''تم تو کہتے تھے‘ نواز شریف ملک چھوڑ کر نہیں جائے گا، اب کیا ہوا؟‘‘ ایک ریسٹورنٹ میں یہ جملہ میری سماعت سے ٹکرایا، لہجے میں طنز اور تلخی بھری تھی۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو چند نوجوان ایک میز پر بیٹھے سیاسی بحث میں مصروف تھے۔ یہ بحث میرے لیے دلچسپی کا باعث تھی کہ عام آدمی کیا سوچ رہا ہے۔
طنز بھرے تلخ سوال پر بد مزہ ہوئے بغیر وہیں بیٹھے ایک نوجوان نے جواب دیا کہ تمہارا کپتان بھی تو کہتا تھا کہ این آر او نہیں دوں گا، این آر او دینا ملک سے غداری ہو گی۔ ان کا ایک اور ساتھی بحث میں کودا اور کہنے لگا‘ چھوڑو یار! کہاں کی باتیں لے کر بیٹھ گئے، نواز شریف سے مزاحمتی سیاست کی توقع رکھنے والے سارے بھولے بادشاہ ہیں جو پنجاب کی تاریخ سے واقف نہیں، پنجاب نے کبھی مزاحمت کی ہی نہیں۔
اس بحث سے میرا دھیان موجودہ سیاسی صورت حال سے بھٹک کر پنجاب کی تاریخ کی طرف چلا گیا۔ پنجاب کے مزاحمانہ کردار کی نفی کرنے والے اپنے موقف کے حق میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ پنجاب نے ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کا استقبال کیا، اور لڑے بغیر انہیں دلی تک راستہ دیا۔
بد قسمتی یہ ہے کہ پنجاب کی مزاحمت کی نفی کرنے والوں میں خود پنجابی شامل ہیں۔ تاریخ کو مذہبی بنیادوں پر مسخ کرنے کی روایت نے ایسا زور پکڑا ہے کہ دنیا کے ہر خطے کا ماضی دھندلا کر رہ گیا ہے۔ پنجاب کی ایک اور بد قسمتی یہ ہے کہ اس خطے کے غیر مسلم ہیروز کو، کوئی ہیرو یا مزاحمتی کردار ماننے کو تیار نہیں جبکہ پنجاب پر افغانستان کے راستے آنے والے مسلم حملہ آوروں کو اپنا ہیرو قرار دینے کے چکر میں پنجاب کی تاریخ مسخ کر دی گئی ہے۔
پنجاب میں آریاؤں سے لے کر انگریزوں کی آمد تک بیرونی حملوں اور ان کے خلاف کی گئی مقامی باشندوں کی مزاحمت کو بائیں بازو کے دانشور اور صحافی پروفیسر عزیز الدین احمد نے دو سو بتیس صفحات کی ایک کتاب میں سمو یا۔ دو ہزار چھ میں شائع ہوئی اس کتاب کا نام ہے، ''پنجاب اور بیرونی حملہ آور‘‘۔
پروفیسر عزیزالدین احمد کے مطابق یونینسٹ پارٹی کے دانشوروں کی جانب سے تاج برطانیہ کی حمایت کے جواز نے پنجاب مخالف قوتوں کو ایک ہتھیار مہیا کر دیا اور یہ کہا جانے لگا کہ پنجاب ہمیشہ سے حملہ آوروں کا ساتھ دے کر باقی ہندوستان کو غلام بنانے میں مددگار ثابت ہوا۔ عزیزالدین اس موقف کے مخالف ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ تاریخی اعتبار سے یہ بے بنیاد نقطہ نظر ہے جس کے ثبوت میں انہوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں پنجاب میں حملہ آوروں کی مزاحمت میں اٹھنے والی تحریکوں اور جنگوں کا جائزہ لیا ہے۔
عزیزالدین کے مطابق آریاؤں کے خلاف مزاحمت کرنے والے دراوڑ باشندے (جن کی جنگوں کا تذکرہ ویدوں میں ملتا ہے) اس دھرتی کے اولین ہیرو ہیں جن کے وارث آج کے مصلی یا سانولے رنگ کے غیر مسلم ہیں۔ اس کے بعد سکندر اعظم کے حملوں کے خلاف پنجابیوں نے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کیں۔ اس مزاحمت کے نتیجے میں سکندر اعظم شدید زخمی ہوا اور اس کی فوج نے دریائے بیاس سے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔ یونانیوں سے لے کر انگریزوں تک جتنے حملہ آور پنجاب میں آئے ان سب کا مقصد مفتوحہ علاقوں کے وسائل کی لوٹ مار سے تھا اور ان پر قبضہ کرنے کا طریقہ جنگ تھا۔ ان حملہ آوروں کے آنے کا مقصد خطے کے عوام کی فلاح و بہبود اور سماجی ترقی نہ تھی۔
پاکستان میں درسی کتب میں تاریخ کو مزید مسخ کیا گیا اور تاریخ کو مذہبی رنگ دیا گیا۔ عزیزالدین احمد نے لکھا کہ مسلمان حملہ آوروں کے پیش نظر کبھی بھی اسلام کی تبلیغ کا مقصد نہ تھا بلکہ وہ ملک گیری اور کشور کشائی کے لیے برصغیر میں داخل ہوئے۔ اس کے حق میں عزیزالدین احمد نے یہ دلیل دی ہے کہ پنجاب پر افغانستان کے راستے حملہ آوروں نے ہمیشہ پنجاب میں فصلوں کی کٹائی کے بعد حملہ کیا جب پنجاب کے گھروں میں غلے کی فراوانی ہوتی تھی۔
عزیزالدین احمد کا خیال ہے کہ پنجاب کی تاریخ اور درسی کتب لکھنے والوں کا تعلق حملہ آوروں کی نسلوں سے تھا یا پھر وہ اس نسل پرستانہ سوچ سے متاثر رہے جو بر صغیر میں حملہ آور مسلمانوں کے دربار میں موجود رہتی تھی۔ اپنے آپ کو سر بلند کرنے کے لیے مقامی آبادی کے لیے ضروری قرار دے دیا گیا کہ وہ باہر سے رشتہ جوڑے۔ اسی سوچ نے مقامی آبادی کے ایک حصے میں ایسا احساس کمتری پیدا کر دیا کہ اچھی بھلی مقامی برادریاں بھی اپنا ماخذ اور جڑیں بیرون ملک تلاش کرنے لگیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بر صغیر میں بیرون ملک سے آنے والے مسلمانوں کی تعداد مقامی مسلمانوں کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ مردم شماری کی کسی رپورٹ میں مقامی اور غیر مقامی مسلمانوں کا علیحدہ علیحدہ شمار نہیں ملتا؛ تاہم انیس سو پندرہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سیشن میں مظہرالحق نے صدارتی خطبے میں کہا تھا ''وہ مسلمان جو غیر ہندوستانی آبائواجداد سے اپنا حسب و نسب ملاتے ہیں صرف اسی لاکھ ہیں‘‘۔ انیس سو پندرہ میں ہندوستان کی کل مسلمان آبادی سات کروڑ تھی، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں کا تناسب کیا تھا۔
غیر مقامی برادریوں کے مسلمان ان لوگوں کی اولاد تھے جو حملہ آوروں کے ساتھ آئے تھے یا بعد میں بلائے گئے تھے تاکہ سول و فوجی افسر شاہی کے طور پر کام آ سکیں۔ اس لیے ہر حملہ آور ہیرو بنا دیا گیا خواہ وہ سکندر ہو یا چنگیز، تیمور ہو یا بابر اور یا پھر احمد شاہ ابدالی۔ سکندر کا نام تو اتنا متعارف ہوا کہ وہ بر صغیر کے مسلمانوں میں سب سے مقبول غیر مسلم حکمران کا درجہ اختیار کر گیا۔ کلاسیکی فارسی شاعروں نے خضر اور سکندر کے قصے وضع کئے اور ان قصوں سے تلمیحات کا وسیع سلسلہ جس طرح سے نکلا اس سے سکندر مسلمانوں میں معروف نام ہو گیا۔
مذہبی بنیادوں پر تاریخ کو بگاڑنے اور ہیروز گھڑنے کا سب سے بڑا ثبوت احمد شاہ ابدالی کا ہماری درسی کتب میں تذکرہ ہے۔ نادر شاہ کے قتل کے بعد احمد شاہ ابدالی نے ایران پر فوج کشی کی‘ جہاں سکھ تھے نہ مرہٹے بلکہ سو فیصد آبادی کا مذہب اسلام تھا۔ ایران پر حملے کی ترغیب احمد شاہ ابدالی کو کسی عالم دین نے نہیں دی تھی بلکہ نادر شاہ کی موت کے بعد ایرانی سلطنت کے حصے بخرے ہو رہے تھے اور احمد شاہ ابدالی لوٹ میں حصہ وصول کرنے پہنچا تھا۔ احمد شاہ ابدالی پہلے نادر شاہ کی فوج کا حصہ رہا تھا۔
''اردو دائرہ معارف اسلامی‘‘ کے مطابق ہندوستان پر احمد شاہ ابدالی کے حملے کی وجہ یہ تھی کہ وہ خود کو نادر شاہ کا وارث سمجھتا تھا اور اس کی مشرقی سلطنت کا دعویدار تھا۔ وہ تمام صوبے جو نادر شاہ نے مغلوں سے چھینے تھے احمد شاہ ابدالی کی ملکیت تھے۔ احمد شاہ ابدالی کی ہندوستان میں پہلی دو جنگیں مسلمان حکمرانوں اور تیسری مرہٹوں سے ہوئی، اس وقت دہلی کا مسلمان بادشاہ احمد شاہ ابدالی کے مقابلے کی پوزیشن میں ہوتا تو یہ تیسری جنگ بھی دو مسلمان بادشاہوں کے درمیان ہوتی۔
احمد شاہ ابدالی افغان قوم کا تو ہیرو ہے کیونکہ اس نے دنیا کے نقشے پر پہلی بار افغانستان کی بنیاد رکھی لیکن وسطی ایشیا کے حملہ آوروں کی طرح پنجاب کے عوام کے لیے وہ ایک لٹیرا ہی ثابت ہوا۔ احمد شاہ نے بائیس سالوں میں پنجاب کے راستے ہندوستان پر نو حملے کئے اور جو ہاتھ لگا کابل لے گیا۔ اسی لیے یہ کہاوت زبان زد عام ہو گئی کہ ''کھادا پیتا لاہے دا تھے باقی احمد شاہے دا‘‘۔ لوگوں کی صدیوں کی جمع پونجی ان حملوں میں کابل اور قندھار کے بازاروں میں فروخت ہوئی۔
پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال میں ایک بار پھر پنجاب کو کبھی مزاحمتی کردار نہ رہنے کے طعنے دیئے جا رہے ہیں۔ لڑائی مقتدرہ اور سیاسی قوتوں کے درمیان ہے لیکن یہ کوئی اصولوں کی جنگ نہیں، اقتدار کی کھینچا تانی ہے۔ ان حالات میں پنجاب کو طعنے دینے کی بجائے توجہ موجودہ سیاسی کشمکش پر ہی رکھی جائے تو اچھا ہے، صوبائی یا لسانی فرقہ واریت اس سیاسی جنگ میں مزید خوفناک ہو گی۔