تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     10-11-2019

لال بینڈ: مزاحمت اور آگہی کا سفر

وہ 2014ء کے اکتوبر کا ایک روشن دن تھا جب میں نے لمز (LUMS) میں پڑھانا شروع کیا۔ فیکلٹی آف ہیومینیٹینز اور سوشل سائنسز میں اس زمانے میں گنے چنے لوگ تھے۔ انہیں میں ایک نوجوان استاد تیمور رحمن بھی تھا۔ ایک جوشیلا مگر بے حد مؤدب نوجوان جس کی کلاس میں طالب علم شوق سے جاتے‘ جہاں کمیونزم، سوشل ازم اور کیپیٹل ازم کی بحثیں ہوتیں اور ان بحثوں کا ایک اہم جزو مارکس ہوتا۔ وقت گزرتا گیا‘ کبھی کبھار میں اسے آتے جاتے دیکھتا۔ اس کے کندھے پر اکثر گٹار ہوتی۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ اسے موسیقی سے بہت لگائو ہے۔ ایک سال گزر گیا۔ تب ایک ایسا واقعہ ہوا جس کی بدولت مجھے تیمور کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ 2005 کی بات ہے‘ ایک روز میری اپنے کولیگ رسول بخش رئیس سے بات ہو رہی تھی۔ باتوں باتوں میں ایک خیال نے ہمیں اپنی گرفت میں لے لیا کہ کیوں نا ایک ایسا کورس ڈیزائن کیا جائے جس میں طلبا کو شہروں سے ہٹ کر قصبوں اور دیہات کی زندگی سے متعارف کرایا جائے۔ طے پایا کہ اس کورس کو جس کا نام Community Based Learning ہو گا‘ اساتذہ کی ایک ٹیم پڑھائے گی۔ میرے اور رسول بخش کے علاوہ تین اساتذہ بھی ہماری ٹیم کا حصہ بن گئے۔ یہ ذیشان، یاسر ہاشمی اور تیمور رحمن تھے۔ یہ ہم سب کے لیے ایک انوکھا تجربہ تھا جس میں ہمیں پانچ روز کیلئے لاہور کے ہنگاموں سے دور خانیوال میں رہنا ہوتا‘ روزانہ طلباوطالبات کو مختلف دیہات میں جانا ہوتا اور انہیں پہلے سے دیے گئے موضوعات پر لوگوں سے مل کر معلومات حاصل کرنا ہوتیں۔
وہ اگست کا مہینہ تھا جب ہم ایک بس پر خانیوال کے لیے روانہ ہوئے۔ راستے کا پہلا پڑائو منٹگمری (ساہیوال) تھا۔ وہیں ایک ڈھابہ نما ہوٹل میں ہم کھانے کے لیے رکے۔ جس میز پر میں بیٹھا تھا اس پر تیمور حمن اور یاسر ہاشمی بھی تھے۔ یاسر ہاشمی کا ایک تعارف یہ بھی کہ وہ معروف شاعر فیض احمد فیض کے نواسے ہیں‘ انتہائی ذہین اور مہذب۔ میں نے یاسر سے کہا: آپ کو یاد ہے ناں کہ منٹگمری جیل میں فیض احمد فیض کو قید رکھا گیا تھا۔ فیض احمد فیض کے ذکر سے تیمور کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو گئی۔ میں نے بات جاری رکھی: فیض صاحب کو راولپنڈی سازش کیس کے سلسلے میں چار سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی‘ وہ لاہور اور منٹگمری کی جیلوں میں رہے لیکن جیل کی سلاخیں خیال کو زنجیر نہ کر سکیں۔ فیض کی شاعری کی دو بہترین کتابیں 'دست صبا‘ اور 'زنداں نامہ‘ اسیری کے دنوں میں لکھی گئی۔ شاعر کو جب قرطاس و قلم سے محروم کر دیا جائے تو وہ اظہار کے نئے نئے طریقے ڈھونڈ لیتا ہے۔ فیض صاحب کا بھی یہی معاملہ تھا۔ 
متاعِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقۂ زنجیر میں زباں میں نے
ہماری گفتگو ابھی ادھوری تھی کہ اعلان ہوا‘ بس روانہ ہونے والی ہے۔ خانیوال میں پانچ روز قیام کے دوران دن بھر تو ہم مختلف دیہات کی گلیوں کی خاک چھانتے رہتے؛ البتہ رات کو ٹولیوں میں بیٹھتے اور گپ شپ ہوتی۔ رات کی انہیں محفلوں میں ایک دن حبیب جالب کا ذکر چل نکلا تو وہ دن یاد آ گئے جب میں پرائمری سکول میں پڑھتا تھا۔ ایوب خان کی حکومت تھی‘ جہاں تحریر اور تقریر کی آزادی نہیں تھی۔ درباریوں کا ایک ٹولہ تھا جو دن رات مدح سرائی میں مصروف رہتا تھا۔ اختلافِ رائے کی کوئی گنجائش نہیں تھی‘ جبر کے اس سناٹے میں ایک آواز ابھری:
تیرے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا‘ میں نہیں جانتا
جام زندوں کو ملنے گئے تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو
اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
اسی دوران حبیب جالب کی کتاب شائع ہوئی یہ مزاحمتی شاعری کی کتاب تھی جس کا نام 'سرِ مقتل‘ تھا۔ کتاب شائع ہوتے ہی اس پر پابندی لگا دی گئی۔ یہ کتاب بیچنا، اپنے پاس رکھنا اور پڑھنا بھی جرم تھا جس میں ان کی زباں زدِ عام نظمیں مثلاً دستور، مشیر، دس کروڑ انسانو، چھوڑ کے نہ جا شامل تھیں۔ حبیب جالب ایک نڈر انسان تھے‘ جو ہر دور میں سچ کی آواز بن کر ابھرے۔
خانیوال میں رات کی محفل میں جب مزاحمت، حبیب جالب اورر فیض کا ذکر ہوتا تو سب دلچسپی سے سنتے لیکن تیمور کی دلچسپی دیدنی ہوتی۔ پانچ دن جیسے پَر لگا کر اُڑ گئے لیکن اس دوران ذیشان‘ یاسر اور تیمور کے ساتھ بیٹھنے اور انہیں سمجھنے کا موقع ملا۔ پھر میں لاہور کی ایک اور یونیورسٹی میں چلا گیا تو پرانے دوستوں سے ملاقاتوں میں لمبے وقفے آنے لگے۔ پھر تیمور کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن چلا گیا ہے۔ اس دوران ملکی سیاست میں بھونچال آ گیا۔ اس وقت کے حکمران پرویز مشرف نے اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس کو برطرف کر دیا تھا۔ اس پر عدلیہ بحالی تحریک کا آغاز ہوا‘ جس میں وکیلوںکے علاوہ معاشرے کے مختلف طبقوں نے بھی بھرپور ساتھ دیا۔ لاہور میں ہر جمعرات کو لوگ اکٹھے ہوتے اور احتجاج میں اپنا حصہ ڈالتے۔ ادھر لندن میں بھی پاکستانی اکٹھے ہوتے اور عدلیہ کے حق میں نعرے لگاتے۔ وہیں تیمور اور مہوش بھی مظاہروں میں حصہ لیتے۔ مہوش اس کی شریکِ حیات ہی نہیں اس کی فکر اور اس کی جدوجہد کی ساتھی بھی تھی۔ تیمور کو تو یہ سوچ ورثے میں ملی تھی۔ اس کے والد راشد رحمن جب تعلیم کے لیے بیرون ملک گئے تھے تو یہ ساٹھ کی دہائی تھی۔ انہوں نے طالب علموں کی تحریک کو قریب سے دیکھا تھا۔ ان کے خیالات میں ترقی پسندی کا رنگ پختہ ہو گیا تھا۔ پاکستان واپس آکر انہوں نے آزادیٔ اظہار کے لیے عملی کام کیا۔ یوں تیمور کا مارکس ازم اور سوشلزم سے تعارف بچپن میں ہو گیا تھا۔ کسی طرح کی ناانصافی پر آواز اٹھانا اس کے خون میں شامل تھا۔ اسے موسیقی کا شوق تھا۔ کالج کے زمانے سے ہی وہ گٹار بجاتا تھا۔ عدلیہ بحالی کی تحریک میں وہ اپنی گٹار لے جاتا اور نعروں کے ساتھ گٹار پر مزاحمتی گیت سناتا۔ یہ وہ دن تھے جب معروف قانون دان اور عدلیہ بحالی تحریک کے مرکزی رہنما اعتزاز حسن کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنی نظم 'کل آج اور کل‘ اپنی آواز میں ریکارڈ کرکے یوٹیوب پر رکھ دی۔ تیمور نے وہ نظم سنی تو سوچا اس نظم کو گا کر لوگوں کو سرگرم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ یہ نظم بعد میں عدلیہ بحالی تحریک کا ترانہ بن گئی۔ نظم کی کمپوزیشن تیمور کی تھی اور آواز شاہرام کی تھی۔ 2008 کا سال تھا‘ جب سب دوستوں نے سوچا‘ کیوں نہ مل کر ایک بینڈ بنایا جائے۔ اس بینڈ کا نام لال رکھا گیا‘ جو بائیں بازو کی سیاست کا علامتی رنگ ہے۔ لال بینڈ اس لحاظ سے ایک مختلف بینڈ تھا کہ اس نے مزاحمتی شاعری کا انتخاب کیا جس میں فیض اور حبیب جالب سرفہرست ہیں۔ لال بینڈ کا روح رواں تیمور رحمن ہے۔ اس کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ وہ یونیورسٹی کا پروفیسر ہے۔ کلاس سٹرکچر کے حوالے سے ایک کتاب کا مصنف ہے۔ یوٹیوب پر سنجیدہ موضوعات پر وڈیو لیکچر دیتا ہے۔ بائیں بازو کی ایک سیاسی جماعت کا رہنما ہے اور پاکستان کے اندر اور بیرون ملک دوروں پر بھی جاتا ہے۔ صرف پچھلے تین برسوں میں اس نے دو سو کے قریب موسیقی کے فنکشن کیے۔ 
کوئی جذبہ ہے جو اسے بے چین رکھتا ہے کوئی یقین ہے جو اسے پُرامید رکھتا ہے کہ ایک دن کمزوروں کو ان کے حقوق ملیں گے ایک دن آئے گا جب ہمارے معاشرے میں تنگ نظری، انتہا پسندی، عدم رواداری اور غیر منصفانہ تقسیم کا خاتمہ ہو گا۔ لال بینڈ کی گانوں کی پہلی سی ڈی کا نام 'امیدِ سحر‘ تھا۔ اس کی مقبولیت اس بات کی دلیل ہے کہ موسیقی، شاعری اور گائیکی کا امتزاج معاشرے میں شعور اور آگاہی کے لیے اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ دو روز پہلے اسلام آباد میں اس کی پرفارمنس تھی‘ اس نے پیغام بھیجا تھا: ملاقات ضروری ہے۔ میں ایک طویل عرصے کے بعد اسے دیکھ رہا تھا۔ درمیان میں کتنے ہی مہ و سال گزر گئے تھے۔ اس کے بالوں میں سفیدی اتر آئی تھی‘ لیکن اس کا جذبہ ویسا ہی جوان تھا۔ کہتے ہیں: سچی محبت کو کبھی زوال نہیں آتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved