گروہوں، جماعتوں اور افراد کے مفادات ہوتے ہیں، اور یہ مفادات علاقوں اور علاقائی وابستگیوں کی نسبت زیادہ موثر ہوتے ہیں۔ سب لوگ مفاد کے تناظر میں اپنا زاویہ نگاہ وضع کرتے ہیں۔ نظریات اور سیاسی رجحانات ان مفادات پر ڈالا گیا پردہ ہوتے ہیں۔ معاشرتی اور سیاسی دنیا کا ہمہ گیر مفروضہ یہ ہے کہ مفاد ہی فرد اور معاشرے کو متحرک رکھتے ہیں۔ انہی سے طاقت اور سمت کے پیمانے طے ہوتے ہیں۔ ہر نوعیت کے مفادات بنی نوع انسان کے مادی، نظریاتی اور فکری اصولوں کا تعین کرتے ہیں۔ انہی سے عظمت اور غلبہ پانے کا جواز سند پاتا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کون کس قسم کے مفادات کے زیرِ اثر ہے۔ وقت اور جگہ کی تبدیلی کے ساتھ ہماری مفاد پرستی اور اُس کا رخ بھی نئی سمت تلاش کرتا ہے۔
جہاں کروڑوں لوگ اور ہزاروں گروہ ہوں، وہاں مفادات کا ٹکرائو ہونا خارج از امکان نہیں۔ پاکستان ہی نہیں، ہر معاشرے پر اسی صورتحال کا اطلاق ہوتا ہے۔ ہمیشہ سے ایسا ہی ہو رہا ہے۔ تو پھر معاشرے میں امن اور استحکام کیسے پیدا ہو گا؟ ہم آہنگی کیسے آئے گی؟ سب سے اہم، ذاتی اور گروہی مفادات کے سامنے قومی مفادات کی کیا حیثیت ہو گی؟ اس مقام پر عظیم مفکر ارسطو نے دو معروضات کو ملا کر ایک اصول طے کیا تھا، کہ انسان نہ صرف ایک معاشرتی بلکہ سیاسی حیوان بھی ہے؛ چنانچہ اس الجھن کا حل سیاست میں ہے۔
کامیاب سیاست دان اور سیاسی نظام کا معیار یہ ہے کہ وہ کتنے مؤثر طریقے سے قانون، سیاسی اداروں، آئین اور روایات کے ذریعے معاشرے میں اٹھنے والے اختلافات کا حل نکالتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک کا کسی بھی دن کا اخبار اُٹھا کر دیکھ لیں، ایسا محسوس ہو گا کہ ہر طرف شور اور خلفشار کا دور دورہ ہے۔ قتل و غارت، دھوکہ دہی، رشوت ستانی اور لوٹ مار عام جبکہ سیاست پر ذاتی مفادات کی گہری چھاپ ہے۔ یہ سب انسانی جبلت کے فطری تقاضے ہیں۔ مگر فطرت نے انسان کو ان پر قابو پانے کا ایک راستہ بتایا ہے۔ وہ ہے قانون اور انصاف کی طاقت۔ ان دو خصوصیات کے بغیر کوئی طاقت بھی اپنا اثر زیادہ دیر تک قائم نہیں رکھ سکتی۔ ایک اور مسئلہ بھی ہے۔ ہم میں سے سرکش لوگ خود کو قانون اور منصف بنا لیں، بلکہ ایسا ہوتا ہے، تو کیا ہو گا؟ تاریخ اور تجربے نے ہمیں ایک اور سبق سکھایا ہے، کہ معاشرے میں امن قائم رکھنے کے لیے اقتدار کی مرکزیت قائم کرنا ہو گی۔ وہی مرکزیت قانون اور انصاف کے پیمانے بروئے کار لاتے ہوئے ذاتی‘ گروہی اور جماعتی مفادات کے ٹکرائو کا حل یقینی بنائے گی۔ مثال یہ ہے کہ دس لوگ امریکہ کا صدر بننے کے خواہش مند ہیں۔ کئی جماعتیں پاکستان میں اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ اس تنازع کا حل آئینی انتخابات میں ہے لیکن یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کیا انتخابات منصفانہ اور شفاف ہوئے ہیں یا دھاندلی کا ارتکاب کیا گیا ہے؟ اس کے بارے میں بھی آئین اور قانون میں سب کچھ موجود ہے۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ سیاست میں وہ سکت موجود ہے جس سے پُرامن حل نکالا جا سکتا ہے۔ بند گلی میں فرد اور جماعتیں تو جا سکتی ہیں، سیاست نہیں۔
اگر ایسا ہے تو ہم بحران کیوں دیکھتے ہیں؟ فرد اور گروہ تشدد پر کیوں اتر آتے ہیں؟ خانہ جنگی‘ جس کا نشانہ مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک ہیں‘ سیاست اور اس کی فضلیت کے بارے میں کیا بتاتی ہے۔ مختصر جواب یہ ہے کہ جہاں سیاست ختم ہوتی ہے ، وہاں تشدد شروع ہو جاتا ہے۔ اب میں اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کروں گا کہ سیاست ناکام کیوں اور کیسے ہوتی ہے اور کب ہوتی ہے اور اسے کون ناکام بناتا ہے؟ اس کی شکست کا نقصان کسے ہوتا؟ ایک بات طے ہے کہ مکانی معاشرہ اور عوام سیاست کی ناکامی سے سب کچھ کھو بیٹھتے ہیں۔ افغانستان میں لاکھوں شہید ہو چکے، اور کئی لاکھ ابھی تک بے گھر ہیں۔ شام میں لا تعداد لوگ تباہ ہو چکے ہیں۔ عراق میں انسانی جانیں ضائع ہوئیں اور وہاں کے جو حالات ہیں، وہ ایک المناک داستان ہے۔ آج جو کچھ یمن میں ہو رہا ہے، اس پر دل دکھی ہے۔ چند سالوں میں ایک لاکھ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ نہ معیشت، نہ تعلیم، نہ صحت۔ سب کچھ تباہ ہو چکا ہے۔
مختلف ریاستوں میں پھیلے اس سانحہ کی ایک وجہ مشترک ہے۔ وہ اقتدار کی مرکزیت قائم رکھنے میں ناکام ہوئے۔ یہ طاقتور ریاست مغرب کی ہو یا مشرق کی، اس کی بنیادی صلاحیت اقتدار کی مرکزیت ہے۔ ریاست ہی اقتدار کی مرکزیت کا مظہر اور آئینی اداروں کی علامت اور عملی تعبیر ہے۔ اقتدار کی مرکزیت اور ریاستی طاقت باہم مربوط ہیں۔ انہیں الگ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن میں یہاں کسی مطلق العنان ریاست کی تعریف نہیں کر رہا۔ میرے ذہن میں مغرب کی جمہوری ریاست ہے۔ اقتدار کی تقسیم ریاست کے اندر ہی اداروں میں آئینی طور پر ہوتی ہے تاکہ کوئی ایک ادارہ دوسرے پر حاوی نہ ہو۔ ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرتا رہے۔ جہاں ریاست تباہ ہوتی ہے، وہاں خانہ جنگی پھیل جاتی ہے۔ مرکزیت کے خلاف ''بہار عرب‘‘ جیسی تحریکیں چلیں، جو بظاہر جمہوریت لیکن دراصل لسانی تعصبات کی تحریکیں تھیں۔ ہمارے پڑوسی ملک، افغانستان میں مجاہدین ہوں یا طالبان، یا اشتراکی، سب نے افغانستان کو تباہ کیا۔ انجام سامنے ہے۔ ناکام مسلمان اکثریتی ریاستوں کی تباہی کی بنیادی وجہ مقتدر دھڑوں اور نوخیز نظریاتی اور سیاسی تحریکوں کا آپس میں عدم اعتماد اور انہیں مفادات کی مسابقت کے گھیرے سے نکال کر تشدد اور فساد اور خانہ جنگی کی دلدل میں دھکیلنا ہے۔ ریاست اور اقتدار کی مرکزیت اور ان کی عمومی جائزیت اگر کمزور ہو، یعنی قانون اور انصاف کی طاقت کمزور ہو تو ایک جانب سے تشدد کی شروعات جنگ کے شعلے بھڑکا سکتی ہے۔ اس وقت جاری تمام خانہ جنگیوں میں ایک ہی قدر مشترک ہے۔ کچھ اقتدار کے خواہش مند گروہ آئینی طریقے سے اقتدار کے حصول کو اپنے لئے ناممکن سمجھتے ہیں۔ کچھ ریاستوں میں تو ایک خاندان اور ایک جماعت کی اجارہ داری تھی اور کچھ میں جہاں آئینی راستے کھلے تھے‘ وہاں عوامی تائید تو نہیں مگر گولہ بارود وافر مقدار میں اندرونی اور بیرونی طور پر مہیا کیا گیا تھا۔ ہماری اپنی مثال ہی سامنے ہے۔ وہ گروہ جنہوں نے سوات اور قبائلی علاقوں پر تشدد سے قبضہ کیا‘ اگر عوامی حمایت حاصل کر سکتے تو تشدد کا استعمال نہ کرتے۔ جہاں ریاست کمزور ہوئی وہاں مسلح گروہوں نے قدم جمانے شروع کر دیے۔ ریاست کی تباہی کے ساتھ ہی جنگی سردار ابھرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہر ملک کے معروضی سیاسی حالات اُس کا قومی بیانیہ تشکیل دیتے ہیں۔
اس خطے میں تین ممالک ترکی، ایران اور پاکستان اپنی اقتدار کی مرکزیت حاصل کر چکے ہیں۔ اس لئے ابھی تک انتشار اور خانہ جنگی سے کسی قدر محفوظ ہیں۔ پاکستان کو مرکزیت اور ریاستی اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے ایک طویل اور خطرناک جنگ لڑنا پڑی مگر فوج، پولیس اور عوام کی بے پناہ کامیابیاں رنگ لائیں، ریاست قائم رہی اور اندرونی امن بحال ہوا۔ ہم نے ان تین ممالک کے حوالے سے دیکھا ہے کہ اندرونی اور بیرونی طاقتوں‘ جو انہیں خلفشار کا نشانہ بنانا چاہتی ہیں، کے کچھ مہرے جب پٹ جاتے ہیں تو نئے تازہ دم تیار رہتے ہیں۔ ہم یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں، کیسے کیسے فتنے اور فتنہ پرور تیار ہوتے رہتے ہیں۔ ایک حربہ عوام میں جھوٹی خبریں، بے بنیاد بیانیے اور فضول مکالمے برقی ذرائع ابلاغ پر جاری کر کے انتشار پھیلانا ہے اور بہت انتشار پھیل بھی چکا ہے۔ کچھ تجزیہ کار تو بات سن کر تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں مگر عوام میں وہ شعور کہاں کہ دوست اور دشمن کا فرق من گھڑت خبروں کی طوفانی آندھی میں پرکھ سکیں۔ اندر اور باہر دشمن آگ لگانے کی تگ و دو میں ہیں۔ مہرے، ہرکارے اور ایجنٹ خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ یہ المیہ ہے پاکستان اور کچھ دیگر مسلم اکثریتی ریاستوں کا۔ ریاست اور اقتدار کی مرکزیت کو کھوکھلا کرنا پاکستان میں شاید اتنا آسان نہ ہو مگر یہی کچھ کرنے کے لیے پھر سے نئے لشکر تیار کیے جا رہے ہیں۔