہے۔ صاف پتا چل رہا ہے کہ اس شخص سے کچھ بھی نہیں ہو پا رہا اور جو شخص ایک سال میں اپنی اس تعیناتی کو کسی بھی حوالے سے درست ثابت نہیں کر سکا‘ بھلا اسے اپنی صلاحیتوں کو ثابت کرنے کے لئے اور کتنا وقت درکار ہے؟ جو بندہ ایک سال کے تین سو پینسٹھ دنوں میں اپنی تقرری کا کوئی ایک جواز فراہم نہ کر سکے۔ اپنے عہدے پر قائم رہنے کی ایک وجہ بھی ثابت نہ کر سکے‘ بھلا اسے اور کتنی دیر آزمایا جانا چاہئے؟ سال کے بارہ مہینے وہ کچھ ثابت کیے بغیر ضائع کر دے تو بھلا اس پر اور کتنا وقت مزید ضائع کیا جا سکتا ہے؟
میاں کہنے لگا؛ آپ کا سارا حساب ہی غلط ہے اور آپ وقت کے تعین میں ڈنڈی مار رہے ہیں۔ موصوف کو وزیراعلیٰ بنے ساڑھے چودہ ماہ کے لگ بھگ گزر چکے ہیں اور تین سو پینسٹھ دن نہیں‘ بزدار صاحب تقریباً پچھلے چار سو چالیس دن سے وزارتِ اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہیں۔ یہ دنیا بھر میں کسی وزیراعلیٰ کا طویل ترین پروبیشن پیریڈ ہے‘ جو ملک کے وزیراعظم کی خالص ذاتی صوابدید‘ اَنا اور ضد کے طفیل مزید لمبا ہوتا جا رہا ہے۔ اگر کوئی شخص اب بھی یہ یقین رکھتا ہے کہ موصوف بطورِ وزیراعلیٰ پنجاب کوئی کارکردگی دکھا سکتے ہیں تو وہ شخص احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔
پھر میری طرف دیکھ کر میاں کہنے لگا؛ تم نے عرصہ ہوا ایک کالم لکھا تھا ‘ جس میں سردار بلدیو سنگھ آف تلونڈی سابو کے سائنسی تجربات کے نچوڑ پر مشتمل ان کی ذاتی ڈائری سے دو تین صفحات نقل کئے تھے۔ ان میں ایک واقعہ اگر خدا جھوٹ نہ بلوائے تو جو مجھے یاد ہے‘ وہ اس طرح تھا کہ سردار بلدیو سنگھ نے لکھا کہ ''ایک بار پانی کا مسئلہ بن گیا اور کھالوں کی ٹیل پر واقع زمینوں تک پانی پہنچنا ممکن نہ رہا۔ گاؤں والوں نے فیصلہ کیا کہ ٹیل تک پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے کھالوں کی بھل صفائی کی جائے۔ سو گاؤں والوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کھالوں کی بھل صفائی کی مہم شروع کر دی اور کھالوں میں ڈھیروں بھل نکال کر کناروں پر ڈھیر کر دی‘ مگر اس ساری محنت اور تگ و دو کے باوجود پانی ٹیل تک کی زمینوں تک نہ پہنچا‘ بلکہ ٹیل کی زمینوں تک کیا‘ نہر کے ساتھ واقع زمینوں تک بھی نہ پہنچا۔سر پنچ نے کہا کہ مزید بھل صفائی کی جائے۔ سو سب لوگوں نے زورو شور اور لگن کے ساتھ بھل صفائی دوبارہ شروع کر دی‘ لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ پانی نہ آنا تھا ‘نہ آیا۔ کئی دن کی محنت کے بعد بھی جب پانی کھال میں نہ آیا تو سب بہت مایوس اور افسردہ تھے کہ ان کی ساری محنت کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا۔ اسی دوران کسی سمجھدار آدمی کا وہاں سے گزر ہوا۔ اسے سارے معاملے کا بتایا گیا۔ اس نے کہا؛ اللہ کے بندو! نہر میں پانی نہیں ہے۔ آپ لاکھ بھل صفائی کریں‘ کھالوں میں ٹیل کی زمینوں پر پانی پہنچانا تو رہا ایک طرف‘ نہر سے متصل زمینوں تک بھی پانی نہیں پہنچ سکتا کہ پانی سرے سے موجود ہی نہیں۔ جب پانی ہی موجود نہیں تو بھلا بھل صفائی سے کیا ہوسکتا ہے؟ اس سارے تجربے سے سردار بلدیو سنگھ آف تلونڈی سابو نے ایک اہم نتیجہ اخذ کیا اور اس کو اپنی ڈائری میں تحریر کیا کہ '' تجربے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ اگر نہر میں پانی نہ ہو تو آپ کھالوں کی جتنی چاہیں بھل صفائی کرلیں‘ ٹیل کی زمینوں پر پانی نہیں پہنچتا‘‘۔ یہی حال اپنے عثمان بزدار کا ہے۔ ان کی صلاحیتوں کی نہر سرے سے خشک ہے ‘آپ لاکھ اِن کو حوصلہ افزائی کے انجکشن لگائیں ان سے کسی قسم کی کارکردگی کی کوئی توقع رکھنا انتہائی فضول اور احمقانہ امید ہوگی اور ان کی حکومت کی کارکردگی کا کھالہ خشک رہے گا۔
اللہ مجھے بدگمانی سے ‘بچائے عثمان بزدار سے کسی معجزے کی توقع کرنا بالکل ایسے ہے کہ آپ شکار پر جائیں اور جنگل میں جانے سے پہلے اپنے سارے کارتوسوں میں سے بارود نکال کر ڈھیر کریں اور اسے آگ لگا دیں۔ خالی کارتوسوں کو بندوق کے چیمبر میں ڈالیں اور شکار پر فائر کرتے ہوئے اس معجزے کے منتظر ہوں کہ اب ایک زور دار ''ٹھاہ‘‘ ہوگا اور شکار ڈھیر ہو جائے گا۔میں نے عثمان بزدار کے بارے جب بھی لکھا ہے ‘اپنے بہترین علم کے مطابق میرٹ پر لکھا ہے اور اسی وجہ سے ان کے حق میں کبھی کلمۂ خیرنہیں لکھ پایا‘ لیکن ایک بات کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہوگی کہ میرے مسلسل اپنے خلاف لکھے جانے کے باوجود انہوں نے میرے پرانے دوست عبدالقادر بزدار کو ایک چھوڑ تین تین یونیورسٹیوں کی سنڈیکیٹ کا ممبر نامزد کردیا ہے۔ یہ ان کی عظمت‘ بڑائی اور اعلیٰ ظرفی ہے کہ میری حرکتوں سے قطع نظر انہوں نے میرے عشروں پرانے دوست کو تینوں جامعات یعنی بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان‘ غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان اور فیصل آباد یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کی ''Eminent Scholar‘‘ یعنی ''عالی مرتبہ عالم‘‘ کی سیٹ پر نامزد کیا ہے۔ پنجاب کی جامعات کی تاریخ میں جو پذیرائی میرے دوست کو ملی ہے‘ اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی اور اس سے پہلے کسی وزیراعلیٰ نے کسی عالی مرتبہ عالم کو بیک وقت تین جامعات کی سنڈیکیٹ میں بیک وقت نامزد نہیں کیا‘ یہ پہلا موقعہ ہے کہ ایسی انہونی وقوع پذیر ہوئی ہے۔
اس نامزدگی سے مجھ جیسے ناقص العلم شخص کو اس بات سے آگاہی ہوئی کہ میرا یہ قدیمی دوست کس درجے کا بلند پایہ عالم ہے۔ میں اپنے اس کالم کے ذریعے اپنے عشروں پرانے دوست سے پوری قوم کو گواہ بنا کر معذرت طلب کرتا ہوں کہ میں آج تک اس کے اس عالمانہ مقام سے یکسر لاعلم اور بے خبر تھا۔ یہ سراسر میری نالائقی کے علاوہ اور کچھ نہیں‘ تاہم لگے ہاتھوں میں چودھری بھکن کی شدید مذمت کرتا ہوں‘ جس نے یہ کہہ کر میری ساری خوشی برباد کر دی ہے کہ وزیراعلیٰ نے تمہارے پرانے دوست عبدالقادر بزدارکو تین جامعات کی سنڈیکیٹ کی ممبر شپ تمہاری دوستی کی وجہ سے نہیں‘ اپنی انتہائی قریبی رشتے داری کی وجہ سے عطا کی ہے۔ وہ تو انہیں کسی یونیورسٹی کا وائس چانسلر بھی بنا دیتے ‘اگر سرچ کمیٹی جیسی نامعقول قسم کی پابندیاں درمیان میں حائل نہ ہوتیں۔ اللہ ہدایت دے اس چودھری بھکن کو‘ ہمیشہ میری خوشی کو اسی طرح غارت کر دیتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved