مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ ابھی تک اسلام آباد کے پشاور موڑ پر جما ہوا ہے۔ آگے بڑھا ہے نہ پیچھے ہٹنے کو تیار ہے۔ مولانا نے عید میلاد النبیؐ کے حوالے سے ایک بڑی سیرت کانفرنس کے انعقاد کا اشتہار بھی جاری کر دیا ہے۔ اس کے مطابق ''رہبر شریعت پیر طریقت حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقش بندی، حضرت مولانا محمد ادریس آف اکوڑہ خٹک، حضرت مولانا زاہد الراشدی، حضرت مولانا معید یوسف، حضرت مولانا محمد اسماعیل شاہ کاظمی، حضرت مولانا یحییٰ عباسی اور حضرت مولانا محمد الیاس‘‘ کے اسمائے گرامی مقررین میں شامل ہیں۔ نامور قرا حضرات اور نعت خوان بھی اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے۔ یہ کانفرنس سہ پہر 4 بجے سے رات گئے تک جاری رہے گی، اور اس کی صدارت (مسلسل) مولانا فضل الرحمن کے لئے خاص ہو گی۔ جب یہ سطور قارئین کی نظروں سے گزریں گی، یہ عظیم الشان کانفرنس منعقد ہو چکی ہو گی، اسلام آباد کے در و دیوار میں اس کی گونج البتہ باقی ہو گی، اور جانے کب تک باقی رہے۔ اسے پاکستان کی تاریخ کی اپنی نوعیت کی منفرد سیرت النبی ؐ کانفرنس کہا جا سکتا ہے کہ جس کے شرکا کی بھاری تعداد ایک ہفتے سے زیادہ ایک ہی جگہ جم کر بیٹھ جانے والوں پر مشتمل ہو، بارش اور سردی نے جن کے ارادوں کا کچھ نہ بگاڑا ہو، روکھی سوکھی کھا کر اور موٹا کھردرا پہن کر بھی جن کے ارادے متزلزل نہ ہوئے ہوں۔
مڈل اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے دھرنا نشین پورے یقین اور اعتماد سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ وسطی پنجاب سے لوگوں کی تعداد کم ہے، لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ بالکل ہی موجود نہیں ہیں۔ اس آزادی مارچ کو بڑی اپوزیشن جماعتوں کی سیاسی اور نفسیاتی حمایت تو حاصل تھی، اور آج بھی ہے لیکن عملاً انہوں نے اس میں زیادہ حصہ نہیں ڈالا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی‘ دونوں کے رہنما (پنجابی محاورے میں) ''لکن میٹی‘‘ کھیلتے رہے۔ رہبر کمیٹی کا حصہ بنے، اس کی نگرانی بھی سنبھالی، مذاکرات میں بھی شریک ہوئے لیکن عملاً... بازارسے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں، کی تصویر بنے رہے۔
اس مارچ اور دھرنے کی وجہ سے مولانا فضل الرحمن کا قد اونچا ہو گیا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی نے تو یہ کہہ کر ''پھوک‘‘ دینے سے بھی دریغ نہیں کیا کہ اب شہباز شریف قائد حزب اختلاف نہیں ہیں لیکن مولانا پھول کر کپُا نہیں ہوئے۔ ان کے لہجے میں تلخی ضرور بڑھ گئی اور انہوں نے للکار کر کہا کہ اب میرے پاس آئو تو (اپنے وزیر اعظم کا) کا استعفا لے کر آنا، خالی ہاتھ آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ آنیاں جانیاں میرے کسی کام کی نہیں ہیں۔ اس کے بعد مولانا، عزیزہ مہر بخاری سے گفتگو کرتے ہوئے ''بھوترے‘‘ نظر آئے انہوں نے لاشیں اٹھانے کی بات بھی کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ استعفے کے بغیر جانے والے نہیں ہیں، بھلے جان بھی جائے۔ ہم کسی کی جان نہیں لیں گے ہم تو نہتے ہیں، غیر مسلح لیکن اگر ہمیں یہاں سے خالی ہاتھ بھجوانے کے لیے تشدد کیا گیا تو جانوں کا نذرانہ پیش کر دیں گے۔ یہ گفتگو وائرل ہوئی تو دور و نزدیک کان کھڑے ہو گئے۔ کسی نے کہا کہ حضرت فرسٹریٹڈ ہو رہے ہیں تو کوئی ان کے پہاڑ بن جانے پر قربان ہونے لگا۔
