قوم ایک بار پھر انتخابات کی سُرنگ سے گزر گئی۔ صد شُکر کہ اِس جاں گُسل عمل میں بہت کچھ سہنے کے باوجود قوم کا وجود کِسی نہ کِسی طور سلامت رہا۔ جادو کا ڈبّا یعنی بیلٹ بکس کھلا تو اُس میں سے نتائج کا پینڈورا بکس کُھل کر سامنے آگیا۔ قوم پانچ برس کے دوران خدا جانے کیا کیا بھگتتی رہی۔ اُدھار کھائے بیٹھی تھی کہ ووٹ ڈالنے کا موقع ملے تو اپنے ’’پیاروں‘‘ کے حلق میں ہاتھ ڈالے! ووٹ کی پرچی نے کئی بُرج اُلٹ دیئے ہیں۔ بُہتوں کو قوم نے آئینہ دِکھا دیا ہے۔ مگر خیر، وہ پھر بھی خوش نصیب ہیں کہ آئینے میں اپنا جائزہ لیکر اصلاح پر مائل ہوسکتے ہیں۔ ذرا اُن کے بارے میں تو سوچیے جن کے چہرے بھی بگڑ گئے اور آئینہ بھی نہ رہا! شیر شِکار پر نکلا اور کامیاب لَوٹا۔ مخالفین کو مار بھگانے کے دعوے بہت حد تک درست ثابت ہوئے۔ لاہور کے محاذ پر مسلم لیگ (ن) نے خوب دادِ شجاعت دی اور سُرخ رُو ہوئی۔ ابھی کئی معرکے باقی ہیں مگر خیر، سب سے بڑا معرکہ تو وہ جیت ہی چکی ہے۔ بَلّے نے جتنے چَھکّے لگانے کا دعویٰ کیا تھا اُتنے تو نہ لگا سکا مگر خیر اُس کی کارکردگی بھی کچھ ایسی بُری نہیں رہی۔ عمران خان نے اسپتال کے بستر پر آرام کرنے کے ساتھ ساتھ اب سُکون کا سانس بھی لیا ہوگا۔ وہ حکومت بنانے کے قابل نہ ہو پائے تو کیا ہوا؟ اپوزیشن میں رہ کر خود کو منوانے کے قابل تو ہوئے ہیں۔ یہ نئی زندگی ہے۔ لفٹر دغا دے گیا تو کیا ہوا، الیکشن تو اُن کی پارٹی کے لیے ’’فیس لِفٹ‘‘ ثابت ہوا ہے! قوم یہ دیکھنے کے لیے بے تاب ہے کہ وقت آنے پر تحریکِ انصاف اپنا وعدہ کِس طور وفا کرتی ہے۔ یعنی قوم کے وسائل پر شب خُون مارے جانے کی صورت میں بَلّے سے ’’پھینٹی‘‘ لگائی جائے گی یا مصلحت کے چشمے سے ’’آب حیات‘‘ پینے پر اکتفا کیا جائے گا! تیر کے بارے میں خیال تھا کہ وہ کمان سے نکلا ہی نہیں، سو یہ خیال کچھ ایسا غلط بھی ثابت نہ ہوا۔ ہائی کمان کی مہربانی سے نیم مُردہ ہو جانے والے تیر کا شکریہ کہ اُس نے اندازے کی بنیاد پر بات کرنے والے بہت سے اینکرز، رپورٹرز اور تجزیہ نگاروں کی لاج رکھ لی! پانچ برسوں کے دوران عوام کے مسائل نظر انداز کرکے جو کچھ کیا گیا، جس طور صرف جیبیں بھری گئیں اور محض ذاتی بینک بیلنس بڑھانے پر توجہ دی گئی اُس نے دُشمنوں کا کام آسان کردیا۔ جو کچھ مخالفین تیس برس میں نہ کرسکے وہ خود پیپلز پارٹی کی قیادت نے محض پانچ برسوں میں کر دکھایا! پورس کے ہاتھی ثابت ہونے والی پی پی پی ’’ہائی کمان‘‘ کو اگر ایسا ہی ایک اور ’’پنجسالہ منصوبہ‘‘ مل جاتا تو حالت یہ ہونی تھی کہ ضیائُ الحق کی باقیات تو کہیں کِسی کونے میں مِل بھی جاتی ہیں، پیپلز پارٹی کی تو باقیات کا نشان بھی نہ مِلتا! ’’کارکردگی‘‘ کا اندازہ اِس بات سے لگائیے کہ بُھٹو فیکٹر بھی اب کے جادو جگانے میں ناکام رہا۔ مگر خیر، سب سے زیادہ شکریہ تو عوامی نیشنل پارٹی کا ادا کیا جانا چاہیے جس نے خود مِٹ کر کئی جماعتوں کو نئی زندگی دی ہے! اے این پی کی شکست اِس امر کی طرف واضح اشارا ہے کہ عوام شعور کے معاملے میں ایسے گئے گزرے نہیں۔ آخر آخر میں دہشت گردی کی چند وارداتوں کا نشانہ بننے کے بعد اے این پی نے شہید کا درجہ پانے کی کوشش کی مگر یہ ہُنر بھی کچھ کام نہ آیا۔ دہشت گردوں نے میاں افتخار حسین کو جوان بیٹے کی موت کا دُکھ دیا۔ بشیر احمد بلور بھی جان سے گئے۔ یہ دونوں واقعات انتہائی افسوسناک تھے مگر لوگ محض اِس بنیاد پر تو پارٹی کو ووٹ نہیں دے سکتے تھے۔ غلام احمد بلور کے دور میں پوری کی پوری ریل ہی ڈی ریل ہوگئی تو اب لوگ اُنہیں شکستِ فاش کے پلیٹ فارم پر دھکّا کیوں نہ دیتے! ایک اچھی خاصی پارٹی کا قومی اسمبلی میں محض ایک نشست بھی نہ جیت پانا کئی جماعتوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ اور سلام ہے اُن ووٹرز کو جنہوں نے شفاف، آزادانہ اور بے لاگ محاسبہ کیا۔ ہر طرح کی مصلحت کو نظر انداز کرکے آئینہ دِکھانا باضمیر ہونے کی زندہ علامت ہے۔ مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی میں کم و بیش 125 نشستوں کے ساتھ سر فہرست ہے اور حکومت بنانے کی پوزیشن میں آچکی ہے۔ 30 کامیاب آزاد امیدوار بھی فِطری طور پر اکثریتی جماعت سے آملیں گے۔ یعنی حکومت مسلم لیگ (ن) کی بنے گی۔ پنجاب میں تو خیر مسلم لیگ (ن) کو دو تہائی سے بھی زائد اکثریت مِل چکی ہے۔ قوم تبدیلی چاہتی تھی۔ تبدیلی رُونما ہوچکی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ وہی تبدیلی ہے جو قوم چاہتی تھی؟ ابھی کچھ بھی کہا نہیں جاسکتا۔ اِس بار جن جماعتوں کے حق میں ووٹ پڑا ہے اُنہیں اپنی صلاحیتوں سے کہیں بڑھ کر مُقدّر پر نازاں ہونا چاہیے۔ ووٹرز نے اُن سے محبت کا اِظہار کم اور ہارنے والوں سے نفرت کا اِظہار زیادہ کیا ہے! پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ق) اور اے این پی کے انجام سے یہ بات سامنے آگئی کہ اِس بار عوام نے احتسابی ووٹ دیا ہے۔ یہ ووٹ فتح پانے والی جماعتوں کے لیے خوش آئند سہی مگر خطرے کی گھنٹی بھی ہے۔ کامیابی میں یہ پیغام بھی پوشیدہ ہے کہ عوام کی توقعات پر پُورا نہ اُترنے کی سزا یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آئندہ انتخابات میں اُن کی بھی جَڑ کٹ جائے، نشان تک نہ رہے! 11 مئی 2013ء کو عوام نے کوئی انقلاب وغیرہ تو برپا نہیں کیا مگر ہاں، بہت سے اشارے ضرور دیے ہیں۔ واضح ترین اشارا یہ ہے کہ جو جیسا کرے گا ویسا پائے گا۔ جس کی کارکردگی اچھی نہیں ہوگی وہ گھر بیٹھے گا۔ اگر ریاستی ادارے محاسبہ نہ کر پائیں تو عوام کریں گے۔ ووٹ کی پرچی کِسی کے لیے جاں بخشی کا پروانہ بنے گی تو کِسی کے لیے ڈیتھ وارنٹ! عوام چل پڑے ہیں۔ اُنہوں نے انتخابات کو منزل نہیں سمجھا بلکہ راہ تبدیل کیا ہے۔ یہ بلوغت کی نشانی ہے، شعور کی علامت ہے۔ پانچ تا آٹھ سال اقتدار کے مزے لُوٹنے والی جماعتوں کا تیا پانچا اور حشر نشر چیخ چیخ کر ہمیں بتا رہا ہے کہ بڑی بڑی باتیں کرنے والوں کو سوچ سمجھ کر دعوے کرنے چاہئیں۔ جن جماعتوں کو یہ زُعم ہے کہ عوام نے اُنہیں بخش دیا وہ زیادہ خوش گُمان نہ ہوں۔ چھوٹے صوبوں میں کِسی نہ کِسی طور، جوڑ توڑ کے ذریعے حکومت بنانے کی کوششیں اِس بار بھی ہوں گی۔ اچھا ہے کہ وہ دوسروں کے انجام سے کچھ سیکھیں اور محض اقتدار کے حُصول کو منزل کو نہ سمجھیں بلکہ عوام کو بھی کچھ دیں۔ عوام کے دِلوں میں گھر کرنے اور محض بڑے صوبے کی پارٹی ہونے کا لیبل مٹانے کا ایک اور موقع مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ آیا ہے۔ آج سب ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ قوم کی نَیّا کیسے پار لگاتی ہے۔ گزرے ہوئے پانچ برسوں کا کچرا ہٹائے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہ ہوگا۔ مگر اِس حقیقت کو جواز بناکر اپنی کارکردگی کا کوئی سُقم چُھپایا نہ جاسکے گا۔ میاں نواز شریف کے لیے اچھا موقع ہے کہ حقیقی مُلک گیر لیڈر بن کر اُبھریں، چھوٹے صوبوں کی بات سُنیں اور شکایات دور کریں۔ انتخابات کے پوائنٹس ٹیبل پر تو اُنہیں فتح مل گئی ہے مگر حقیقی فتح یہ ہوگی کہ وہ عوام کے دُکھ درد دور کرنے میں جُت جائیں۔ اللہ سے دُعا ہے کہ میاں صاحب اور عوام کی یہ حقیقی فتح زیادہ دُور نہ ہو!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved