یہ بات بہت زیادہ حیران کن ہے کہ آج آدمی وہ باتیں جانتا ہے ‘ جو اس کی تخلیق سے اربوں سال پہلے وقوع پذیر ہوئی تھیں۔ صرف یہی نہیں ‘کرّہ ٔ ارض کی حدودسے باہر جو کچھ ہوتا رہا‘ اس کا بھی اسے علم ہے ۔ سائنسدان حساب لگا کر اس نتیجے پر پہنچے کہ کائنات 13.7ارب سال پہلے وجود میں آئی تھی۔ ہمارا سورج اور کرّہ ٔ ارض 4.6ارب سال پہلے بنا ۔ انسان بگ بینگ کی باقیات دیکھ چکا ہے ۔بلیک ہول جیسی جو چیزیں نظر نہیں آتیں‘ انہیں بھی اپنے علم کی مدد سے ڈھونڈ چکا ہے ۔ اسی طرح کرّہ ٔ ارض میں زندگی کیسے ارتقا کر تی رہی ‘ یہ سب معلومات آج کے انسان کو حاصل ہو چکی ہیں ۔ ڈائنا سار ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے مکمل طور پر ختم ہو گئے تھے ۔ اس کے باوجود آج انسانوں کا بچہ بچہ ان کے بارے میں جانتا ہے ۔ ان کے فاسلز نے ‘ ڈی این اے نے تمام معلومات انسان کو فراہم کر دی ہیں ۔کیا یہ باتیں حیران کن نہیں ہیں؟
میں آپ سے ایک سوال کرتا ہوں : آپ یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ارسطو اور ظہیر الدین بابر نامی شخصیات واقعی تاریخ میں گزری ہیں ؟کیا آپ نے انہیں اپنی آنکھ سے دیکھ رکھا ہے ؟ اس کے باوجود سب کو یقین ہے کہ یہ شخصیات اپنا وجود رکھتی تھیں ۔ اس کی وجہ بھی یہی ریکارڈننگ ہے ۔ انسان لکھتا رہا ہے اور اگلی نسلوں کو بتا تا رہا ہے کہ یہ یہ اہم واقعات وقوع پذیر ہو رہے ہیں ۔ آپ یہ دیکھیں کہ کاغذ یا چمڑے پر کھینچی گئی لکیروں (تحریر) سے یہ معلومات ہم تک منتقل ہو ئیں ۔ انسان کے دماغ میں لکھنے اور پڑھنے کی صلاحیت اپنی جگہ ایک عجوبہ ہے ۔ جس ذاتِ عالیشان نے یہ صلاحیت انسان کے دماغ میں پیدا کی ‘ وہ ریکارڈ محفوظ رکھنا چاہتی تھی ۔وہ یہ چاہتی تھی کہ انسان اپنا علم آنے والی نسلوں کو منتقل کرتا رہے ‘تاکہ اس کا علم وسیع ہو سکے اور وہ ایجادات کرے۔ اگر ایک نسل سے یہ معلومات دوسری نسل کو منتقل نہ ہو رہی ہوتیں تو ہم آج بھی غار میں بیٹھے ہڈیاں چبا رہے ہوتے ۔
اسی طرح ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آج کا انسان تنہائی میں جو کچھ کرتا ہے ‘ وہ سب کچھ ریکارڈ ہوتا جا رہا ہے ۔ بار با ر سیاست دانوں کی‘ اداکاروں کی خفیہ ویڈیوز سامنے آرہی ہیں ۔کروڑوں افراد موقع پر موجود نہ ہونے کے باوجود چند سیکنڈ میں دیکھ لیتے ہیں کہ فلاں شخص کس موقع پر کیا کر رہا تھا ۔
اس کا ایک ہی مطلب ہے اور وہ یہ کہ جس ہستی نے یہ دنیا تخلیق کی تھی ‘ فنگر پرنٹ ‘ فاسلز ‘ ڈی این اے اور سلیکان چپ میں ویڈیوز کے محفوظ ہونے سمیت اس نے ریکارڈنگ کا ایک ایسا نظام بنایا تھا ‘ جسے بعد میں کوئی بھی جھٹلا نہ سکے۔ ایک شخص آپ کی ویڈیو لا کر آپ کے سامنے رکھ دیتا ہے ۔ آپ جو مرضی کر لیں ‘ آپ اسے جھٹلا نہیں سکتے ۔ ایک میسج اور ای میل آپ کے سامنے رکھ دی جاتی ہے کہ یہ آپ نے کی ہے ۔ آپ کیسے اسے جھٹلا ئیں گے ؟ تو اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ جب آپ کا ڈی این اے ‘ آپ کے ہاتھ اورپائوں بولنا شروع کر دیں تو آپ کیسے ان کا انکار کریں گے ؟ جھٹلانے کا کوئی بھی راستہ باقی نہیں رہے گا۔
استاد کہتے ہیں کہ خدا بھی اسی ٹیکنالوجی کی سب سے آخری شکل کو استعمال کرتا ہے ‘ جس کی ادنیٰ شکلوں کو ہم اس دنیا میں استعمال کر رہے ہیں ۔ اس کاایک بہت بڑا ثبوت یہ ہے کہ ہمارے جسم میں nervesکی صورت میں تاریں بچھائی گئی ہیں ۔ ہماری ساری نقل و حرکت ‘ درد کو محسوس کرنا ‘ سب کچھ انہی نروز کی مرہونِ منت ہے ۔ انسان اب اس طرح بڑھ رہا ہے کہ ڈیٹا کو ڈی این اے میں محفوظ کیا جائے ۔آخر میں انسان کا ڈی این اے ہی اس سے کلام کرے گا‘ جب اس کے ہاتھ بول رہے ہوں گے‘ آنکھیں بتا رہی ہوں گی کہ اس نے یہ گناہ کیا ہے ۔ ہم اسے جھٹلانے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے ۔
ایک اور بہت بڑا مسئلہ ڈیٹا کی منتقلی کا ہے ۔ آج آپ پلک جھپکنے میں اپنی ویڈیو دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک منتقل کر دیتے ہیں ۔ وائی فائی انٹرنیٹ کی مدد سے‘ روشنی کی رفتار سے ۔ایک سافٹ وئیر ہے ٹیم ویور ‘ اس کی مدد سے آپ ہزاروں میل دور اپنے عزیز کے لیپ ٹاپ کا جائزہ لے سکتے ہیں ۔ اس میں سے سب ڈیٹا کاپی کر کے اپنے لیپ ٹاپ میں منتقل کرسکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ آپ اس شخص کاسارا ڈیٹا ڈیلیٹ کر سکتے ہیں ۔ بڑے بڑے اداروں کے کمپیوٹر ہیک کر لیے جاتے ہیں ۔ ڈیٹا چوری ہو جاتاہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہماری زندگیوں کا سارا ڈیٹابڑی خاموشی سے کہیں منتقل ہو رہا ہے اور ہمیں اس بات کا علم تک نہیں ۔ جیسے واٹس ایپ میں بیک اپ createہوتاہے ۔ جیسے فیس بک کے بڑے بڑے ڈیٹا سنٹرز مختلف ممالک میں موجو دہیں ۔ وہاں ہمارے ہاتھ سے لکھا گیا ایک ایک نقطہ محفوظ ہے ۔ جب ایڈورڈ سنوڈن منظر عام پر آیا تو دنیا کو علم ہوا کہ فیس بک ‘ ٹوئٹر ‘جی میل اور بڑی بڑی آئی ٹی کمپنیز میں صارفین کے ڈیٹا میں نقب لگائی جا رہی تھی ۔ جرمن اور امریکی قیادت میں تو اس معاملے پر کشیدگی بھی پیدا ہوئی تھی ۔
آپ ایک چیز پر غور کریں کہ جب آپ گھر سے نکلتے ہیں تو گلی میں بلی اور کتے کی آنکھوں سمیت جہاں جہاں آپ کو آنکھ نظر آتی ہے ‘ اس میں ویڈیو بن سکتی ہے اور دماغ میں محفوظ ہو سکتی ہے ‘ کہیں اور منتقل ہو سکتی ہے ۔ دنیا میں ایسے ایسے واقعات موجود ہیں کہ جب ایک چمپینزی نے دس سال بعد ‘ جب کہ وہ موت کے بہت قریب تھا‘ اپنے اس مالک کو دیکھا ‘ جس نے بچپن میں اسے پالا تھا تو اس نے اسے پہچان لیا اور خوشی کا اظہار کیا ۔اسے سب کچھ یاد تھا ۔ اس کی یادداشت میں سب کچھ محفوظ تھا ۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ مخلوقات کے دماغ میں یاداشت کس لیے تخلیق کی گئی ہے ؟
ہر طرف دنیا میں سینٹرل نروس سسٹمزبکھرے ہوئے ہیں ۔ بلی سے لے کر ہاتھی اور وہیل تک ۔ ان سینٹرل نروس سسٹمز میں چیزوں کو دیکھ کر دماغ میں محفوظ کیا جا سکتاہے اور بعد میں ضرورت پڑنے پر انہیں استعمال میں لایا جا سکتاہے ۔ یہ چیز جہاں ایک جاندار کو دنیا میں اپنی زندگی گزارنے کے قابل بناتی ہے‘ وہیں یہ سب سینٹرل نروس سسٹمز ریکارڈنگز کے لیے بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں ۔
آپ غور کریں تو آخری زمانے کے بارے میں بہت سی حیران کن باتیں بتائی گئیں ہیں۔ مذہب کہتاہے کہ انسان کے جوتے اس سے کلام کریں گے ۔ جانور انسان سے کلام کریں گے ۔ وہ زمانہ بہت قریب آتا جا رہا ہے۔ انسان جب ایک نازیبا کام کرنے لگتا ہے تو وہ پہلے ادھر ادھر دیکھتاہے کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا ‘ اگر اسے اس بات کا یقین ہو کہ واقعی اس کی ریکارڈنگ ہو رہی ہے تو وہ کبھی ایسا کام نہ کرے‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ علمی طور پر صفر اعشاریہ ایک فیصد لوگوں کو بھی اس بات کا یقین نہیں ہے کہ ریکارڈنگ ہو رہی ہے ‘لیکن یہ بات ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ ریکارڈنگ ہو رہی ہے ۔ ایک دن ہمیں اس کا سامنا کرنا پڑے گا‘ جیسے آج مشہور شخصیات کو اپنی خفیہ ویڈیوز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے !