تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     09-11-2019

بالآخر…

بے شک انسان کی اصل متاع یہی ہے کہ وہ دوسروں کا دکھ درد محسوس کرے۔کسی کو تکلیف میں دیکھے تو اُس کے دکھ کا احساس کرے۔صرف احساس ہی کیوں‘توفیق ہوتو اُس کی تکلیف دور کرنے کی کوشش بھی کرے ۔
پوچھ لیتے وہ بس مزاج میرا
کتنا آسان تھا علاج میرا
کم و بیش تین ہفتوں تک پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں آنے والے مریض حالات کے رحم و کرم پر رہے۔ وہ تو اللہ بھلاکرے عدالت کا کہ جس کی مداخلت پربالآخر ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکس تقریباً تین ہفتوں بعد ہڑتال ختم کرنے پر رضا مند ہوئے ۔ عدالت کے حکم پر سرکاری ہسپتالوں میں ہڑتال تو ختم کردی گئی ‘ لیکن سوال تو یہ ہے کہ حکومت معاملہ حل کرانے میں کامیاب کیوں نہ ہوسکی؟حکومت کی طرف سے ایم ٹی آئی ایکٹ کیا متعارف کرایا گیا کہ ڈاکٹرزاور پیرامیڈیکل سٹاف مریضوں کا علاج تو کیا اُن کا مزاج پوچھنے سے بھی گیا۔ تین ہفتے گزر گئے لیکن ایکٹ کے خلاف ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکس کی ہڑتال مسلسل جاری رہی۔ ہمارا نظامِ صحت تو پہلے بھی کوئی مثالی نہیں ہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہڑتال کے باعث مریضوں پر کیا بیتی ہوگی۔ تمام ٹیچنگ ہسپتالوںکے بیشتر شعبوں میں مکمل طور پر کام بند رہا۔ حکومت سینئر ڈاکٹرز اور دستیاب دیگر وسائل کی مدد سے کچھ کام چلاتی رہی لیکن یہ مسئلے کا مستقل حل ہرگز نہیں تھا۔کیسی ستم ظریفی ہے کہ تین ہفتوں کے بعد بھی اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا ہوا دکھائی نہ دیا ۔ ہڑتالی کام شروع کرنے کے لیے تیار نظرآئے نہ حکومت آگے بڑھنے کے لیے رضامند ہوئی۔ خمیازہ اُن کو بھگتنا پڑ ا جن کے لیے سرکاری ہسپتالوں کے علاوہ کوئی دوسری جائے علاج نہیں ہے۔مجبور ہیں کہ رفع تکلیف کے لیے صرف سرکاری ہسپتالوں کا رخ ہی کرسکتے ہیں۔
ہڑتال شروع ہونے کے بعد پیشہ ورانہ اُمور کی انجام دہی کے لیے متعدد بار مختلف ہسپتالوں میں جانا ہوا۔ مریضوں کے حالات جاننے کا موقع ملا تو ڈاکٹرحضرات سے بھی گفتگو رہی۔ اس معاملے پر حکومتی ذمہ داران سے بھی نشستیں رہیں ۔حکومتی ذمہ داران قرار دیتے رہے کہ ایم ٹی آئی ایکٹ کے خلاف ہڑتال بلاجواز ہے۔ اس ایکٹ سے ہسپتالوں کے نظام میں بہتری آئے گی ۔ اس کے تحت ہسپتالوں کے بورڈ آف گورنرز قائم کیے جائیں گے‘ جو کسی سیاسی مداخلت کے بغیر کام کریں گے ۔ وہ مسائل حل کرنے کے لیے خود مختار ہوں گے ‘اس کی مثال یوں بھی دی جاسکتی ہے کہ اگر کسی ہسپتال کو کسی مشین کی ضرورت ہے تو بورڈ آف گورنر ز کی منظوری سے وہ بغیر وقت ضائع کیے خریدی جاسکے گی۔ اس ایکٹ کے تحت تمام سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کی نگرانی بھی کی جاسکے گی ۔ ہسپتالوں میں 24گھنٹے ڈاکٹروں کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے گا ‘اچھی کارکردگی کا مظاہر ہ کرنے والے ڈاکٹروں کی تحسین بھی کی جائے گی۔ حکومت کا دعویٰ رہا کہ اس نظام کے تحت ڈاکٹروں کی ترقی کے لیے صرف تجربہ ہی نہیں بلکہ کام اور اچھے رویے کو بھی مدنظر رکھا جاسکے گا۔ اب دیکھا جائے تو بظاہر اس ایکٹ میں ایسی کوئی خرابی دکھائی نہیں دیتی کہ ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل سٹاف ہڑتال پر چلا جاتا۔ یہ معاملہ جب ہڑتالی ڈاکٹروں کے نمائندوںکے ساتھ اٹھایا تو اُن کی طرف سے تصویر کا کوئی اور ہی رخ دکھادیا گیا۔ ڈاکٹروں کو خدشہ تھا کہ ہسپتالوں کے بورڈ آف گورنرز میں صنعتکاروں کو شامل کرنے سے سرکاری ہسپتالوں میں بھی علاج مہنگا ہوجائے گا۔ ڈاکٹر ز اس خدشے کا بھی شکار دکھائی دئیے کہ اس ایکٹ کے تحت حکومت اپنی مرضی کے ڈاکٹروں کو بھرتی کرے گی ۔ یہی خدشات پیرامیڈیکس کے بھی تھے۔ تیسری طرف مریض یہ دہائی دیتے سنائی دیتے رہے کہ حکومت اور ہڑتالیوں کی اس لڑائی میں پس وہ رہے ہیں۔ اس تمام عرصے کے دوران سینئر ڈاکٹرز کو ضرور مصروف عمل دیکھا ‘لیکن بڑی تعداد میں ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکس ہڑتال پر ہوں تو نظامِ صحت کیسے معمول کے مطابق چل سکتا ہے؟سو دعوے بھی ہوتے رہے ‘ہڑتالی بھی اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور مریض بیچارے حالات کی ستم ظریفی کو سہتے رہے۔
کام بند ہونے کے باعث مریضوں کو کس قدر مشکلات کا سامنا رہا‘ اس کا اندازہ صرف ایک ہسپتال میں پیدا ہونے والی صورتحال سے لگا لیجئے کہ لاہور کا میوہسپتال ملک کے بڑے ہسپتالوں میں سے ایک ہے ‘یہاں آنے والے مریضوں کو ‘ انجیوگرافی‘ انجیو پلاسٹی‘ گردوں کی صفائی‘ مختلف نوعیت کے آپریشنز‘ چہرے جبڑے اور دانتوں کی جراحی اور ایسی ہی درجنوں دیگر طبی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ بیرونی مریضوں کے لیے تقریباً 42شعبے قائم ہیں جہاں ہر روز دوہزار سے چار ہزار مریضوں کو دیکھا جاتا ہے۔ٹیسٹوں کے لیے قائم مختلف لیبارٹریز میں روزانہ پندرہ سو سے دوہزار تک ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ کس کے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ جب تین ہفتوں تک سوائے ایمرجنسی کے تمام شعبوں میں کام بند رہا ہو تو مریضوں پر کیا گزری ہوگی ؟اس طرح لاہورکا جنرل ہسپتال برین سرجری کا اہم ترین مرکز ہے‘ جہاں صوبے بھر سے مریض آتے ہیں۔ دماغی چوٹوں کے شکار لائے جانے والے مریضوں میں اکثریت سڑک کے حادثات میں زخمی ہونے والوں کی ہوتی ہے۔ ایسے مریضوں کے لیے ایک ایک منٹ قیمتی ہوتا ہے۔مگر کس کی عقل میں یہ بات نہیں آئی ہوگی کہ جنرل ہسپتال میں کام بند ہونے سے مریضوں کو کس قیامت کا سامنا رہا ہوگا ؟ حکومتی ذمہ داران کا تو کہنا تھا کہ ہسپتالوں میں مریضوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔اس دعوے کو تسلیم کربھی لیا جائے تو یہ بات حلق سے نہیں اُتررہی تھی ۔
اندازہ لگائیے کہ نظام صحت کے حوالے سے پنجاب میں بحران پیدا ہوئے تقریباً تین ہفتے گزر گئے لیکن حکومتی سطح پر کسی نے اس جانب توجہ نہ دی ۔ اس مسئلے کو حل کرنے کی سنجیدہ کوششیں تو دور کی بات‘ ان کے آثار بھی نہ دکھائی دئیے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ اس صورتحال سے اُمرا متاثر نہیں ہورہے تھے ۔ اُن کے لیے ہرجگہ بہترین پرائیویٹ ہسپتال موجود ہیں ‘مسائل تو اُن کے لیے پیدا ہورہے تھے جنہوں نے کسی بیماری کی صورت میں سرکاری ہسپتالوں کا رخ ہی کرنا ہوتا ہے۔ وہاں علاج مل جائے تو ٹھیک ورنہ ایڑیاں رگڑرگڑ کر مرجاؤ کس کو تمہاری پروا ہے؟
ہڑتال کے حوالے سے حکومت غیرسنجیدہ دکھائی دی تو ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکس کے رویے کو بھی قابلِ تحسین تو ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا ‘لیکن مسئلہ حل کرنا بنیادی طور پر حکومت کی ہی ذمہ داری تھی‘ جسے عدلیہ کو انجام دینا پڑا ۔اس تمام صورتحال کو کیا نام دیا جاسکتا ہے کہ حکومت کی طرف سے مریضوں کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا۔ یقینا آزادی مارچ کے مسئلے کا حل بھی بہت ضروری ہے‘ جس نے حکومت کی نیندیں حرام کررکھی ہیں‘لیکن ان سب میں اُن کو تو فراموش ہرگز نہیں کرنا چاہیے جو ہفتوں تک اپنے مسیحاوں کی راہ تکتے رہے کہ اس کے علاوہ وہ اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ بقول میاں محمد بخش صاحب‘ ان بیچاروں کی کیفیت تو کچھ ایسی ہی رہی کہ'' لسے دا کی زور محمد نس جانا یا رونا‘‘۔(کمزور کا کیا زور ہوتا ہے‘ وہ یا تو بھاگ جاتا ہے یا روتا ہے)اس کے علاوہ اُس کے بس میں اور کچھ نہیں ہوتا‘ شاید اسی لیے ان کی آواز کسی کے کانوں تک نہ پہنچ پائی۔اگر عدلیہ بھی اس معاملے میں مداخلت نہ کرتی تو شاید حکومت اسی طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتی۔ انتظار کرتی رہتی کہ کب ہڑتالیوں کو مریضوں پر رحم آئے اور وہ واپس کام پر لوٹ آئیں۔کیا کہا جائے کہ تین ہفتوں تک ذمہ داران ٹس سے مس نہ ہوئے ‘اُن کی بیچارگی کسی کو دکھائی نہ دی ‘حالانکہ انسان کی اصل متاع یہی ہے کہ وہ دوسروں کا دکھ درد محسوس کرے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved