11مئی گزر گئی۔ہم بحیثیت قوم ایک عدد نئی تبدیلی کے ’’متھے ‘‘ لگ چکے ہیںجس کی شکل و صورت پہلے جیسی ہی ہے۔یوں لگتا ہے نئی تکالیف ہمارے پرانے دکھوں کی فرسٹ کزن ہیں۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے ہمارے بر ے نصیبے کا کسی دشمن نے’’ سٹے‘‘ (حکم امتناعی ) لے رکھا ہے۔ اس شُبھ گھڑی مجھے ایسی نحس باتیں نہیںکرنی چاہئیںمگر کیا کیاجائے، حقائق کا سامنا بھی تو کرنا ہے۔اس سے پہلے کہ بگل اوربڑا باجا بجاکر شریف برادران کی خدمت اقدس میں مسائل کی پٹاری کھولی جائے ۔ مناسب یہ رہے گاکہ میںاپنے کالم فٹ پاتھ کی ’’جنس ‘‘ تبدیل کرتے ہوئے اسے ٹاک شو بنالوں اور پھر اس پلیٹ فارم سے شریف برادران کو ان کی کامیابی پر شایانِ شان مبارک باد پیش کروں۔میں پیشہ ور خوشامدیانہیں، میرے تھوڑے کہے کو ہی زیادہ سمجھیے گا۔ میاں برادران کی خدمت میںبراہ راست غالب کا شعر عرض ہے ۔اس ضمن میں برادرم پرویز رشید صاحب سے بھی گذارش ہے کہ شعرہٰذا کو غالب کے بجائے بندۂ صحافی کے جذبات سمجھا جاوے ؎ زباں پہ بار ِ خدا یا یہ کس کا نام آیا کہ میرے نطق نے بُوسے مری زباں کے لیے 11اور12مئی کے دن بہت سے سیاستدانوں سے ٹیلی فونک رابطہ رہا،دانشوروں اورتجزیہ نگاروں سے بھی بات چیت ہوتی رہی۔میرا بھارتی فنکاروں سے بھی رابطہ رہا۔ ہدایتکار مہیش بھٹ ، دلیر سنگھ مہدی،ہنس راج ہنس،جاوید اختر ،شبانہ اعظمی اوردلیپ کمار صاحب کی اہلیہ سائرہ بانو نے بھی میرے ساتھ رابطہ رکھا اورانتخابات کے نتائج کو اچھا شگن قراردیا ۔ سائرہ بانو نے بتایاکہ دلیپ کمار صاحب پاکستان میںہونے والے انتخابات کے بارے میںتشویش میںمبتلا تھے ۔ان کا کہنا تھاکہ پاکستان میں انتخابات کا عمل بد امنی اورانسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ مشروط نہیں رہناچاہیے۔ بابرہ شریف نے بھی شریف برادران کو کامیابی پر مبارکباد دی۔مجھے تویوں لگاکہ شریف برادران اورنون لیگ کی کامیابی کی ’’رجسٹرمبارک باد‘‘ میرے پاس ہے اورمیں اس کاہیڈمحرر ہوں لیکن یہ نیک کام انہیںمبارک ہوجو اسے سرانجام دے رہے ہیں۔ بہر حال دونوں ملکوں کے فنکاروں اوردوستوں نے جو کہااس کا لب لباب یہ تھاکہ ’’انتخابات کے نتائج اچھے ہیں،عوام نے ہنگ پارلیمنٹ کے بجائے شریف برادران کو ووٹ دیا ہے ۔شریف برادران کو عوام سے کئے وعدے پورے کرنے چاہئیں۔دوسری سیاسی پارٹیوں کو شریف برادران سے تعاون کرنا چاہیے تاکہ مصیبتوں کے مارے عوام کو ان گنت دکھوں سے نجات دلائی جاسکے‘‘۔فنکاروں نے انتخابات کے حوالے سے عمران خان کے ’’پولیٹیکل والیم‘‘ یعنی سیاسی حجم کے حوالے سے سوال کیاکہ عمران خان کا سونامی توقعات سے کم واقع کیوں ہوا؟ دونوں ملکوں کے فنکاروں اوردوسرے لوگوں کی طرح میںبھی خوش ہوں کہ الیکشن 2013ء کے نتیجہ میںہنگ پارلیمنٹ کا خطرہ ٹل گیاہے۔میاں نوازشریف اوران کی جماعت نون لیگ قومی سیاست کے روایتی ’’بکیوں‘‘ سے بلیک میل ہوئے بغیر مرکز میںاپنی حکومت بنانے کے بعد عوام سے کیے تمام وعدے پورے کرے گی ۔مگر سب کچھ ویسا نہیں ہے جیسا فارمولافلموں میںہوا کرتاہے۔ حقیقی زندگی اورروایتی سیاست غالباََمتوازی فلم کی طرح ہوتی ہے جس میں HAPPY ENDING نہیں ہوا کرتی بلکہ اسے حقیقت کے قریب لانے اورایوارڈز دینے والی ’’ایجنسیوں‘‘ کی توجہ مبذول کرانے کیلئے خواہ مخوا ہ تھرل اورایکشن کے ساتھ ٹریجڈی کاتڑکا بھی لگاناپڑتاہے ۔ میاں نوازشریف اورنون لیگ کی کامیابی کے موتی چور لڈو ابھی پوری طرح بٹے نہیں تھے کہ نیوز چینلز پر متحدہ کے قائد الطاف حسین کا ٹیلی فونک خطاب نشر کیاگیا۔ الطاف حسین نے اپنی گرجدار آواز میںکہاہے کہ’’ اسٹیبلشمنٹ کو کراچی کا مینڈیٹ پسند نہیںتو پاکستان سے الگ کردے‘‘۔الطاف حسین نے یہ بھی کہاہے کہ متحدہ کو دیوار سے لگانے کی سازش کی جارہی ہے، ہر ناکردہ جرم کاالزام متحدہ پر لگادیاجاتاہے، ہماراصبرزیادہ نہ آزمایاجائے، اسٹیبلشمنٹ آگ سے نہ کھیلے ورنہ یہ پورے پاکستان کو راکھ کردے گی ،کارکنوں کو حکم دیاتو تین تلوار پر مظاہرین کو چھلنی کردیں گے۔ الطاف بھائی کا تقریر کرنے کا انداز عموماََجارحانہ ہی ہوتاہے لیکن پاکستان سے علیحدگی کی بات انہوں نے ایک مدت کے بعد کی ہے۔اس بار انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو بھی للکارا ہے اوریہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ انتخابی نتائج اس بار بھی اُسی کے زیر سایہ ہی آئے ہیں۔ الیکشن 2013ء کے انتخابی نتائج کے حوالے سے بعض جماعتوں نے شکا یت کی ہے کہ انتخابات صاف شفاف نہیںہیںلیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ جیتنے اورہارنے والی سب سے بڑی جماعتوں نے نتائج کو قبول کیاہے۔ انتخابات جیتنے والی پارٹی کے سربراہ میاں نوازشریف نے تو نتائج کو صاف شفاف قراردینا ہی تھامگر داد دینی چاہیے پاکستان پیپلز پارٹی کو جس کے کارکنوں اوررہنمائوں نے میاں نوازشریف کو مبارکباد دی ہے۔مبارک باد دینے والوں میںمحترمہ بے نظیر بھٹو کی بیٹی آصفہ زرداری بھی شامل ہیں۔یہ بہت بڑی بات ہے کیونکہ ہمارے ہاں ہارنے والاکبھی اپنی ہار نہیںمانتا جس سے جمہوری روایات کی نفی ہوتی اورآمریت کے’’سیلز مین‘‘ کو موقع ملتاہے کہ وہ جمہوریت کوپاکستان کے لیے غیر موزوں قراردے۔ اس سلسلہ میںقمر زمان کائرہ کا بیان خالصتاََ جمہوری قرار دیا جاسکتاہے جنہوں نے انتخابات میںنون لیگ کی جیت کو تسلیم کرتے ہوئے مبارک باد دی ہے؟تاہم کائرہ صاحب نے پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دورِ حکومت میںعدلیہ اورمیڈیا کے مخصوص کردار کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ دونوں کا کردار قابلِ تحسین نہیںرہا۔کائرہ صاحب سمیت کوئی بھی اسٹیبلشمنٹ کے اس خفیہ کردار کا تذکرہ نہیںکررہاجس کی کوکھ سے میموگیٹ سیکنڈل سمیت بہت کچھ پیدا ہوتارہا۔پیپلز پارٹی اوراس کے رہنما نیک پروین کی طرح ظلم سہتے ہیں لیکن شکوہ نہیںکرتے۔پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور میںاسے اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ ، میڈیا،دہشت گردی ، بے روزگاری ،مہنگائی اورلوڈشیڈنگ سمیت دیگر مسائل نے گھیرا ڈالے رکھا۔بہر حال اب یہ قصے پرانے ہوگئے ہیںاورنیامنظر نامہ یہ ہے کہ میاں نوازشریف اس ملک کے وزیر اعظم ہوں گے۔ صدر ِپاکستان آصف علی زرداری نے بذات خود بھی میاں نوازشریف کو ٹیلی فون کرکے مبارک باد دی ہے۔نواز شریف نے غیر ملکی صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے اپنی ترجیحات واضح کی ہیں۔میاں صاحب نے کہاہے کہ وزرات عظمیٰ کی تقریب حلف ِوفاداری میںدوسرے ہمسایہ ممالک کے سربراہان کی طرح بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کو بھی مدعوکیاجائے گااوربھارت کے ساتھ تعلقات وہیں سے دوبارہ شروع کیے جائیںگے جہاں سے یہ سلسلہ منقطع ہواتھا۔ میاں نوازشریف آئندہ دنوں میںتیسری بار وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھا کر وزیر اعظم بننے کی اپنی ہیٹر ک مکمل کریںگے۔میاں صاحب کوقوم سے کیے وعدے پورے کرنے کے لیے پیپلزپارٹی کے تعاون کی ضرورت رہے گی ۔ میاں صاحب کو پیپلز پارٹی کے ساتھ دوستانہ رویہ اپنانے کی ضرورت ہوگی۔ایسا کرنا صرف اخلاقی تقاضوں کی ضرورت نہیں، میاں صاحب کو سیاسی گوتم سدھارتھ بدھا بننا ہوگا کیونکہ اس کے سیاسی اورتکنیکی جواز موجود ہیں۔قومی اسمبلی میںنون لیگ کے پاس اب تک کے نتائج کے مطابق 125نشستیں ہیں۔میاں صاحب مرکز میںآسانی کے ساتھ حکومت بنالیںگے،پنجاب میںایک بار پھر ان کا تخت بچھایاجائے گا مگر انہیں قانون سازی کے لیے سینیٹ میں پیپلزپارٹی کی حمایت درکار ہوگی۔پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی پیدا کی ہوئی ’’ٹیسٹ ٹیوب بے بی ‘‘ نہیں اصلی جمہوری پارٹی ہے ۔اب اسے ایک ذمہ دار اپوزیشن کا کردار نبھانا ہوگا۔ہم ان دانشوروں سے بھی ملتمس ہیںجو جنگجو اوراینگری ینگ مین کا کردار کرتے ہوئے 2013ء کے انتخابات کے نتیجہ میںمعرض وجود میںآنے والے سیٹ اپ پر آگ پھونک رہے ہیں۔ ان سے درخواست ہے کہ وہ شبھ،شبھ بولیں۔ میاں نوازشریف کو عادی مجرموں،کن ٹٹوں اور شیدے پستولوں کو نظر انداز کرکے سیاسی ’’بدھا‘‘کا کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ اسی میںہم سب کی بھلائی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved