تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     05-11-2019

سرخیاں‘متن‘ غزل کے استعارے اور ابرارؔ احمد کی نظم

ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے‘ سارا ملک بند کر دیں گے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے‘ سارا ملک بند کر دیں گے‘‘ اور اگر سارا ملک ہی بند ہو گیا تو پھر حکومت بھی بند ہو جائے گی‘ اور صرف ہم کھلے ہوں گے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمیں واقعی کھول دیا جائے‘ کیونکہ واٹر کینن سب کچھ دھو کر رکھ دیتی ہے‘ اسی لئے میں نے کارکنوں سے کہہ دیا ہے کہ گھر سے نہا کر مت آئیں‘ کیونکہ یہ کام واٹر کینن بہت اچھی طرح کر دے گی‘ بلکہ الٹی میٹم کے برعکس وزیراعظم کے مستعفی نہ ہونے پر بھی رونا دھونا موقوف کر دیں‘ کیونکہ آنسو گیس انہیں آٹھ آٹھ آنسو رلا کر ان کی تسلی کر دے گی؛ حتیٰ کہ انہیں مگرمچھ کے آنسو بہانے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ آپ اگلے روز دھرنے میں شریک کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
عمران صاحب‘ گھر جانے کا وقت ہوا چاہتا ہے: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''عمران صاحب‘ گھر جانے کا وقت ہوا چاہتا ہے‘‘ بلکہ اب تک وہ گھر جا بھی چکے ہوتے اگر مولانا صاحب اپنی دی ہوئی ڈیڈ لائن سے پیچھے نہ ہٹ جاتے اور اب اگر وہ ملک کو بند کر لیں تو اس سے تو وزیر اعظم کبھی استعفیٰ نہیں دیں گے‘ بلکہ ہمیں الگ شرمندہ ہونا پڑ رہا ہے ‘کیونکہ میاں شہباز شریف شدید کمر درد کے عالم میں بھی وہاں گئے اور حسب معمول اُچھل اُچھل کر ایک زور دار تقریر بھی کر ڈالی اور نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا ‘نیز الٹا ہمیں یہ طعنہ بھی سننے کو مل رہا ہے کہ ہم دو بڑی پارٹیوں نے اپنی قیادت مولانا صاحب کے ہاتھ میں دے دی ؛ اور اوپر سے مولانا نے دھرنا کر کے کھوتا ہی کھوہ میں ڈال دیا ہے اور اب آئیں بائیں شائیں پر گزارہ کر رہے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں وزیراعظم کے بیان پر اپنا ردعمل ظاہر کر رہی تھیں۔
نواز شریف ڈیل کر کے باہر نہیں جائینگے: طلال چودھری
نواز لیگ کے رہنما طلال چودھری نے کہا ہے کہ ''میاں نواز شریف دھرنے کے ذریعے ڈیل کر کے باہر نہیں جائینگے‘‘ کیونکہ 20فیصد پیسے تو انہوں نے واپس کر دیئے ہیں اور باقی 80فیصد قطری شہزادہ جانے اور وہ جانیں جو کہ ویسے بھی ان کی ذمہ داری بنتی تھی‘ کیونکہ ان کے خط سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا تھا ‘بلکہ اُلٹا جگ ہنسائی کا موجب بنا تھا۔ سو‘ تلافیٔ مافات بھی ان پر فرض بنتا تھا‘ اس لیے اب میاں صاحب کو کسی ڈیل یا ڈھیل وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے اور جونہی اُنہیں ہسپتال سے اجازت ملتی ہے‘ وہ باہر نکل کر جہاں چاہیں جا سکتے ہیں اور اُنہیں کوئی نہیں روک سکتا ۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں شریک تھے۔
غزل کے استعارے
یہ انور ندیم علویٰ کا مجموعہ کلام ہے‘ جسے زربفت پبلی کیشنز لاہور نے چھاپا ہے۔ تعریف کرنے والوں میں احمد ندیم قاسمی‘ رئیس امروہوی‘ صبا اکبر آبادی‘ محسن بھوپالی‘ پروفیسر ڈاکٹر پرویز پروازی‘ نذیر قیصر؛ حتیٰ کہ یہ گنہگار بھی شامل ہے اور میں اب سوچ رہا ہوں کہ اس کا کفارہ کس طرح ادا کر سکتا ہوں‘ کیونکہ اگر اس شاعری میں کوئی خوبی تھی بھی تو بجائے اس کے کہ اس میں کوئی بہتری پیدا ہوتی‘ اسے ترقیٔ معکوس کا نام ضرور دیا جا سکتا ہے کہ یہ معمول کی شاعری ہے اور اس میں تازگی اور جان نظر نہیں آتی‘ تاہم ایسے شعری مجموعوں کی اشاعت کو آپ روک بھی نہیں سکتے ‘کیونکہ ایسی شاعری کے پڑھنے والے بھی موجود ہوتے ہیں‘ اور اگر موصوف کی شاعری کی تعریف ماضی میں نہ کی جاتی‘ تو شاید اب تک کچھ بہتر صورتحال پیدا ہو چکی ہوتی اور اگر شاعر اسے غزل کے استعارے کا نام دیتے ہیں‘ تو ہم‘ آپ ان کا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟ بہرحال ان کے حق میں دُعا ہی کی جا سکتی ہے !
اور‘ اب آخر میں ابرار احمد کی نظم:
یہ کالک کیوں نہیں جاتی...
لباسِ زر پہن رکھا ہو
چادر ہو فقیری کی
بدن کو اوڑھ رکھا ہو
کہ دبکا ہوں لحافوں میں
یہ کالک‘ داغ ہے ماتھے کا
دل پر نقش ہے
اطراف سے امڈی ہوئی گالی ہے
اک خوف ہے
جو ہر گھڑی گردش میں رہتا ہے
نحوست ہے
کہیں سے کاٹ دے گی زندگی کا راستہ...
لہو میں روک ہے
کیچڑ ہے
اُجلے دن کے ماتھے پر
تباہی ہے
کوئی بہتان ہے
چبھتا ہوا اک جھوٹ ہے
بکواس ہے
نفرت کا دھارا ہے
اُچھلتا ہے‘ مچلتا ہے
کہ پہناوے پہ دھبّا ہے
بہت مَل مَل کے دھوتا ہوں
یہ کالک کیوں نہیں جاتی...!
آج کا مطلع
کچھ پتا چلتا نہیں کس طرح کی آواز ہے
ان اندھیروں میں یہ تو ہے یا تری آواز ہے

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved