28 جون 2019ء کو رات ساڑھے آٹھ بجے‘ لاہور کے ایک مقامی ٹی وی چینل پر ایک خبر چل رہی تھی۔ جس میں پاکستانی ڈاکٹر ہما ارشد چیمہ کو ملنے والے ایک بین الاقوامی لائف اچیومنٹ ایوارڈ کی تقریب کے منا ظر دکھائے جا رہے تھے‘ جن کو دیکھتے ہوئے میرا سر فخر سے بلند ہو رہا تھا کہ پاکستان کا نام دنیا کے چند اہم ممالک کی صف میں شامل ہو تا جا رہاہے اورہر شعبہ زندگی میں اس ملک کے باشندوں کی ذہانت کا اقرار دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ اس بین الاقوامی ادارے کی جانب سے ٹی وی چینل کی سکرین پرپاکستان کی قابل فخر بیٹی پروفیسر ڈاکٹر ہما ارشد چیمہ کوGenetic کے شعبے میں ان کی مہارت اور کار کردگی کا اعتراف کرتے ہوئے لائف اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا جا رہا تھا۔ ڈاکٹر ہما چیمہ میری بہنوں جیسی ڈاکٹر مصباح ظفر کی بڑی بہن ہیں ۔جب میں نے انہیں ان کی بہن کو ملنے والے اس اعزاز پر مبارکباد دی تو میرے گمان میں بھی نہیں تھا کہ کچھ عرصہ بعد ایسے واقعات سامنے آئیں گے کہ مجھے ان کو ملنے والے اس ایوارڈ کا حوالہ دینا پڑے گا اور یہ حوالہ بھی اس لئے دینا پڑرہا ہے کہ کچھ عرصے سے ڈاکٹرز کے ایک گروہ کی جانب سے یہ تاثر پھیلایا جا رہا ہے کہ Genetic ٹیسٹ کروانے کیلئے بیرون ملک جانا پڑتا ہے۔
آج پاکستان میںکسی بھی شعبے کے اندر قابلیت اور مہارت کا کوئی فقدان نہیں کہ کسی بھی مریض یا مرض کی تشخیص یا اس کا علاج نہ ہو سکتا ہو۔ چند روز سے ٹی وی پر ایک ہی خبر دیکھنے کو ملی کہ میاں نواز شریف کو Genetic رپورٹس کیلئے پاکستان سے باہر جانا پڑے گا۔ چھ نومبر کو جب میاں صاحب کو سروسز ہسپتال سے ڈسچارج کیا جا رہا تھا تو ایک ڈاکٹر صاحب کا یہی بیان بار بار ٹی وی چینلز پر ہائی لائٹ کیاجا رہا تھا‘ تب مجھے خیال آیا کہ ابھی کل ہی اس بورڈ میں شامل دو ڈاکٹرز کے حوالے سے خبریں چل رہی تھیں کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی صحت کے بارے میں جو کچھ کہا جا رہا ہے اور جو رپورٹس تیار کی جارہی ہیں‘ ان سے دوڈاکٹرز اختلاف کر رہے ہیں ‘لیکن ان کی اجازت کے بغیر ہی ان رپورٹس پر مبنی خبریں میڈیا کیلئے جاری کر دی جاتی ہیں‘ کیونکہ یہ تمام رپورٹس ان کے دستخطوں کے بغیر جاری کی جا رہی ہیں‘ نہ جانے اس طرح کی رپورٹس جاری کرنے سے ان کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟
مذکورہ بالا دونوں ڈاکٹرز کے حوالے سے سامنے آنے والے اختلافی بیانات نے بہت سے شکوک و شبہات کو بھی جنم دینا شروع کر دیا ہے‘ لیکن چونکہ ڈاکٹر عدنان سمیت پانچ دوسرے ڈاکٹرز کی اکثریت کی رائے ان سے کچھ سے مختلف ہے‘ اس لئے ان دو ڈاکٹرز کا اختلاف کوئی خاص معنی نہیں رکھتا ہے۔ میاں نواز شریف پندرہ روز سروسز ہسپتال میں زیر علاج رہے اور اس دوران ایک سرکاری رپورٹ کے حوالے سے کہا گیا کہ ان کے علاج پر پنجاب حکومت کے پندرہ لاکھ روپے خرچ ہو ئے ہیں اور اب میاں محمد نواز شریف کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے8 ہفتوں کی ضمانت ملنے کے بعد ان کی خواہش پر سروسز ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ وہ جاتی امرا تشریف لے جاچکے ہیں۔ سروسز ہسپتال میں حکومت کی جانب سے ان کا علاج کرنے والے میڈیکل بورڈ کے پانچ ڈاکٹرز کے علا وہ ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان نے میڈیا کو بتایا کہ میاں نواز شریف کی بیماری کی تشخیص اور بقیہ علاج کیلئے ان کے Genetic ٹیسٹ کی سہولت پاکستان میں موجود نہیں‘ لہٰذا بیرون ملک یہ ٹیسٹ کروانے ہوں گے۔ میں ڈاکٹر صاحب اور ان کے گروہ کی اس دلیل یا اس کو منطق کہہ لیجئے یا ان کی رائے کہہ لیجیے یا خواہش کا نام دے لیجیے‘ سے قطعی اتفاق نہیں کرتا ہوں۔ میاں نواز شریف کا حق ہے کہ وہ جہاں چاہیں‘ جا کر اپنا مکمل علاج کروائیں ‘لیکن حیرانی اس بات پر ہو رہی ہے کہ میڈیکل بورڈ پوری قوم کو گمراہ کیوںکر رہا ہے؟ دوسری طرف حکومت ِپاکستان اسے سچ مان کر کیوں خاموش ہے؟ کہیں یہ سب کچھ رضا مندی سے تو نہیں ہو رہا؟ کیا وزیر اعظم عمران خان اورحکومت سمیت محکمہ صحت پنجاب اور پاکستان بھر کے خفیہ ادارے اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ پاکستان میں Genetic ٹیسٹ کیا جا سکتا ہے؟ کیونکہ یہ سیدھی سی بات ہے کہ جب آپ کے ملک اور پنجاب کی کسی ڈاکٹر کی اس فیلڈ میں مہارت کا بین الاقوامی طور پر اقرار کیا جاتا ہے تو کس طرح ممکن ہے کہ حکومت پاکستان اپنے ماتحت کام کرنے والی اس ڈاکٹر کے نام سے واقف نہ ہو؟ یہ بھی کیسے ہو سکتا ہے کہ مرکزی حکومت سمیت پنجاب اور محکمہ صحت اس ایوارڈ کی تفصیلات نہ جانتے ہوں کہ لاہور میں ہی پاکستان کی ایک ایسی خاتون ڈاکٹر موجود ہیں‘ جن کی ریسرچ اور مہارت کو تسلیم کرتے ہوئے بین الاقوامی ادارے نے26 جون2019ء کو The Genetic and Rare Diseases پر بہترین ریسرچ کرنے پر لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا تھا اور ڈاکٹر پروفیسر ہما ارشد چیمہ پاکستان کی وہ واحد خاتون ڈاکٹرہیں ‘جوکسی بھی قسم کےGenetic ٹیسٹ کیلئے پاکستان میں ہمہ وقت دستیاب ہیں اور اگر اﷲ تعالیٰ نے انہیں اس اعزاز سے نوازا ہے کہ انہیں اس قسم کے ٹیسٹ کرنے میں مہارت تامہ حاصل ہے ۔
پاکستان کے ہر شہری کو شکایات ہیں کہ بڑے بڑے ڈاکٹرز ان کے کروائے گئے کسی بھی ٹیسٹ کو قبول کرنے کی بجائے اپنی مرضی کی لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کروانے کیلئے مجبور کرتے ہیں ۔لاہور کے ایک سرکاری سکول کی ایک سینئر ٹیچر جو اب ریٹائر ہو چکی ہیں‘ کی صحت کچھ خراب رہنے لگی ‘اس کے اکلوتے بیٹے نے شوکت خانم سے ان کے کچھ ٹیسٹ کروائے تو ان کی رپورٹس میں پیچیدہ قسم کی بیماری کی علامات پائی گئیں‘ اب وہ نوجوان اپنی والدہ کو کیمو تھراپی سے دُور رکھنا چاہتا تھا ‘کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ اس عمل سے بہت خوف زدہ رہتی ہیں اور ان کا اکلوتا بیٹا بھی اپنی ماں کو کیمو تھراپی جیسی اذیت دینے کے حق میں نہیں تھا ۔کچھ ڈاکٹروں سے اس نے رابطہ کیا تو اسے کہا گیا کہ آپ کی والدہ کےGenetic ٹیسٹ ہوں گے اور یہ ٹیسٹ صرف سنگا پور‘ برطانیہ اور امریکہ سے ہو سکیں گے۔ اس کے بعد پتا چلے گا کہ انہیں یہ بیماری ہے بھی یا نہیں؟کیونکہ پاکستان میں Genetic ٹیسٹ کی سہولتیں میسر نہیں۔اب اس بچے نے اپنی ماں کے Genetic ٹیسٹ ڈاکٹروں کی ہدایات کے مطا بق‘ امریکہ بھجوا دیئے اور اس سلسلے میں جو بھاری رقم اس بچے سے وصول کی گئی‘ اس کا ذکر رہنے ہی دیں تو بہتر ہے۔یہ سب اسی طرح ہے کہ جیسے پاکستان میں مریضوںکو دیکھنے والے ڈاکٹر سختی سے ہدایات کرتے ہیں کہ یہ ٹیسٹ آپ نے کسی اور سے نہیں‘ بلکہ اسی لیبارٹری سے کروانے ہیں‘ جس کا نام آپ کے نسخے میں لکھا ہے ‘اب مریض اور اس کے لواحقین ڈاکٹر صاحب کا حکم مان کر ان کی من پسندلیبارٹری میں ان کی مرضی کی فیسیں ادا کرتے ہیں؟
لاہور اور دیگر علاقوںسے آنے والی ہزاروں حاملہ خواتین کو زور دے کر کہا جاتا ہے کہ آپ اپناالٹرا سائونڈ صرف ایک ہی لیبارٹری سے کروائیں ۔میں بوجوہ اس لیبارٹری کا نام نہیں لکھ رہا‘ لیکن وہاں اس قدر ہجوم رہتا ہے کہ بے چاری حاملہ خواتین کو کئی کئی گھنٹوں تک انتظار کرناپڑتا ہے۔ اس کا اندازہ وہ خواتین یا ان کے ساتھ آنے والے ان کے شوہر اور رشتہ دار ہی کر سکتے ہیں ؛ حالانکہ ان کے الٹرا سائونڈ کیلئے ہر شہر میں اچھی سے اچھی لیبارٹریز موجود ہیں ‘ لیکن صرف لاہور ہی نہیں ‘بلکہ لاہورکے مضافات سے آنے والی خواتین کو بھی اسی سنٹر میں بھیجا جاتا ہے ۔ الغرض جب لاہور میںGenetic ٹیسٹ کی سہولت موجود ہے‘ تو پھر میاں نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی کیا ضرورت ہے؟