تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     07-11-2019

درست فیصلہ کیسے کریں؟

ہر انسان کی زندگی میں ایسے مراحل آتے ہیں کہ جب اسے فیصلہ کرنے میں تردّد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کاروبار‘ سفر‘ شادی ‘ بیاہ ‘تعلیم اور دیگر اُمور کے بارے میں کئی مرتبہ انسان گومگوں کا شکار ہو کر کوئی واضح فیصلہ کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔ اس تذبذب کی وجہ سے انسان ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایسے عالم میں انسان کے ذہن میں مختلف خیالات اُبھرتے ہیں کہ اس کام کو کیا جائے یا اس سے دور رہا جائے اور اگرکیا جائے تو کس طرح کیا جائے اور اگر نہ کیا جائے تو کیوں نہ کیا جائے؟ان خیالات کی وجہ سے انسان تشویش اور اضطراب کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس نفسیاتی کیفیت اور ذہنی الجھن سے نجات حاصل کرنے کے لیے انسان کو بعض اہم اُمور کو مدنظر رکھنا چاہیے‘ جن کے نتیجے میں جہاں پر اس کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گی‘ وہیں پر اس کے راستے میں آنے والی دشواریاں‘ پیچیدگیاں بھی دور ہو جائیں گی اور دنیا اور آخرت کی سربلندی حاصل ہونے کے امکانات بھی روشن ہو جائیں گے۔قوت فیصلہ کو بڑھانے اور درست فیصلہ کرنے میں مدد دینے والے چند اہم نکات در ج ذیل ہیں:
1۔ کام کے جائز اور درست ہونے کا تعین کرنا: جب انسان کوئی کام کرے تو سب سے پہلے اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ آیا یہ کام جائز ہے یا ناجائز۔ اگر وہ کام شرعی‘ قانونی اور اخلاقی اعتبار سے درست ہو تو اس کی طرف مزید پیش قدمی کی گنجائش رہتی ہے‘ لیکن اگر یہ کام شرعی‘ قانونی اور اخلاقی اعتبار سے ناجائز ہو تو انسان کو ہر صورت اس کام سے احتراز کرنا چاہیے۔ بہت سے لوگ مادی مفادات کے حصول یا کسی لالچ کے سبب ایسا کام کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں‘ جو شرعاً ‘ قانوناً یا اخلاقی اعتبار سے غلط ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں انسان وقتی طور پر اپنا ذاتی مفاد حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جائے تو اس کو جلد یابدیر ندامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے؛ چنانچہ بہت سے لوگ ذخیرہ اندوزی ‘ سمگلنگ‘ جوئے اور سودی لین دین میں ملوث ہو جاتے ہیں‘ اسی طرح بہت سے لوگ شراب ‘ منشیات کی تجارت یا مخرب الاخلاق لٹریچر اور پروگراموں کی نشرواشاعت اس وجہ سے ملوث ہو جاتے ہیں کہ ان کے نزدیک اس میں مادی اعتبار سے نفع کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔ اس طرح کئی مرتبہ انسان وقتی طور پر مادی فائدہ تو حاصل کر لیتا ہے ‘لیکن جلد یابدیر اللہ کی ناراضگی ‘ قانون کی گرفت اور لوگوں کی نفرت کا نشانہ بن جاتا ہے۔ انسان کو مادی منفعت کے حصول کے لیے اسلام ‘ قانون اور اخلاقی ضابطوں کو ضرور ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے ‘تاکہ وہ اللہ کے غضب‘ قانون کی پکڑ اور بدنامی سے بچ سکیں۔ 
2۔مطلوبہ صلاحیت اور وسائل کے حوالے سے اچھی طرح غور کرنا: جب انسان کسی جائز اور درست کام کرنے کا فیصلہ کرلے تو اس کے بعد اس کو اس کام کے لیے مطلوب صلاحیت اور ضروری وسائل کی فراہمی پر غور کرنا چاہیے۔ جو لوگ ایسے کام کرتے ہیں‘ جن میں ان کو دلچسپی ہو یا وہ اس کے بارے میں اچھا تجربہ رکھتے ہوں تو ان کو اکثر اس کام کی انجام دہی کے دوران مثبت اور مطلوبہ نتائج حاصل ہو جاتے ہیں ‘جبکہ بعض لوگ فقط کسی دوسرے شخص کی دیکھا دیکھی کوئی کام شروع کر دیتے ہیں اور ان کے پاس اس کام کے حوالے سے مطلوبہ صلاحتیں یا اس کام کے لیے درکار ضروری وسائل نہیں ہوتے جس کی وجہ سے وہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ انسان کو ہمیشہ کسی بھی کام کے انجام دینے سے پہلے اپنے طبعی میلان‘ صلاحیتوں اور مطلوبہ وسائل کی فراہمی کو اچھے طریقے سے سمجھ لینا چاہیے۔ جو انسان کسی کام کی انجام دہی سے پہلے اِن اُمور پر غور وخوض کر لیتا ہے‘ اس کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ 
3۔مشورہ کرنا: کسی کام کی انجام دہی کے لیے صلاحیت اور مطلوبہ وسائل میسر ہونے کے باوجو دبھی دیکھنے میں آیا ہے کہ موقع محل اور ماحول کے ناسازگار ہونے کے سبب انسان اس کام میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر پاتا۔ تجارت ‘ دکانداری ‘ ملازمت اور دیگر اقتصادی اُمور کی انجام دہی کے حوالے سے ادارے‘ مارکیٹ یا گاہک کے تقاضوں اور رجحانات کو سمجھنا بھی ازحد ضروری ہوتا ہے۔ درست معلومات کے حصول کے لیے مشورہ کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ تجربہ کار لوگوں کی مشاورت سے انسان کو لوگوں کے اجتماعی فہم سے رہنمائی حاصل کرنے کا موقع میسر آتا ہے۔ جس کے نتیجے میں کامیابی کے امکانات روشن ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ شوریٰ کی آیت نمبر38 میں اس حقیقت کو یوں واضح فرمایا : ''اور (وہ لوگ)جنہوں نے اپنے رب کا حکم مانا اور اُنہوں نے نماز قائم کی اور ان کاکام آپس میں مشورہ کرنا ہے اور (اس) میں سے جو ہم نے انہیں رزق دیا وہ خرچ کرتے ہیں۔‘‘ 
رسول کریمﷺ کی ذات اقدس کائنات میں سب سے بلند مقام پر فائز ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کو فہم وشعور اور بصیرت کی بے مثال اور باکمال صلاحیتوں سے نوازا تھا اور آپ ﷺ پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی وحی کا نزول ہوتا تھا۔آپ ﷺ ان وجوہات کی بنیاد پر‘ اگرچہ مشاورت سے مستغنی تھے‘ لیکن اُمت کی رہنمائی کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ ﷺپر بھی اس وحی کا نزول فرمایا کہ آپ اہل ایمان سے مشاورت کیا کریں۔اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اہل ایمان مشورہ کی اہمیت کو سمجھ سکیں ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 159میں ارشاد فرماتے ہیں: ''پس درگزر کیجئے ان سے اور بخشش طلب کیجئے ان کے لیے اور مشورہ کریں ان سے (اپنے) کاموں میں پھر جب آپ پختہ ارادہ کر لیں تو اللہ پر بھروسا کرو‘ بے شک اللہ بھروسا کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ 
4۔ استخارہ:مذکورہ بالااُمور کے ساتھ ساتھ انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ سے خیر کو بھی طلب کرنا چاہیے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے مباح امور میں خیر کو طلب کرنے سے انسان کے معاملات میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی تائید اور رہنمائی شامل ہو جاتی ہے۔ استخارے کا نتیجہ اطمینان قلب کی شکل میں نکلتا ہے اور اس کی برکت سے انسان کو یکسوئی حاصل ہوتی ہے۔ 
صحیح بخاری میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے تمام معاملات میں استخارہ کرنے کی اسی طرح تعلیم دیتے تھے ‘جس طرح قرآن کی کوئی سورت سکھلاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ جب کوئی اہم معاملہ تمہارے سامنے ہو تو فرض کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھنے کے بعد دعا پڑھے ‘جس کا ترجمہ درج ذیل ہے ''اے میرے اللہ! میں تجھ سے تیرے علم کی بدولت خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کی بدولت تجھ سے طاقت مانگتا ہوں اور تیرے فضل عظیم کا طلبگار ہوں کہ قدرت تو ہی رکھتا ہے اور مجھے کوئی قدرت نہیں۔ علم تجھ ہی کو ہے اور میں کچھ نہیں جانتا اور تو تمام پوشیدہ باتوں کو جاننے والا ہے۔ اے میرے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام (جس کے لیے استخارہ کیا جا رہا ہے )میرے دین دنیا اور میرے کام کے انجام کے اعتبار سے میرے لیے بہتر ہے یا ( آپ نے یہ فرمایا کہ ) میرے لیے وقتی طور پر اور انجام کے اعتبار سے (خیر ہے ) تو اسے میرے لیے نصیب کر اور اس کا حصول میرے لیے آسان کر اور پھر اس میں مجھے برکت عطا کر اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے دین‘ دنیا اور میرے کام کے انجام کے اعتبار سے برا ہے۔ یا ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا کہ ) میرے معاملہ میں وقتی طور پر اور انجام کے اعتبار سے ( برا ہے ) تو اسے مجھ سے ہٹا دے اور مجھے بھی اس سے ہٹا دے۔ پھر میرے لیے خیر مقدر فرما دے‘ جہاں بھی وہ ہو اور اس سے میرے دل کو مطمئن بھی کر دے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (دعائے استخارہ میں)اس کام کی جگہ اس کام کا نام لے (جس کے لیے استخارہ کیا جا رہا ہے)۔
اگر مذکورہ بالا اُمور کو ملحوظ خاطر رکھا جائے ‘توانسان غلط فیصلے سے بچ سکتا ہے اوردنیا آخرت کی کامیابیوں سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اپنے تمام اُمور میں درست فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرما دے۔( آمین )

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved