گزشتہ ماہ پاکستان اوربھارت نے کرتارپور راہداری کے معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کی بدولت سکھ یاتری بغیر ویزے کے پاکستان میں موجود اپنے مقدس مقامات کا دورہ کر سکیں گے‘ نیزکرتار پور راہداری کو 9 نومبر سے کھولنے پر اتفاق کر لیا گیا ہے۔اس راہداری کے منصوبے کا سنگ ِبنیاد 28 نومبر 2018ء کو رکھا گیاتھا۔ تقریباً ایک سال میں گردوارہ ڈیرہ بابا نانک سے پاک بھارت سرحد تک ساڑھے چار کلو میٹر لمبی سڑک اور دریائے راوی پر پُل کی تعمیر مکمل کی جاچکی ہے۔
پاکستان نے بابا گرونانک کے 550 ویں جنم دن پر 50 روپے کا یادگاری سکہ اور یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا ہے۔ سکھ برداری نے گزشتہ کئی ادوارسے اس راہداری کا مطالبہ کیا ہوا تھا۔ دونوں ممالک کی حکومتوں نے اس سلسلے میں 1998ء‘ 2004ء اور 2008 ء میں ابتدائی بات چیت کی تھی‘ تاہم اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا‘جس کی وجہ کشمیر کے مسئلہ پر بھارتی ہٹ دھرمی اوردونوں کے درمیان سرحدوں پر کشیدگی تھی۔پاکستان اوربھارت نے کرتارپور راہداری کے معاہدے میں جن اہم نکات پر اتفاق کیا؛ان میںبھارت سے کسی بھی مذہب کے یاتری اس راہداری سے سفر کر سکیں گے۔یہ سفر ویزے کے بغیر ہوگا‘ تاہم سفر کیلئے درست پاسپورٹ اور الیکٹرانک سفری اجازت نامہ (ای ٹی اے) ہونا لازم ہوگا۔ بھارت سے تعلق رکھنے والے دیگر ممالک کے لوگ بھی راہداری کا استعمال کرسکیں گے۔انہیںسفر کیلئے اپنے ملک کا پاسپورٹ اور او آئی سی کارڈ درکار ہوگا۔راہداری پورے سال کھلی رہے گی۔ بھارتی حکام پاکستان کو یاتریوں کی فہرست 10 دن پہلے فراہم کریں گے۔پاکستان لنگر اور پرساد کے ضروری انتظامات کرے گا‘ جبکہ سروس چارجز کی مد میں 20 ڈالر وصول کیے جائیں گے۔اس سہولت سے یومیہ 5000 یاتری اس راہداری کا استعمال کر سکیں گے۔
کرتارپور میں گردوارہ صاحب کی تعمیر پٹیالہ کے مہاراجہ بھوپندر سنگھ بہادر کے دور 1921ء سے 1929ء کے درمیان ہوئی تھی۔ گردوارہ سکھ مذہب کے بانی گرو نانک دیوجی مہاراج کی یاد میں بنایا گیا۔سکھ مذہب کے روحانی پیشواگرو نانک کی پیدائش 1499 عیسوی کو ننکانہ صاحب میں ہوئی اور ان کے والد کا نام ''مہتا کلیان داس‘‘ اور ماں کا نام ''ماتا ترپتا‘‘تھا۔گرو نانک 1521ء کو اس گائوں میں تشریف لائے ۔ کرتار پور کے نام سے گاؤں کو آباد کیا۔ 1539ء تک انہوں نے یہاں قیام کیا اور اپنے قیام کے دوران کھیتی باڑی بھی کرتے رہے۔ بابا گرو نانک کو سکھ مذہب کے لوگ اپنا گرو اور مسلمان اپنا بزرگ مانتے تھے‘ جن کی زندگی انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے۔
22 ستمبر 1539ء کو جب گرو نانک کا انتقال ہوا تو سکھوں اور مسلمانوں میں تنازع پیدا ہوگیا‘ لیکن گرو نانک کی آخری رسومات اپنے اپنے مذہب عقائد کے مطابق ادا کی گئیں۔کچھ روایات کے مطابق‘ اس جھگڑے کے فیصلے کیلئے کسی درویش کی خدمات حاصل کی گئیں‘بزرگ کے کہنے پر گرو نانک کے جسم سے چادر اٹھائی گئی تو ان کے جسد خاکی کی بجائے پھول موجود تھے ۔بزرگ کے فیصلے کے مطابق ‘چادر اور پھولوں کو دو حصوں میں بانٹ کر اپنی اپنی مذہبی رسومات کے مطابق‘ مسلمانوں نے چادر اور پھولوں کو دفن کیا‘ جبکہ سکھوں نے اسے جلا کر سمادھ استھان بنا لیا۔ آج بھی یہ دونوں نشانیاں قائم ہیں۔کوئی دو رائے نہیں کہ سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک کی آخری آرام گاہ گردوارہ کرتار پور سکھوں کی سب سے بڑی عقیدت گاہ ہے۔ یہ ڈیرہ بھارتی سرحد کے قریب نالہ بئیں اور دریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔شکر گڑھ کے موضع کرتار پور میں ڈیرہ بابا گرو نانک دیو جی‘ پاک بھارت بارڈر سے محض ساڑھے تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ محض 30 منٹ میں پیدل طے کرکے سرحد پار سے لاکھوں عقیدت مند یاتری درشن اور دیگر مذہبی رسومات ادا کر تے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد بھارت میں بسنے والے لاکھوں سکھوں کو ویزے کے انتظار‘ سکیورٹی اورسکروٹنی کے بعد واہگہ کے راستے سفر اور بھاری بھر کم اخراجات کے بعد گردوارہ کا درشن میسر آتا تھا۔اس کے سامنے سرحد پار بھارتی شہر ڈیرہ بابا گرو نانک میں ایک درشن استھان بنایا گیا ‘ جس پر کھڑے ہو کر سرحد پار سکھ اس ڈیرے کا دیدار کرتے ہیں۔ 1999ء میں پاکستان نے ڈیرہ بابانانک کی یاترا کے لیے بھارت کو پیش کش کی تھی کہ یہاں باڑ لگا کر ایک کوریڈور بنادیتے ہیں ‘ تاکہ یاتری صبح آئیں اور شام کو واپس چلے جائیں‘مگر بھارت سے مثبت جواب نہیں دیا گیا تھا۔کرتار پور سرحد کھلنے کی امید کے ساتھ ہی ایک سال قبل ڈیرہ بابا نانک پر تزئین وآرائش‘ رنگ وروغن‘ لان سے گھاس کی کٹائی اور نئی تعمیرات کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا۔صرف کرتار پور ہی نہیں ‘خیبر سے لے کر کراچی تک سکھوں کے کئی تاریخی گردوارے آج بھی موجود ہیں۔خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقہ جات میں سکھ دور کے 27 قلعوں کی نشاندہی ہو چکی ہے‘جن میں کئی قلعوں کے نام و نشان بھی ڈھونڈنا مشکل ہے ‘لیکن کئی ایک بہتر حالت میں ہیں جن میں اٹک‘ اکوڑہ خٹک‘ شب قدر‘ بالا حصار اور جمرود قلعہ شامل ہیں۔پاکستان کے زیرانتظام آزاد کشمیر کے ضلع بھمبر میں علی بیگ کے مقام پر واقع گردوارہ سکھ دور کے فن تعمیر کی اعلیٰ مثال ہے۔تقسیم ہند کے وقت جب مسئلہ کشمیر پیدا ہوا ‘ تو اس گردوارے میں سینکڑوں ہندو اور سکھ قیدیوں کو رکھا گیا تھا۔ اس گردوارے کے ساتھ ایک سکول بھی تھا۔ یہیںگرمکھی کی تعلیم دی جاتی تھی اور آج بھی کئی لوگ گرمکھی جانتے ہیں۔
کرتار پور کی بات کریں تو وہاں پانچ گردوارے موجود ہیں‘جن کے نام پال لیلا صاحب (جہاں بابا گرونانک پیدا ہوئے)‘ گردوارہ پٹی صاحب (جہاں تعلیم حاصل کی)‘ گردوارہ مال جی صاحب (جہاں بھی مال مویشی چرایا کرتے تھے‘گردوارہ کیارہ صاحب (جہاں کی کھیتی اجڑ گئی تھی‘ مگر بابا گرونانک کے کمال سے دوابرہ ہری بھری ہوگئی تھی) اسی طرح پانچواں گردوارہ تنبو صاحب (جس کے بارے میں مشہور ہے کہ بابا جی‘ اپنے والد کے خوف سے ڈر کے چھپ گئے تھے‘ کیونکہ انہوں نے رقم کاروبار کے لیے دی تھی اور انہوں نے لنگر میں صرف کر دی تھی) اسی طرح پنجاب کے دیگر مقامات شیخو پورہ کے قریب منڈی چوہُڑ کانہ (پرانا نام) موجودہ فاروق آباد کے قریب سچا سودا گرداورہ موجود ہے‘ جہاں سے لنگر کی تقسیم کا آغاز ہوااور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔اس سے ایک کلومیٹر ہی دور ایمن آباد کے مقام پر گردوارہ روہڑی صاحب موجود ہے‘اسی طرح گردوارہ لالو دی کھوئی ایمن آباد ‘بابے دی بیری صاحب سیالکوٹ اور گردوارہ پنجہ صاحب حسن ابدال مشہور ومعروف ہیں۔