کیا کریں بھئی۔ زندگی میں کچھ نا ہنجار اور بے ہودہ سوال بہت تنگ کرتے ہیں۔ تعلیمی دور سے آگے نکل آئیں تب بھی سوال آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ بلکہ سچ پوچھیں تو آگے آ کر سوالات کی تعداد بھی بڑھنے لگتی ہے اور ان کی اہمیت بھی۔ سوال بھی کسی ایک سمت کے نہیں۔ زندگی کے ہر شعبے اور ہر موضوع سے متعلق سوال۔ سب سے زیادہ مسئلہ وہ سوال پیدا کرتے ہیں جن کا زندگی کے کسی بھی موڑ پر کوئی بھی تسلی بخش جواب کبھی آپ کو نہیں ملتا۔ یہ نا ہنجار اور بے ہودہ سوال ایسے ذہن سے چپکتے ہیں کہ کسی وقت چین نہیں ملتا۔ جواب جھولی میں پڑے تو چین بھی پڑے۔
میں یہ سوالات عام طور پر کسی سے نہیں پوچھتا۔ پوچھ بھی کیسے سکتا ہوں۔ مذہب، مسلک اور سیاست سے متعلق سوالات ہمیشہ نازک اور حساس ہوتے ہیں۔ ان سے لوگوں کی گہری وابستگی ہوتی ہے اور ان کے لیے لڑنے مرنے کا جذبہ بھی۔ اور میرا مشاہدہ اور تجربہ یہی ہے کہ سب سے زیادہ جذباتی وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے پاس سوالوں کے منطقی اور اطمینان بخش جواب نہیں ہوتے۔ آپ نے ان صفات کے مالک کسی شخص سے کبھی ایسے سوال پوچھے ہوں تو یقینا ان کا اختتام تعلقات بلکہ حلیہ خراب ہونے پر ہوا ہو گا۔
لیکن کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ دل کڑا کر کے سیاست سے متعلق کچھ ایسے سوال پوچھ ہی لوں جنہوں نے تنگ کر رکھا ہے۔ اور مجھے ہی کیا مجھ جیسے ہر عام آدمی کو۔ میں ایک عام آدمی سہی، کروڑوں عام آدمیوں جیسا۔ لیکن دیکھنے، سوچنے اور محسوس کرنے والا عام آدمی کم اہم نہیں ہوتا‘ اس لیے میں بھی اہم ہوں اور میرے سوال بھی۔ اور یہ کوئی پیچیدہ سوال بھی نہیں ہیں۔ بہت سادہ اور عام سے استفسارات ہیں۔ اور کسی ایک سیاسی پارٹی سے نہیں‘ سب سے ہیں۔ حضور فیض گنجور! کیا اجازت ہے کہ باری باری سب سے کچھ سوال پوچھ لیے جائیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ اپنے دل سے اٹھنے والے جواب بھی سامنے رکھ دئیے جائیں۔ مانیں، نہ مانیں، مرضی آپ کی ہے۔
اس وقت دھرنے کا معاملہ گرم چاکلیٹ کی طرح کالم نگاروں کا موضوع ہے‘ تو اس چاکلیٹ کے چند گھونٹ مجھے بھی بھر لینے دیجیے۔
پہلا سوال تو دھرنے میں موجود سب جماعتوں سے ہے۔ یعنی اجتماعی سوال۔ دھرنے میں نظریاتی اور سیاسی مخالفین جن کی ہمیشہ سے ایک دوسرے سے کشمکش رہی ہے‘ سب اکٹھے ہیں۔ جے یو آئی اور محمود اچکزئی ہمیشہ بلوچستان میں حریف رہے ہیں۔ اے این پی اور جے یو آئی ہمیشہ کے پی کے میں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہوتے ہیں۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی لڑائیاں کس کو یاد نہیں۔ ان کے علاوہ بھی مختلف مزاج اور نظریات کے لوگ اس میں اکٹھے ہیں۔ مذہبی طبقات میں بھی مختلف مسالک کے لوگ کنٹینر پر کھڑے ہیں۔ اس بات کو نہیں چھیڑوں گا کہ یہ اتحاد مبارک ہے یا نا مبارک۔ میرا سوال یہ ہے کہ کس وجہ اور کس مقصد نے ان سب لوگوں کو اکٹھا کیا ہے؟ یہ سب مل کر، اتنی محنت کرکے کس چیز کو بچانے نکلے ہیں؟ مذہب‘ ملک یا جمہوریت؟ مذہب اس لیے نہیں ہو سکتا کہ کچھ پارٹیاں سیکولر کہلاتی ہیں۔ وہ اس رخ پر نہیں سوچتیں۔ تو یہ پارٹیاں اس کے لیے کیوں مارچ کریں گی؟ اور اسی سے پھوٹتا ایک سوال یہ بھی ہے کہ اسلام کو اس وقت کیا ایسا خطرہ لاحق ہے جس کی وجہ سے یہ مارچ ناگزیر تھا؟
جمہوریت بھی نہیں ہو سکتی کہ ان جماعتوں میں سے ہر ایک دوسرے پر جمہوریت کا قاتل، فسطائی، اور ہر جمہوریت کش حربہ استعمال کرنے کے الزامات بار بار لگا چکی ہے۔ نون لیگ کیا اور پیپلز پارٹی کیا۔ انہی دونوں نے ایک دوسرے پر جمہوریت کو بالائے طاق رکھ دینے کے کیا کیا الزامات نہیں تھوپ رکھے؟
ملک بچانے کا معاملہ اس لیے نہیں ہو سکتا کہ قوم پرست جماعتوں کا اس معاملے سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ ان میں سے کچھ تو ملک میں انتشار کی ہر تحریک میں شامل رہنا پسند کرتی ہیں اور کھل کر وہ باتیں کرتی رہی ہیں جن کا تعلق ایک خاص کلچر، ایک خاص علاقے اور ایک خاص قومیت سے اوپر ہے ہی نہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ تینوں باتیں دھرنے میں بار بار سنائی دیتی ہیں، کبھی کسی کی طرف سے اور کبھی کسی کی طرف سے۔ یہ آوازیں سب خلط ملط ہیں اور واضح نہیں ہو پا رہا کہ مذہب، جمہوریت اور ملک میں سے وہ کیا چیز ہے جسے بچانا مقصود ہے؟
تو پھر وہ چیز ہے کیا‘ جس نے ان سب حکومت مخالف جماعتوں کو مجبور کر دیا کہ سب بندہ و بندہ نواز ایک ہی کنٹینر پر کھڑے ہو جائیں اور محمود و ایاز وہیں مل کر با جماعت نماز ادا کریں؟ وہ لوگ جنہیں مولوی فوبیا ہے‘ وہ کیوں بڑھ بڑھ کر مولانا فضل الرحمن صاحب سے گلے مل رہے ہیں۔ جواب درکار ہے اور جواب بھی تسلی بخش۔ کیا کبھی ملے گا؟
دل تو یہی کہتا ہے کہ یہ سب اپنے ووٹ بینک بچانے کی کوشش ہے۔ پی ٹی آئی جس طرح ایک لہر کی شکل میں سابقہ سالوں میں آگے بڑھی ہے اس نے بلا استثنا سب جماعتوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ اگر یہ لہر آگے بڑھتی ہے تو بہت سی جماعتوں کا صفایا قریب ہے۔ عام آدمی کے دل سے پی ٹی آئی نکلنی ضروری ہے۔
اور دوسرا سوال تحریک انصاف خاص طور پر جناب وزیر اعظم صاحب سے ہے۔ سیاست میں پی ٹی آئی کی طرف سے مخالفین کے لیے جو زبان سنی گئی کی‘ خصوصی طور پر دھرنے کے زمانے میںسجائے گئے سٹیج سے جس طرح ڈینگی برادران‘بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر 'اوئے نواز شریف‘ والی زبان استعمال کی گئی، اس سے پنڈال کی وقتی پسندیدگی تو مل گئی‘ لیکن سچ یہ ہے کہ عمران خان صاحب نے اس سے اپنے آپ کو سخت نقصان پہنچایا۔ حد یہ ہے کہ وزیر اعظم بننے کے بعد بھی وہ مولانا پر پھبتی کستے رہے ہیں۔ میرا سیدھا سا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی پرمٹ کبھی کسی دور میں مولانا فضل الرحمن نے لیا تھا تو اب آپ حکومت میں ہیں، اسے تفصیلات کے ساتھ سامنے کیوں نہیں لایا جاتا۔ آج تک ایسا کوئی ثبوت دیا ہی نہیں گیا جس سے اس کی تصدیق ہو سکے۔ اگر ایسا کوئی پرمٹ موجود ہے اور اس کے لیے تمام ضروری شرائط پوری کی گئی تھیں اور کسی طرح سے حکومتی خزانے کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچا تو اس میں کون سی برائی تھی اور ایک پاکستانی کی حیثیت سے کوئی کاروبار اگر جہانگیر ترین، علیم خان وغیرہ کے لیے جائز ہے تو کسی اور سیاست دان کے لیے ناجائز کیسے ہے؟ اور اس پر پھبتی کیسی؟
دل کا جواب یہ ہے کہ درحقیقت ایسا کوئی ثبوت موجود ہوتا تو پی ٹی آئی اپنے سخت جان حریف کو نیچا دکھانے کے لیے پہلے ہی دکھا چکی ہوتی۔ کروڑوں پاکستانیوں کو دلی افسوس ہوتا ہے جب وزیر اعظم ایک عالمی مدبر اور مقرر کی سطح سے نیچے آ کر گلی محلے کی زبان میں بات کرتے ہیں۔ اور ایسی پھبتی کسنے کی کوشش کرتے ہیں جس کا ان کے پاس سالہا سال سے کوئی ثبوت نہیں۔ ایسا کرکے وہ کسی مخالف کا نہیں اپنا قد چھوٹا کرتے ہیں۔
لیجیے‘ سوالات صرف دو ہوئے اور کالم ختم ہو گیا۔ ابھی تو خود مولانا صاحب سے پوچھا جانے والا سوال رہتا ہے۔ اور پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون، اے این پی، جماعت اسلامی سے چبھتے ہوئے سوال باقی ہیں۔ لیکن اب کسی دوسرے کالم میں سہی۔ یہ تو بدیہی بات ہے کہ سب دلوں کے سوال باہم مل سکتے ہیں نہ سب کے جواب‘ لیکن یہ بات میرے لیے اہم ہے کہ ان دونوں سوالات کے جو میرے دل نے جواب دئیے۔ کیا وہ آپ کے جوابات سے ملتے ہیں۔ ہم کچھ کر سکیں یا نہیں۔ ہمارا کچھ اختیار ہو یا نہ ہو۔ جواب تو درست ملنے چاہئیں۔ رہی بات اختیار کی تو کسی اور پر کیا، اختیار دل پر بھی کب ہوتا ہے۔