عمران خان کو اقتدار پلیٹ میں رکھ کر ملا: بلاول بھٹو زرداری
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''عمران خان کو اقتدار پلیٹ میں رکھ کر ملا‘‘ جبکہ ہمیں یہ اقتدار ٹرے میں رکھ کر دیا گیا تھا اور وہ سارا اسی ہدایت کا نتیجہ تھا جو والد صاحب نے بڑی محنت سے تحریر کروائی تھی، چنانچہ پلیٹوں کا انتظار کیے بغیر ہم نے ٹرے میں ہی اقتدار سے استفادہ کرنا شروع کر دیا تھا اوراتفاق دیکھیے کہ اثاثوں، زمینوں اور بینک اکائونٹس کی صورت میں چار سو پھیلتے چلے گئے‘ حتیٰ کہ جعلی بینک اکائونٹس کی ابتدا ہوئی اور ابھی اس کی انتہا نہیں ہوئی تھی کہ احتساب ادارے نے کارروائی شروع کر دی اور والد صاحب کو خواہ مخواہ دھر لیا گیا اور اب شاید میری باری بھی آنے والی ہے یعنی نیکی برباد اور گناہ لازم جبکہ میری کارگزاری ان سے بھی زیادہ تھی اس لیے مجھ پر توجہ پہلے دی جانی چاہئے تھی جس سے ثابت ہوا کہ یہاں پر حفظ مراتب کا کچھ خیال نہیں رکھا جا رہا، یہاں تک کہ مراد علی شاہ کو بھی مجھ سے پہلے سوال جواب میں الجھایا جا رہا ہے، اور اب وہ ٹرے بالکل خالی ہے۔ آپ اگلے روز مظفر گڑھ میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
وزرا خالی ہاتھ نہیں، استعفیٰ ساتھ لے کر آئیں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''وزراخالی ہاتھ نہیں، استعفیٰ ساتھ لے کر آئیں‘‘ کیونکہ خالی ہاتھ میں بھی واپس نہیں جانا چاہتا ورنہ کروڑوں کے فنڈز دینے والے میرا جینا حرام کر دیں گے حالانکہ میں چاہتا ہوں کہ کچھ پیسے اگر بچ جائیں تو برسات کے دنوں میں کام آئیں گے اگرچہ برسات کا موسم اس وقت ہی سے شروع ہو چکا ہے جب الیکشن میں میرا بوریا بستر گول کر دیا گیا تھا اور وہ بوریا بستر بھی وہ ساتھ ہی لے گئے‘ کم از کم بوریا ہی رہنے دیتے لیکن بے رحمی کی کوئی انتہا نہیں ہے اور یہ جو میں نے کہا ہے کہ حکومتی وزرا گستاخیاں بھی کر رہے ہیں اور مذاکرات بھی ، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر وہ اپنا لب و لہجہ ٹھیک کر لیں تو مفاہمت ہو سکتی ہے۔ آپ اگلے روز دھرنے سے خطاب کر رہے تھے۔
ریکارڈ کی درستی
بھائی صاحب نے آج اپنے کالم میں مندرجہ ذیل اشعار درج کیے ہیں جن کی درستی مطلوب ہے ؎
پہلا شعر اس طرح سے ہے:
اس کھیل میں تعین ِ مراتب ہے ضروری
شاطرکی عنایت سے تُو فرزیں میں پیادہ
پہلے مصرعہ میں لفظ ''تعین‘‘ کی بجائے ''تعیین‘‘ ہے۔
اگلا شعر ہے؎
زمیں جب عدل سے بھر جائے گی نور علیٰ نور
بنامِ مسلک و مذہب تماشا ختم ہوگا
پہلے مصرعے میں ''نور علیٰ نور‘‘ کی بجائے ''نُوراً علیٰ نور‘‘ ہے۔
اگلا شعر ہے؎
کیا لونڈی باندی دائی دوا کیا بند چیلا نیک چلن
کیا مندر مسجد تال کنوئیں، کیا گھاٹ سرا کیا باغ چمن
کے پہلے مصرعہ میں ''کیا بند‘‘ کی بجائے ''کیا بندہ‘‘ ہے۔
ایک اور شعر؎
ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھر مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا
پہلے مصرعہ میں ''پھر‘‘ کی بجائے ''پھرے‘‘ ہے۔
ہمارے دوست میم سین بٹ نے اپنے کالم میں ایک شعر اس طرح درج کیا
جوانوں کو میری آہِ سحر دے
پھر شاہیں بچوں کو بال و پر دے
اس کے پہلے مصرعہ میں ''میری‘‘ کی بجائے ''مری‘‘ اور دوسرے میں ''پھر کے بعد ''اِن‘‘ ہے۔
دوسرا شعر اس طرح سے درج کیا ہے؎
ابھی رکھ رہا ہوں جعفر ؔمیں بھرم محبتوں کا
کہ نہ وہ ہوا ہے حکایت، نہ ہوا ہوں میں فسانہ
اس کے دوسرے مصرعہ میں لفظ ''ہے‘‘ زائد ہے۔
جناب لیاقت بلوچ نے اپنے کالم میں یہ شعر اس طرح درج کیا ہے؎
ڈھونڈے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
پہلے مصرعہ میں لفظ ''ڈھونڈے‘‘ کی بجائے ''ڈھونڈنے‘‘ ہے۔ظاہر ہے کہ یہ ٹائپ کی غلطی ہے۔
اور اب آخر میں اسدؔ اعوان کی شاعری:
لوگ جتنے تھے آئینوں کی طرح
مستقل شہرِ سنگ وخشت میں تھے
ہم تو تیری طرف رہے مائل
حورو غلمان بھی بہشت میں تھے
مٹ چکے ہیں تو کیا ہوا ہے اسدؔ
ہم کبھی اس کی سرنوشت میں تھے
اندھا ہے، چلو ٹھیک ہے قانون سارا
سستا نہیں اتنا بھی مگر خون ہمارا
اس شہر کو اب چھوڑ کے جائیں گے کہاں ہم
کنبہ ہے اسی خاک میں مدفون ہمارا
ایوانِ محبت کو بھی مسمار کریں گے
یہ ظلم و ستم بیلچہ بردار کریں گے
تیرے دربان سے ملتے ہیں یہی سوچ کے ہم
تیرے دربار میں منظوری بھی ہو سکتی ہے
فاقہ مستی کا بھرم ٹوٹ بھی سکتا ہے اسدؔ
شاعری چھوڑ کے مزدوری بھی ہو سکتی ہے
آج کا مطلع:
یہ نہیں کہتا کہ دوبارہ وہی آواز دے
کوئی آسانی تو پیدا کر، کوئی آواز دے