ملک بچانا ہے تو حکومت کو مزید دن نہیں دے سکتے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ملک بچانا ہے تو حکومت کو مزید دن نہیں دے سکتے‘‘ اور اگر ملک نہیں بچانا تو چاہے جتنے مرضی دن لے لیں‘ ہم بھی آرام سے اپنی تھکاوٹ اتار لیں گے‘ کیونکہ ملک تو پھر بھی بن سکتا ہے اور جب 1947ء میں یہ ملک بنا تھا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ بن جائے گا ۔ ملک تو بنتے بگڑتے ہی رہتے ہیں‘ سوال صرف میرے جیسے رہنمائوں کا ہے جو کبھی کبھار پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے استعفیٰ دیں اور ملک کو بچا لیں‘ اس سے حکومت کی حُب الوطنی کا بھی پول کھل جائے گا‘ جبکہ ہمارا تو کوئی پول ہے ہی نہیں جس کے گھلنے کا اندیشہ ہو‘ کیونکہ ہماری تاریخ تو ایک کھُلی کتاب کی طرح ہے‘ جسے جب چاہو کھول کر پڑھ لو۔ آپ اگلے روز دھرنے کے شرکاء سے خطاب کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی کا کوئی رہنما لوگوں میں آنے کے قابل نہیں: عظمیٰ بخاری
مسلم لیگ ن کی رہنما عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی کا کوئی رہنما لوگوں میں آنے کے قابل نہیں‘‘ کیونکہ لوگوں میں آنے کے قابل ہونے کیلئے جو کارنامے کرنا پڑتے ہیں ‘وہ ہمارے رہنمائوں کے علاوہ کوئی کر ہی نہیں سکتا‘ جو جیل میں ہیں یا بر ضمانت‘ جبکہ پی ٹی آئی والوں کو کوئی پوچھتا تک نہیں‘ جبکہ ایسے کاموں کیلئے دل شیر جیسا ہونا چاہیے اور کلیجہ گیدڑ جیسا‘ کیونکہ ہم اپنا سارا کام دل ہی سے لیتے ہیں‘ جگر کو زیادہ زحمت نہیں دیتے اور اسی لیے ہم ایک دن کی زندگی پر ہی اکتفا کر لیتے ہیں‘ گیدڑ کی سو سالہ زندگی ہمارے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی؛ البتہ گیدڑ بھبکیاں ہم سے زیادہ کوئی نہیں دے سکتا‘ جبکہ شیر اگر کاغذی ہو تو دہاڑ تک نہیں سکتا جو بارش میں بھیگ جائے تو چوہا سا ہو کر رہ جاتا ہے‘ تاہم شیر آیا‘ شیر آیا دوڑنے کیلئے کافی ہوتا ہے‘ ویسے بھی ہم جنگل کے شیر نہیں‘ شہر کے شیر ہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل پر مصروفِ گفتگو تھیں۔
دھرنا ایک دفعہ بیٹھ جائے تو اٹھانا مشکل ہوتا ہے: چوہدری نثار
سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا ہے کہ ''دھرنا ایک دفعہ بیٹھ جائے تو اٹھانا مشکل ہوتا ہے‘‘ کیونکہ وہ بیٹھابیٹھا لاچار ہی اس قدر ہو جاتا ہے کہ خود بھی چاہے تو نہیں اٹھ سکتا‘ اس لیے اسے اٹھانے کیلئے جس دانشمندی کی ضرورت ہوتی ہے ‘وہ ہر ایرے غیرے کو ودیعت نہیں ہوا کرتی؛ البتہ خاکسار یہ معرکہ انجام دے سکتا ہے‘ کیونکہ اتنا عرصہ فارغ رہنے اور سوچ بچار کے بعد کافی عقل جمع ہو گئی ہے‘ اس لیے مجھ سے اس ضمن میں درخواست کر کے یہ تماشا دیکھا جا سکتا ہے‘ اور میں اگر یہ سب کچھ کروں گا تو میاں شہباز شریف کی خاطر ‘ جن سے میرے حالات بھی ملتے ہیں‘ لیکن ان کی اپنی حالت اس قدر پتلی ہے کہ پانی بھی کیا پتلا ہوگا‘ اس لیے اب عمران خان ہی کی طرف سے اگر دعوت دی جائے تو میں اس میں اپنی خدمات پیش کر سکتا ہوں؛ اگرچہ میں آج کل اپنی صوبائی اسمبلی کی نشست کا حلف اٹھانے سے انکار کرنے میں کافی مصروف ہوں‘ تاہم قومی خدمت کیلئے وقت نکال سکتا ہوں۔ آپ اگلے روز ٹیکسلا میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
کٹھ پتلی حکومت کے ذریعے ملک کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''کٹھ پتلی حکومت کے ذریعے ملک کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے‘‘ حالانکہ ہم یہ کام زیادہ خوش اسلوبی سے کر سکتے ہیں اور کافی حد تک کر بھی چکے ہیں؛ اگرچہ ہم اس ضمن میں نواز لیگ کا مقابلہ تو نہیں کر سکتے‘ تاہم اپنی بساط کے مطابق ‘ہم بھی اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ڈال چکے ہیں اور اگر ایک بار اور موقعہ ملا تو ساری کسر پوری کر دیں گے اور جس کا قوی امکان بھی ہے ‘کیونکہ نواز لیگ والے تو ویسے بھی زیادہ تر اندر ہیں یا بغرض علاج وغیرہ ملک چھوڑنے والے ہیں‘ جس کے بعد گلیاں سنجیاں ہو جائیں گی اور ان میں پھرنے کے لیے مرزا یار ہی رہ جائے گا‘ اس لیے اس بار مایوس ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ آپ اگلے روز ملتان بار سے خطاب کر رہے تھے۔
پہل اُس نے کی تھی!
یہ جبار مرزا کی آپ بیتی ہے‘ جسے قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل نے چھاپا ہے‘ انتساب دنیا بھر کی رانیوں اور چودھرانیوں کے نام ہے۔ رانی بھابھی کے نام سے پس سر ورق ڈاکٹر عبدالقدیرخاں نے لکھا ہے۔ اس کتاب پر تحسینی تاثرات دینے والوں میں عطا الحق قاسمی‘ ڈاکٹر انعام الحق جاوید‘ ڈاکٹر انور نسیم‘ جاوید راہی‘ جام جمالی‘ کنول عاصم‘ چودھرانی اوررانی شامل ہیں۔
ابتدائیہ گروپ کیپٹن مظہر حسین اور انتہائیہ ابو المعمار محمد بلال مہدی نے تحریر کیے ہیں۔ اس کے بعد عرض ِ مصنف ہے۔ مرزا صاحب نے کتاب میں جگہ جگہ اپنے اشعار بھی درج کیے ہیں۔
عطا الحق قاسمی لکھتے ہیں: ''یوں تو میں جبار مرزا کی تحریریں اور کتابیں ایک عرصے سے پڑھتا چلا آ رہا ہوں‘ مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس متوازن محقق اور بے لاگ تجزیہ نگار کے اندر ایک ایسا تخلیق کار بھی چھپا بیٹھا ہے ‘جو ایک سچی داستان کو ایک ایسے افسانوی رنگ میں پیش کر سکتا ہے‘ جسے پڑھتے ہوئے قاری اس میں کھو جائے...‘‘۔
ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی نظر میں جبار مرزا ایک جانے پہچانے اور مانے ہوئے قلمکار‘ محقق ‘ کالم نگار‘ شاعر اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں‘ مگران کی یہ کتاب ان کی پہلی کسی کتاب سے لگا نہیں کھاتی۔ جب میں نے اس کے مسودے کو ہاتھ میں لیا تو پڑھتا ہی چلا گیا۔ کہیں رک ہی نہ سکا‘ دم ہی نہ لے سکا...‘‘۔
جبار مرزا ہماری ہی طرح کے ایک پرانے صحافی ہیں اور کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ان کی یہ کتاب ایک مرصع غزل کی طرح پڑھی جائے گی۔ اس کا عنوان بھی بالکل درست ہے کہ پہل ہمیشہ دوسری طرف ہی سے ہوا کرتی ہے...!
آج کا مقطع
ہمیں حسین ؓ کا ماتم ہی مار دے گا‘ ظفرؔ
سو اب کی بار محرم میں ماریں جائیں گے