سرکاری مذاکراتی کمیٹی سے رہبر کمیٹی کے رابطے تعطل کا شکار ہو چکے، چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کی پے در پے ملاقاتیں بھی تھم سی گئی ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی مطمئن تھے کہ انتخابی دھاندلی کے الزام کی تحقیقات کے لئے وزیر اعظم نے عدالتی کمیشن کے قیام پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے، بند گلی میں کوئی نہ کوئی ''کُھڈ‘‘ دریافت کر لی گئی ہے، حضرت مولانا کے اطمینان کا کچھ نہ کچھ سامان ہو جائے گا۔ لیکن مولانا نے 'استعفا پہلے‘ کی گردان جاری رکھ کر تادمِ تحریر امیدوں پر پانی اگر پھیرا نہیں تو چھڑک ضرور دیا ہے۔ حکومت اپنی جگہ ہے اور مولانا اپنی جگہ ہیں۔ دلچسپ سوال یہ ہے کہ اگر بات استعفے ہی سے شروع ہونی ہے تو پھر ختم کہاں ہو گی، اور اسے ختم کرنے کی ضرورت بھی کیا ہو گی؟ استعفا آ گیا تو پھر نہ شروع کرنے کی ضرورت ہے نہ ختم کرنے کی۔ اکرم درانی صاحب نے اعلان کیا کہ جلد پلان بی کا اعلان کر دیا جائے گا، یعنی دھرنے کو ختم کیا گیا تو پھر کیا ہو گا یا یہ کہ دھرنے کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ مزید کیا کچھ کیا جا سکے گا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مولانا کے دھرنے نے ماحول کو حقیقی طور پر بھی متاثر کیا ہے۔ عمرانی اور قادری دھرنے سے اس کا موازنہ کیا جا رہا ہے، رضوی دھرنے کو بھی شامل کر لیا جائے تو مولانا کا دھرنا نمبر ایک رہتا ہے کہ نہ اس میں سڑکیں بند کی گئیں، نہ املاک کو نقصان پہنچایا گیا، نہ کاروبارِ زندگی میں خلل ڈالا گیا۔ نہ پولیس والوں پر حملے ہوئے (نہ پولیس والوں نے ایسی ویسی حرکت کی) نہ گندگی پھیلائی گئی۔ نہ ناچ گانے سے اپنا اور دوسروں کا دِل بہلایا گیا۔ یہاں تو باجماعت نمازیں ادا کی جا رہی ہیں۔ صلوٰۃ و سلام کا دور دورہ ہے۔ چڑیا تک کا خون نہیں بہایا گیا۔ پُرسکون انداز میں کئی دن گزارنے والے، تمیز سے بات کرنے اور ڈسپلن کی پابندی کرنے والے ہزاروں افراد‘ جن میں بھاری تعداد مدرسوں کی سند یافتہ ہے، جدید اور اعلیٰ تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والے نام نہاد مہذب گروہوں پر اپنی برتری ثابت کرتے جا رہے ہیں، اور زبانِ خاموش سے بتا رہے ہیں کہ اگر نظم و نسق ان کے ہاتھ آ جائے تو وہ نام نہاد اپر مڈل کلاس اور اپر کلاس سے کہیں بہتر چلا کر دکھا دیں گے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کو مولویوں کی چھوٹی سی جماعت سمجھنے والے اس کے نظم اور وسعت سے حیران ہو رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے جلسوں سے تو کارکن کرسیاں اُٹھا کر گھر لے جاتے رہے ہیں۔ دوسری بڑی سیاسی جماعتوں کے اجتماعات میں بھی کھانے پر وحشی جانوروں کی طرح ٹوٹ پڑنے والے غول در غول ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑتے دکھائی دیتے ہیں، مگر یہاں ہزاروں افراد پورے اطمینان اور سکون سے باری کا انتظار کرتے اور پہلے آپ، پہلے آپ کی گردان کرتے نظر آتے ہیں۔ مولانا اور ان کے حلقہ بگوشوں کی تمام تر صلاحیتوں اور خوبیوں کے اعتراف کے باوجود یہ سوال جوں کا توں ہے کہ کیا پاکستان میں حکومتیں دھرنوں کے ذریعے ختم اور قائم ہونی چاہئیں؟ اور اگر اسی طرح چلنا اور چلانا ہے تو پھر حکومت نام کی شے پاکستان میں تو چلنے سے رہی۔ پچاس ہزار ہوں یا ایک لاکھ یا دو لاکھ یا اس سے بھی زیادہ‘ ہیں تو قومی اسمبلی کے ایک ہی حلقے کے ووٹروں کے مقابلے کے ووٹر۔ تو پھر انہیں کسی وزیر اعظم کے خلاف ایف آئی آر کٹوانے‘ خود ہی گواہی دینے، خود ہی اپنے حق میں دلائل دینے، اور اس کے بعد خود ہی منصف بن کر خود ہی فیصلہ صادر کرنے کا حق کیسے دیا جا سکتا ہے؟ دستور کی کون سی دفعہ کسی بھی دھرنے کو یہ حق دیتی ہے؟ حکومت سے کوئی کتنا ہی تنگ کیوں نہ ہو، کتنا ہی اس کے خلاف بخار اس کے دل میں کیوں نہ ہو، کتنا ہی اس کے الزامات میں وزن کیوں نہ ہو، کتنی ہی اس کی باتوں میں سچائی کیوں نہ ہو۔ حکومت کو دستور کے دائرے سے باہر نکل کر کیسے گرایا اور بنایا جا سکتا ہے؟ عمرانی دھرنے میں بھی یہ سوال پوچھا جاتا تھا، اور آج بھی پوچھا جا رہا ہے، یہ سوال مستقل طور پر کھڑا ہے، اور مسلسل ان کا پیچھا کرتا رہے گا، جنہوں نے دھرنا ٹیکنالوجی ایجاد کی تھی، اس کے ذریعے وزیر اعظم کو زیر کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، برادر عزیز وسعت اللہ خان نے میر تقی میر کے شعر میں تھوڑا سا تصرف کیا ہے، اسے اُن سے مستعار لے لیتے ہیں ؎
سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
''مذہبِ دھرنا‘‘ اختیار کیا
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)