تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     08-11-2019

مہا راج ڈرے ہوئے ہیں

کتنا بڑا مخمصہ ہے کہ بڑا بھی بننا ہے اور ڈر بھی لگ رہا ہے۔ معاملہ انفرادی ہو یا اجتماعی‘ بنیادی اُصول یا کُلیہ یہ ہے کہ جو ڈر گیا‘ سمجھو مرگیا۔ عالمی سیاست و معیشت کا یہی معاملہ ہے۔ جس میں ہمت ہے ‘وہ آگے بڑھے۔ جو خوفزدہ ہوا‘ وہ بس یہ سمجھ لے کہ اُس کی بساط لپٹ گئی۔ کئی عشروں سے بھارتی قیادت‘ ایک خواب دیکھ رہی ہے۔ یہ خواب ہے علاقائی سطح پر چودھری بننے کا۔ یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوچکا ہوتا‘ مگر مسئلہ یہ ہے کہ چین بھی پڑوس میں ہے ‘جو مہا راج سے نا صرف یہ کہ دبتا نہیں‘ بلکہ دوسروں کو دبانے کا موقع بھی نہیں دیتا! پاکستان سمیت متعدد علاقائی ممالک کے لیے چین ایک بفر زون کا درجہ رکھتا ہے۔ بھارت کے مذموم عزائم کو ایک خاص حد تک رکھنے میں چین کے وجود نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ 
نئی دہلی کے پالیسی میکرز چاہتے ہیں کہ خطے میں صرف بھارت کی بات مانی جائے۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ بڑا بننے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے‘ بہت کچھ ثابت کرنا ہوتا ہے۔ نیپال‘ سری لنکا‘ بھوٹان اور بنگلا دیش وغیرہ کو دباکر نئی دہلی کے پالیسی میکرز یہ سمجھ بیٹھے کہ اب اُن کی دال کو گلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ خیر گزری کہ مہا راج کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے چین پورے طمطراق کے ساتھ موجود ہے۔ 
نریندر مودی کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں بھارت نے کیا پایا ہے اور کیا کھویا ہے؟ اس کا فیصلہ تو اُن کے جانے کے بعد ہوگا۔ صورتِ حال یہ ہے کہ نریندر مودی کی قیادت میں بھارت وہ سب کچھ پانے میں ناکام رہا ہے‘ جس کا خواب دیکھا گیا تھا۔ بھارت کے نالج ورکرز دنیا بھر میں ہیں اور خوب زرِ مبادلہ گھر بھیج رہے ہیں۔ نئی دہلی کے بزرجمہر اِس خوش گمانی میں مبتلا ہوگئے کہ اب بھارت کو علاقے کا چودھری بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ امریکا اور یورپ کی معیشتوں میں پیدا ہونے والی سُست رفتاری کو دیکھتے ہوئے مودی سرکار نے یہ خواب دیکھنا شروع کیا کہ چین کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے وہ اب عالمی معیشت میں اپنا حصہ بڑھا سکتی ہے۔ بھارت ایک بڑا ملک ہی نہیں‘ بڑی کنزیومر مارکیٹ بھی ہے۔ امریکا اور یورپ اِس بنیادی معاشی حقیقت کو کبھی نظر انداز نہیں کرتے اور پالیسیوں میں بھارت کی خوشنودی کا پورا خیال رکھتے ہیں۔ 
یہاں تک تو سب ٹھیک ہے‘ مگر جب چین کا معاملہ آتا ہے تو مودی سرکار کے اوسان خطا ہونے لگتے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ معاشی اعتبار سے بھارت اب بھی چین سے کم و بیش پانچ گنا چھوٹا ہے۔ چین میں تعلیم اور تربیت دونوں کا معیار بہت اعلیٰ ہے۔ پورا معاشرہ مجموعی طور پر متوازن‘ مستحکم اور خوش حال ہے۔ چین کے دیہات میں بھی لوگ ڈھنگ سے جی رہے ہیں۔ معاشرتی خرابیاں برائے نام ہیں۔ دوسری طرف بھارت کا معاملہ یہ ہے کہ 80 کروڑ سے زائد افراد اب بھی پینے کے صاف پانی کے حصول کے لیے روزانہ خاصی تکلیف برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ معاش کے ذرائع بھی غیر متوازن ہیں اور عمومی معیارِ زندگی پر بُری طرح اثر انداز ہو رہے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم یہ خواب دیکھ رہے ہیں کہ بھارتی معیشت کا ٹرن اوور 5 ہزار ارب ڈالر سے زائد ہوجائے گا۔ یہ کیسے ہوگا؟اس کے حوالے سے وہ کچھ نہیں کہتے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کا مینوفیکچرنگ سیکٹر امریکا‘ یورپ اور چین کے مقابلے میں انتہائی کمزور ہے۔ عالمی منڈی میں اشیاء کو جس تیزی سے بھیجنا ہوتا ہے‘ وہ بھارت کے لیے اب تک ممکن نہیں ہوسکا۔ بھارت میں مینوفیکچرنگ سیکٹر کے لیے لازم سمجھا جانے والا بنیادی ڈھانچہ اب تک خاصا فرسودہ ہے۔ کام کرنے کی وہ لگن بھی نہیں پائی جاتی‘ جو چین‘ امریکا اور یورپ میں بہ درجۂ اتم پائی جاتی ہے۔ 
امریکا اور چین کے درمیان تجارتی تنازع کا فائدہ اٹھانے میں بھی بھارت اِس لیے کامیاب نہیں ہوسکا کہ وہ اب تک اپنے مینوفیکچرنگ سیکٹر کو اپ گریڈ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ پالیسیوں کو دیکھیے تو آگے بڑھنے کی لگن دکھائی دیتی ہے‘ مگر فیصلوں سے تذبذب جھلک رہا ہے۔ بھارتی قیادت ایک طرف تو یہ چاہتی ہے کہ عالمی سطح پر اپنی بات منوانے کے قابل ہوجائے اور جب ایسا کوئی موقع آتا ہے‘ تب گھبراکر پیچھے ہٹ جاتی ہے۔ ریجنل کمپری ہینسو اکنامک پارٹنرشپ (آر سی ای پی) کا بھی کچھ یہی کیس ہے۔ 
چین نے ایشیا و بحرالکاہل کو ملاکر یہ نیا بلاک بنانے کی کوشش کی ہے۔ مقصود یہ ہے کہ دنیا کی نصف سے زائد آبادی پر مشمل خطوں کو ایک لڑی میں پرودیا جائے۔ آر سی ای پی کی تشکیل میں چین نے قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیائی ریاستوں کی تنظیم ''آسیان‘‘ کے 10 ارکان (لاؤس‘ میانمار‘ کمبوڈیا‘ تھائی لینڈ‘ ویتنام‘ ملائیشیا‘ برونائی‘ فلپائن‘ انڈونیشیا اور سنگاپور) کے ساتھ ساتھ چین‘ جاپان‘ جنوبی کوریا‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ بھی اس نئے گروپ کے رکن ہیں۔ اب بھارت کا انتظار ہے۔ اور بھارت تذبذب کا جُھولا جُھول رہا ہے! 
کیوں؟ مہا راج کو ڈر لگ رہا ہے...! 
ڈر...؟ مگر کس سے...؟ 
چین سے ... اور کس سے...! 
بھارتی وزیر اعظم نے صاف کہہ دیا ہے کہ بھارت اپنے مفادات داؤ پر نہیں لگائے گا۔ یہ مفادات کیا ہیں؟ بھارت کا مینوفیکچرنگ سیکٹر کمزور ہے۔ اس حقیقت کا علم بھارتی وزیر اعظم سے زیادہ کسے ہوگا؟ وہ جانتے ہیں کہ اُن کا گھوڑا کمزور ہے اِس لیے اُسے ریس میں شامل نہیں کر رہے! بھارت کو یہ ڈر ہے کہ آر سی ای پی کے بینر تلے چینی قیادت بھارت کے طول و عرض کو اپنی سستی اشیاء کے ڈمپنگ گراؤنڈ میں تبدیل کردے گی۔ ٹھیک ہے‘ مگر صاحب ع
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں 
ایک زمانے سے بھارت بھی تو اپنی بڑی مارکیٹ کا فائدہ اٹھاتا آیا ہے۔ اب‘ اگر چین اپنے مضبوط مینوفیکچرنگ انفرا اسٹرکچر کا فائدہ اٹھا رہا ہے تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے۔ مقابلہ کرنا ہے تو میدان میں آؤ۔ چین نے کہا ہے کہ وہ آر سی ای پی میں بھارت کی آمد کا منتظر ہے۔ مقصود یہ ہے کہ اقتصادی اعتبار سے پورے خطے کو ایک لڑی میں پرو دیا جائے۔ چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان گینگ شوانگ کہتے ہیں کہ بھارت کا انتظار ہے۔ دونوں ممالک مل کر 2 ارب 70 کروڑ کی مارکیٹ ہیں۔ 
بھارت کی تمام پالیسیوں کی اساس یہ ہے کہ ملک معاشی طور پر زیادہ سے زیادہ مستحکم ہو۔ یہ اچھی بات ہے‘ مگر اِس ایک اچھی بات کے لیے سبھی کچھ داؤ پر نہیں لگایا جاسکتا۔ بھارت ترقی کرنا چاہتا ہے‘ مگر اندرونی استحکام یقینی بنانے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی‘ جو اس کی بہت بڑی خطا ہے۔ 
نئی دہلی کے پالیسی میکرز اب تک یہ نکتہ نہیں سمجھ پائے کہ اپنے خطے کو نظر انداز کرکے یورپی یونین یا امریکا سے بہتر اقتصادی تعلقات استوار رکھنا بھرپور ترقی کی راہ ہموار نہیں کرسکتا۔ آر سی ای پی کو نظر انداز کرکے یورپی یونین کو گلے لگانے کی بات کی جارہی ہے۔ اِس نوعیت کی مہم جُوئی کسی بھی اعتبار سے حقیقی مطلوب نتائج پیدا نہیں کرسکتی۔ چین کے خوف سے خطے کی زمینی حقیقت کو نظر انداز کرکے امریکا اور یورپ کو اپنانا نئی دہلی کے لیے کسی بھی اعتبار سے حقیقی فائدے کا سودا نہیں ہوسکتا۔ اِس حقیقت کی روشنی میں نئی دہلی کے پالیسی میکرز کو متوازن اور مستحکم پالیسیاں تیار کرنا ہوں گی اور ہاں... بڑا بننا ہے‘ تو اتنا ضرور یاد رکھنا ہے کہ ڈرنا منع ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved