تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     14-05-2013

26/11کے ممبئی حملے اور تحقیقاتی کمیشن (دوسری قسط)

3۔26/11 کے بمبئی حملے سے8دن پہلے 18/11کو امریکی سی آئی اے نے بھارتی حکومت اور RAWکو خبردار کیا تھا کہ ایک نامعلوم کشتی میں سوار کچھ لوگ بھارتی سمندری حدود میں دیکھے جارہے ہیں ۔امریکی سی آئی اے کی طرف سے یہ اطلاع ملتے ہی بھارتی ’’را ‘‘نے فوری طور پراگلے ہی دن(19/11) بھارت کی انٹیلی جنس بیورو کو اس کی اطلاع کر دی اور آئی بی کے جوائنٹ ڈائریکٹر پربھاکر الوک نے بھارتی سمندری حدود میں موجود اس کشتی کی تمام تفصیلات 20نومبر کو پرنسپل ڈائریکٹر نیول انٹیلی جنس کے ذریعے بھارتی بحریہ اور کوسٹ گارڈ کو بھجوا دیں لیکن حیران کن طور پر ممبئی پولیس اور مہاراشٹر کی صوبائی حکومت کو اس سے مکمل طور پر بے خبر رکھا۔پرنسپل ڈائریکٹر نیول انٹیلی جنس نے بمبئی کی سمندری حدود کی نگران بھارتی بحریہ کی ویسٹرن کمانڈ کو بھی یہ اہم ترین اطلاع نہ دی اور اجمل قصاب کے مقدمہ میں ایک اور اہم ترین سوال یہ ہے کہ امریکی سی آئی اے کی اس اہم ترین اور انتہائی خطرناک رپورٹ کو بھارتی بحریہ کے علاوہ ممبئی پولیس اور مہاراشٹر حکومت سے کیوں چھپایا گیا؟۔کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں تھی کہ اس طرح مشکوک کشتی کی یہ خفیہ اطلاع ممبئی دہشت گردی فورس کے چیف ہیمنت کرکرے تک بھی پہنچ جانی تھی؟۔ 4۔ بھارت کی انٹیلی جنس بیورو کی طرف سے ممبئی کی طرف بڑھتی ہوئی نا معلوم افراد کی اس مشکوک کشتی کی اطلاع ملنے پر21نومبر کو بھارتی کوسٹ گارڈنے دور دور تک سمندری حدود کی چھان بین کی لیکن انہیں بھارتی سمندری حدود میں کہیں بھی امریکی سی آئی اے کی اطلاع پر مبنی مشکوک کشتی کی جھلک تک نظر نہ آئی ۔ بھارتی کوسٹ گارڈ نے جائنٹ ڈائریکٹر آئی بی پربھاکر الوک کو لکھا کہ ہمیں کوئی کشتی نظر نہیں آئی ،اس سلسلے میں ہمیں مزید معلومات مہیا کی جائیں تاکہ ہم اس تک پہنچ سکیں ،لیکن آئی بی نے کوسٹ گارڈ کے اس خط کو گول کر دیا۔ 5۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ21نومبر کو را نے کیبنٹ سیکرٹریٹ کی وساطت سے بھارتی آئی بی کو ایک انتہائی خفیہ نوٹ بھیجا جس میں35مشکوک موبائل سم کارڈز کی ایک فہرست منسلک کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان موبائل نمبرز کو مسلسل مانیٹر کیا جائے لیکن بھارت کی انٹیلجنس بیورو نے را اور کیبنٹ سیکرٹریٹ کی اس انتہائی خفیہ رپورٹ کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا،جبکہ آئی بی عام مخبروں کی اطلاع پر بھی ہزاروں موبائل اور فون مانیٹر کرنے میں بدنام ہے۔ 6۔ آئی بی جو ممبئی میں ہونے والے معمولی واقعات کی بھی رپورٹنگ کرتی ہے، اسے 26/11 تک یہ کیوں معلوم نہ ہو سکا کہ ممبئی پولیس کی طرف سے پچھلے چالیس دنوں سے ممبئی ساحل کے ساتھ ساتھ پٹرولنگ کرنے والی پولیس کو واپس بلا لیاگیا ہے؟ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ آئی بی کو علم تھا تو پھر ایک اور اہم ترین سوال ہے کہ امریکی سی آئی اے کی اس اطلاع کے بعد مزید نفری کے ساتھ چوبیس گھنٹے الرٹ ساحلی پٹرولنگ دوبارہ شروع کرنے کا حکم کیوں نہیں دیا گیا؟ ۔ کیا نئے چیف جسٹس ہندوستان سروش کپاڈیا معلوم کریں گے کہ مشکوک کشتی کی نگرانی کرنے کے لیے ممبئی کی ساحلی نگرانی کرنے والی موبائل پولیس فورس withdraw کرنے کا حکم کس نے، کب اور کیوں دیا؟ 7۔ممبئی کے شیوا جی ریلوے اسٹیشن میں کل38 کیمرے نصب ہیں، جن سے اسٹیشن کے ہر حصے کے تمام مناظر اور اس کے تمام داخلی دروازوں کی مکمل منظر کشی ہوتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہاں نصب کیمروں نے اجمل قصاب اور اسماعیل خان کی شیوا جی ٹرمینس میں موجودگی کی فلم کیوں نہیں بنائی؟۔ وہاں نصب 16CCٹی وی کیمروں کی فلمیںکہاں ہیں؟۔ پچیس نومبر تک درست کام کرنے والے ان سولہ کیمروں نے 26/11کے دن ہی کام کرنا کیوں چھوڑا؟۔ حملہ آور تو رات9 بجے کے بعد وہاں پہنچے سارا دن یہ کیمرے کیا کرتے رہے؟۔ کیونکہ یہی وہ سولہ کیمرے تھے جن کی حدود میں52 افراد کو قتل کیا گیا۔ ان سولہ کیمروں کی مدد سے حملہ آوروں کی شناخت اور فائرنگ کی نشاندہی ہونی تھی۔ 8:۔ شیوا جی اسٹیشن پر نصب16 کیمرے تو اچانک ’’خراب‘‘ ہو گئے لیکن ان دیکھے ہاتھوں نے سب سے حیران کن واردات جو کی وہ یہ ہے کہ مسافروں کی آمدو رفت کے لیے اسٹیشن کے دو داخلی دروازوںپر نصب کیے گئے دو نوںکیمروں کے زاویے کس نے او رکیوں تبدیل کیے؟۔کیا ان کیمروں کی سکیور ٹی کو مانیٹر کرنے والا عملہ سویا ہوا تھا ؟۔کیا اس دن ان کیمروں کو مانیٹر کرنے والوں کو چھٹی پر بھیج دیاگیا تھا ؟۔ ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ان کیمروں کو مانیٹر کرنے والے عملہ کو چند منٹ کے لیے سی سی ٹی وی کی یہ فلم نظر نہ آئے اور وہ اس کا نوٹس نہ لیں؟۔کیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے بھارت کا کوئی ایک فرد بھی یہ نہیں جانتا کہ شیوا جی اسٹیشن کے ان دو داخلی دروازوں پر، جہاں یہ کیمرے نصب کئے تھے، وہیں اسلحہ اور بارودی مواد کی نشاندہی کرنے والے METAL DETECTOR دروازے نصب ہیں۔ اسی دن ان دروازوں پر نصب کیمروں کے زاویے کس نے تبدیل کرائے؟ ،کیا چیف جسٹس ہندوستان سروش کپاڈیا اس کی وضاحت مانگیں گے؟۔ 9۔شیوا جی اسٹیشن، جہاں52 افراد کے قتل کااجمل قصاب پر الزام ہے، وہاں پر نصب38کیمروںمیں سے وہ 16 کیمرے جہاں دہشت گرد حملہ آوروں نے کارروائی کی، اس دن خراب ہو گئے لیکن باقی22 کیمرے جو اس حملے کی کارروائی سے بہت دور تھے بالکل ٹھیک حالت میں کام کرتے رہے۔کیا یہ جان بوجھ کر کیا گیا یا اتفاقاََ ہوا؟۔ بھارت کے نئے چیف جسٹس سروش کپاڈیا شاید نہیں جانتے کہ ایسا ہی ایک اتفاق اس سے پہلے بھی ہوچکا ہے ،جب احمد آباد اور سورت کے مسلم علا قوں میں بم دھماکے ہوئے تھے۔ اس دن بھی تلساری ٹال پلازہ کے ناکے سے احمد آباد شہر میں دہشت گردی کے لیے داخل ہونے و الی گا ڑی کی فوٹیج حاصل نہیںہو سکی تھی کیونکہ اس دن اور اس وقت وہاں نصبCCTV بھی اچانک خرا ب ہو گئے تھے؟۔ اور احمدآباد بم دھماکوں کے بارے میں سب سے اہم ترین سوال’’ HAYWOOD‘‘نامی امریکن کو ہندوستان سے جانے کی اجازت کیوں دی گئی جس کے کمپیوٹر سے E-MAILکے ذریعے احمد آباد بم دھماکے کی اطلاع دی گئی تھی جبکہ اس کے ملک نہ چھو ڑنے کے احکامات جاری ہو چکے تھے؟ 10۔ممبئی کرائمز برانچ کی طرف سے سپیشل عدالت میں پیش کی گئی چارج شیٹ کے مطا بق 58 گھنٹے جاری رہنے والی اس دہشت گردی میں حملہ آوروں نے موبائل سے کل 284 کالز وصول کیں جن میں سے41کالز تاج ہوٹل سے62 کالز اوبرائے اور ٹرائیڈنٹ ہوٹل سے اور181کالز نریمان ہائوس میں وصول ہوئیں۔بمبئی کرائمز برانچ کی عدالت میں پیش گئی چارج شیٹ کو سچ مانتے ہوئے اجمل قصاب کو جج تہلیانی نے سزائے موت دی ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ مارے جانے والے حملہ آوروں کو تو پاکستان سے مبینہ فون کالز موصول ہوتی ہیں لیکن انتہائی معمولی زخمی زندہ بچ جانے والے اجمل قصاب کو ایک بھی موبائل کال پاکستان سے موصول نہیںہوتی؟ 11۔ اجمل قصاب کی ڈی سوزا کی’’ اتاری‘‘ ہوئی وہ پہلی تصویر جو دنیا بھر کے اخبارات اور ٹی وی چیلز پر پھیل چکی ہے اس کے متعلق بعد میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ اخبار ممبئی مرر کے فوٹو گرافر ڈی سوزا نے شیوا جی ٹرمینس پر اتاری تھی اور اسماعیل خان کی تصویر کے بارے کہا گیا کہ یہ ممبئی کے شیوا جی ٹرمینس پر نصب کیمروں سے حاصل کی گئی ہے۔اگر یہ سچ ہے تو اول، ان سی سی ٹی وی کیمروں کی باقی تصاویر کہاں ہیں؟دوم۔ڈی سوزا کے ڈیجیٹل کیمرے سے اتاری گئی تصویر پر درج تاریخ اور وقت کہاں ہے؟ (جاری ) 12۔کرائمز برانچ نے عدالت میں مقدمہ کا چالان پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ حملہ آور کراچی کیٹی بندر سے کشتی میں بیٹھ کرممبئی پہنچے لیکن اجمل قصاب کی جو تصویر دنیا بھر کے میڈیا میں پہلے دن سے دکھائی جا رہی ہے اس میں اجمل کے بال کسی بہترین شیمپو سے دھوئے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور اس کی شیو بھی تازہ تازہ ہے اوراجمل قصاب نے جو لائٹ گرے ٹرائوزر پہنا ہوا ہے وہ بھی اچھی طرح استری کیا ہوا ہے۔شیوا جی اسٹیشن کے فوڈ سٹال مینجر ششی کمار سنگھ نے تفتیشی اداروں کو چشم دید بیان دیتے ہوئے کہا کہ حملہ آوروں نے اپنے چہرے نقاب سے چھپائے ہوئے تھے ۔ پھر یہ تصویر کہاں سے آ گئی؟۔ اجمل قصاب کی CSTپر بنائی گئی تصویر تو دنیا بھر میںدکھا دی گئی ہے لیکن تاج ہوٹل، اوبیرائے اور نریمان ہائوس میں تین دن تک پورے بھارت کو یرغمال بنانے والے ان8 حملہ آوروں کی تصاویر کہاں ہیں؟ ان کی شکلیں دنیا سے کیوں چھپائی جا رہی ہیں جبکہ ان جگہوں پرنصب سی سی ٹی وی کیمرے صحیح حالت میں کام کر رہے تھے۔ 13 ۔کرائمز برانچ ممبئی کی طرف سے2مارچ2009ء کوآفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات3,5,7کے تحت بھارت کے ٹی وی چینلNDTV,IBN-7,AAJ TAK TV,TV9 کے خلاف مقدمات درج کراتے ہوئے الزام لگایا گیا کہ ان چینلز نے کمشنر ممبئی پولیس کی طرف سے اس آپریشن میں شامل پولیس افسران سے وائر لیس پر ہونے والی گفتگو کے کچھ حصے سنائے تھے، جن سے 26/11 کو پولیس کی آپریشنل موومنٹ کے اصل پوائنٹ اور ہدف سامنے آنے سے پولیس کی اب تک کی شیواجی اسٹیشن،CAMA HOSPITAL, ,RANGABHAVAN LANEتمام کہانیاں جھوٹی ثابت ہو جاتی ہیں ۔ 14 ۔ سکوڈا کار نمبر MH-01-BA-5179 میں پولیس فائرنگ سے ہلاک ہونے والے کون تھے؟۔ان دو افراد کی ہلاکت کے بارے میں پولیس کنٹرول وائر لیس پر اسسٹنٹ کمشنر پولیس جرگم ڈویژن پولیس اور سائوتھ کنٹرول کی مراٹھی میں کی گئی بات چیت ملاحظہ فرمائیں ’’ دونوں آدمی ماردیئے گئے ہیں اور ان کی لاشیں نائر ہسپتال پہنچا دی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک نے پولیس پر فائر بھی کیا تھا۔جناب چیف جسٹس انڈیا اب آپ سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ ولی پارلی فلائی اوور اور شیواجی اسٹیشن کے درمیان کتنا فا صلہ ہے؟‘‘۔ 15 ۔بھارت کے نئے چیف جسٹس سروش کپاڈیا کی خدمت میں ممبئی پولیس کے کمشنر( کوڈ نام’کنگ‘) اور ممبئی کرائمز برانچ کے درمیان پولیس کنٹرول وائر لیس پر10.45 p.m to11.30pm ہونے و الی گفتگو کا وہ حصہ پیش خدمت ہے جس میں پولیس کمشنر ممبئی پولیس کے دہشت گردی سکواڈ کے چیف آنجہانی ہیمنت کرکرے( کوڈ نام’وکٹر‘) اور اشوک کامتے ایڈیشنل کمشنر پولیس ایسٹ ریجن کے بارے میں پوچھتے ہیں ’’ کنگ (کمشنر ممبئی پولیس)وکٹر ( ہیمنت کر کرے )کہاں ہے؟‘‘ جائنٹ کمشنر پولیس اطلاع دیتے ہیں کہ وکٹر چترپاٹھی اسٹیشن میں ہیں اور اشوک کامتےSBI آفس آ رہے ہیں ۔کمیشن بنانے والوں سے گذارش ہے کہ وہ 26/11 کو ممبئی پولیس کے افسران اور کنٹرول روم کے درمیان وائر لیس پر ہونے والی گفتگو کی آڈیو ٹیپس اور سی ڈیز کے علا وہ ممبئی پولیس کے افسران اور خصوصی طور پر انصاف کے نام پر جان قربان کرنے والے ہیمنت کرکرے کے موبائل فونز کا مکمل ریکارڈ اپنے قبضہ میں لے لیں اور انڈین سول سروس کے اعلیٰ افسر بھوشن گجرانی کے ڈرائیور ماروتی فید جس نے ہیمنت کرکرے، سالسکر اور اشوک کامتے کو ہلاک کرنے والے حملہ آوروں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے فوری طور پرتحویل میں لینے کے احکامات جاری کریںتاکہ 26/11 کے اصل کردار سامنے آ سکیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved