تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     06-11-2019

کرتار پور کاریڈور اور پاک بھارت تعلقات

پنجاب کے گورنر چودھری محمد سرور نے کہا ہے کہ کرتار پور کاریڈور‘ جس کا باقاعدہ افتتاح 9 نومبر کو وزیراعظم عمران خان کے ہاتھوں ہونے جا رہا ہے‘ پاک بھارت تعلقات کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں چودھری محمد سرور کا مشکور ہونا چاہئے اور ان کے بیان کو سراہنا چاہئے کہ انہوں نے بھارتی ریاست پنجاب اور پاکستانی صوبہ پنجاب کے درمیان اس قدیم اور تاریخی رابطے کی از سر نو بحالی کو وسیع تر تناظر میں پیش کیا ہے۔ ان کے خیالات میں یہ وسعت اُن کے وسیع سیاسی تجربے کی غماز ہے‘ ورنہ پاکستان کے عام سیاستدانوں کو یہ توفیق کہاں ہوتی ہے کہ وہ اس اہم اقدام کو اس کے صحیح تناظر میں پیش کرسکیں۔ گورنر پنجاب کی خدمت میں عرض ہے کہ کرتار پور کاریڈور نہ صرف پاک‘ بھارت تعلقات کو بہتر بنانے ‘بلکہ ایک لحاظ سے مسئلہ کشمیر کو بھی حل کرنے میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔ وہ اس طرح کہ دریائے راوی کے کناروں کو ملانے والا یہ کاریڈور ایک ایسی تاریخی اور قدیم شاہراہ پر واقع ہے جو امرتسر‘ نارووال اور درمان کے راستے دہلی اور جموں کے درمیان بذریعہ بس اور ٹرین تجارتی سامان کی نقل و حرکت اور لوگوں کی آمد و رفت کے لئے استعمال ہوتی تھی۔ 2008 ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان راولا کوٹ اور پونچھ کے درمیان لائن آف کنٹرول کے آر پار تجارت کے کامیاب تجربے کے بعد‘ دونوں ملک جموں اور سیالکوٹ اور کرتارپور کے راستے جموں اور امرتسر کے درمیان ورکنگ باؤنڈری کو کراس کر کے اس قسم کے تجارتی معاہدے کا جائزہ لے رہے تھے‘ لیکن بدقسمتی سے نومبر 2008 ء میں ممبئی میں دہشت گردی کے واقعات نے نہ صرف اس جانب پیش رفت کا ر استہ روک دیا بلکہ 2004ء میں شروع ہونے والے امن مذاکرات کے سلسلے کو بھی پیچھے دھکیل دیا‘ ورنہ لائن آف کنٹرول کے آر پار تجارت کے حجم میں مزید اضافہ کرنے کے بعد ورکنگ باؤنڈری کے آر پار تجارت اور لوگوں کی آمد و رفت کو شروع کرنے کا پروگرام پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کے زیر غور تھا۔
اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان اعتماد سازی کے ان اقدامات کا سلسلہ جاری رہتا تو نہ صرف دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں کمی آتی‘ بلکہ مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف پیش قدمی کے لئے بھی راہ ہموار ہوتی۔ کرتار پور کاریڈور بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان اعتماد سازی کا ایک اہم اقدام ہے اور اس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں بہتری آنی چاہئے۔ مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا بلکہ شروع دن سے ہی بدگمانی‘ شکوک و شبہات اور الزام تراشیوں کا شکار رہا ہے۔ یہ سچ ہے کہ اس کاریڈور کی تعمیر پر پاکستان کی رضامندی کا اظہار ایک تقریب میں گزشتہ برس سب سے پہلے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کیا تھا۔ پاکستان بھارت اور دنیا بھر کے سکھوں نے اس اعلان کا زبردست خیرمقدم کیا ‘ کیونکہ سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک کے آخری 18برس کے قیام کے مقام پر تعمیر شدہ گردوارہ دریائے راوی کے اس پار یعنی پاکستانی علاقے میں واقع ہے اور بھارتی سکھوں کو اس کی زیارت کے لئے امرتسر سے لاہور اور پھر لاہور سے نارووال کا لمبا چکر کاٹ کر آنا ہوتا تھا۔ پہلے تو لاہور سے نارووال براہ راست کوئی سڑک نہیں تھی اور زائرین کو لاہور سے نارووال پہنچنے کیلئے مرید کے اورنارنگ کا راستہ اختیار کرنا پڑتا تھا‘ لیکن چودھری پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کے دور میں ایک سڑک لاہور اور نارووال کے درمیان شاہدرہ‘ کالا خطائی اور بدوملہی سے گزرتی ہوئی تعمیر کی گئی۔ اس سے سکھ زائرین کی مشکلات میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی‘ مگر پھر بھی ان کا مطالبہ تھا کہ کرتار پور کاریڈور تعمیر کر کے مشرقی اور مغربی پنجاب کے درمیان براہ راست راستہ مہیا کیا جائے۔ سکھوں کی اس خواہش کے جواب میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے ادوار میں اس کاریڈور کی تعمیر کا جائزہ لیا گیا‘ لیکن سکیورٹی خدشات کے پیش نظر اس کی منظوری نہیں دی گئی۔ تاہم گزشتہ برس وزیراعظم عمران خان کی حلف برداری کی تقریب میں بطور مہمان آنے والے سابق کرکٹر اور مشرقی پنجاب کے ایک سرکردہ سکھ رہنما نوجوت سنگھ سدھو سے ملاقات کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بتایا کہ پاکستان اس کاریڈور کی تعمیر پر راضی ہے ۔اس انکشاف سے سکھوں میں تو خوشی کی لہر دوڑ گئی‘ لیکن کانگرس سے تعلق رکھنے والے مشرقی پنجاب کے وزیراعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے خدشہ ظاہر کیا کہ پاکستان اس کے ذریعے بھارت خصوصاً مشرقی پنجاب میں تخریبی کارروائیوں کیلئے اپنے ایجنٹ بھیجنے کی کوشش کرے گا۔ انہیں اعتراض اس بات پر تھا کہ کاریڈور کی تعمیر کا فیصلہ اور اعلان چیف آف آرمی سٹاف کی بجائے وزیراعظم کو کرنا چاہئے تھا۔
مشرقی پاکستان کے وزیراعلیٰ کے اس بیان کے خلاف بھارتی سکھوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ جہاں تک مرکز میں بی جے پی کی حکومت کا معاملہ تھا‘ اس کی پوزیشن اور بھی قابل دید تھی ۔ایک طرف خود بھارت متعدد بار ماضی میں پاکستان سے اس کاریڈور کی تعمیر کی درخواست کر چکا تھا اور اب جبکہ خود پاکستان نے اس کی تعمیر کی پیش کش کی‘ اس کے لئے اس پیش کش کو ٹھکرانا یا نظر انداز کرنا مشکل تھا۔ بھارت کی اس الجھن کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ نریندرمودی کی حکومت نے پاکستان کی پیش کش کا بڑی دیر کے بعد جواب دیا۔ آخر کار دونوں ملکوں نے کاریڈور کی تعمیر پر اتفاق کر کے اس کے مختلف پہلوؤں کی تفصیلات طے کرنے کیلئے باہمی مذاکرات کا آغاز کیا۔ ان مذاکرات کے دوران میں بھی متعدد اُتار چڑھاؤ آتے رہے۔ ایک موقعہ پر بھارت کی طرف سے پاکستان پر الزام عائد کیا گیا کہ کاریڈور کی تعمیر دیکھ بھال اور انتظام و انصرام کیلئے جو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اس میں پاکستان کی طرف سے ''خالصتان تحریک‘‘ سے تعلق رکھنے والے سکھوں کو نامزد کیا گیا ہے۔ اس جھگڑے کی وجہ سے مذاکرات کا سلسلہ کئی ماہ تک معطل رہا۔ اس کے بعد پاکستان کی طرف سے سکھ یاتریوں کی پاکستانی علاقے میں داخل ہونے کی فی کس 20ڈالر فیس پر بھارت کو اعتراض تھا‘ لیکن پاکستان کے اصرار پر بھارت کو بالآخر اتفاق کرنا پڑا (بابا گرونانک کے یوم پیدائش کی تقریبات کے موقع پر پاکستان آنے والے یاتریوں کو یہ فیس معاف ہو گی)۔
9نومبر کو وزیراعظم عمران خان اس کاریڈور کا افتتاح کر رہے ہیں‘ لیکن بھارت اس تقریب میں سرکاری طور پر شریک نہیں ہو رہا بلکہ اس کا وہ اپنے علاقے میں الگ اہتمام کریں گے۔ پاکستان نے سابق بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کو بھی مدعو کیا تھا‘ لیکن انہوں نے بھی سرکاری حیثیت سے اس میں شرکت سے ا نکار کر دیا‘ حالانکہ پاکستان نے 9نومبر کی تقریب میں سکھ زائرین کی شرکت کو سہل بنانے کیلئے پاسپورٹ کی شرط بھی ختم کر دی ہے۔ پاکستان کی طرف سے بھارتی حکومت پر کرتارپور کاریڈور کی تعمیر کو سیاسی رنگ دینے کا الزام عائد کیا جاتا ہے اور دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پاکستان نے یہ اقدام ملک میں مذہبی ٹور ازم کو پروان چڑھانے کیلئے کیا ہے ‘مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح کا فراخ دلانہ رویہ سکھ یاتریوں کیلئے دکھایا جاتا ہے‘ ہندو اُسی سے کیوں مستثنیٰ ہیں؟ حالانکہ اس وقت بھی پاکستان میں سکھوں کے مقابلے میں ہندو مذہب کے پاکستانی شہری زیادہ تعداد میں ہیں ‘اس کے علاوہ سکھوں کے مذہبی مقامات کے مقابلے میں ہندو مذہب کے مذہبی مقامات نہ صرف زیادہ ہیں بلکہ پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں جبکہ سکھوں کے اہم مذہبی مقامات صرف پنجاب تک محدود ہیں۔ اگر پاکستان مذہبی ٹور ازم کو ترقی دینا چاہتا ہے تو موجودہ حکومت کو چاہئے کہ وہ بدھ مت اور سکھ دھرم کے پیروکاروں کے علاوہ ہندوؤں کو بھی اپنے مذہبی مقامات کی زیارت اور دیکھ بھال کے لئے‘ وہی سہولیات اور مراعات فراہم کرے جو سکھوں کو دی جا رہی ہیں۔ پنجاب کے گورنر چودھری سرور اگر مذہبی ٹورازم کے ذریعے پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے آرزو مند ہیں تو انہیں مرکزی حکومت کو ویزے اور پاسپورٹ کے معاملے میں تمام غیر مسلموں کیلئے یکساں پالیسی اپنانے کی سفارش کرنی چاہئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved