تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     13-11-2019

پاک افغان کشیدگی

ایک ایسے وقت میں جب افغانستان میں 18برس طویل جنگ کو ختم کر کے قیام امن کیلئے معطل شدہ مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کی سنجیدہ کوششیںکی جا رہی تھیں‘ پاک افغان تعلقات میں بگاڑ نہ صرف دونوں ملکوں کے مفادات اور افغانستان میں قیامِ امن کے امکانات کیلئے حوصلہ شکن ہے‘ بلکہ جنوبی ایشیا کے پورے خطے کے امن اور استحکام کیلئے نقصان دہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں قیام امن کیلئے تمام تر کوششوں کی کامیابی کا انحصار پاکستان اور افغانستان کے درمیان مفاہمت اور تعاون پر ہے۔ اس کا اعتراف نہ صرف بڑی طاقتیں یعنی امریکہ‘ روس اور چین کرتی ہیں‘ بلکہ خود پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کی طرف سے بھی متعدد بار کہا جا چکا ہے کہ افغانستان میں امن اور مصالحت کا پاک افغان تعلقات سے گہرا تعلق ہے۔ اسی کی بنا پر پاکستان نے افغانستان ‘جس کے ساتھ نہ صرف ہماری 2500کلو میٹر طویل سرحد لگتی ہے بلکہ ثقافتی اور نسلی تعلقات بھی ہیں‘ کے ساتھ آگے بڑھ کر اچھے اور دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کوششیں نہ صرف دوطرفہ بنیادوں پر کی گئی ہیں بلکہ ماسکو اور بیجنگ میں روس‘ چین اور امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان میں امن مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کیلئے صلاح و مشورہ میں بھی پاکستان نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ اس سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر افغانستان کے لئے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے بھی اسلام آباد کے دورے کے دوران پاکستان کے اعلیٰ سول اور فوجی حکام سے بات چیت کی تھی۔ اس بات چیت کے اختتام پر پاکستان نے جو اعلانات جاری کئے ان میں بھی پاکستان کی طرف سے افغانستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے کی شدید خواہش کا اظہار کیا گیا تھا‘ مگر بدقسمتی سے پاکستان کی ان خواہشات اور کوششوں کا دوسری طرف سے مثبت جواب نہیں آیا‘ بلکہ صدر اشرف غنی کی حکومت کی جانب سے پاکستان پر افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے بے بنیاد الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں۔ اس ماہ کے شروع میں کابل میں تعینات پاکستان کے سفارتی عملے کے ساتھ افغان حکام کی بدسلوکی اور ہراساں کرنے کے واقعات نے بھی دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کو بڑھاوا دیا ہے ۔ سکیورٹی کی خراب صورتحال کے پیش نظر کابل میں پاکستان کے سفارت خانے کو اپنے معمولات بند کرنے پڑے اور افغانستان کو پاکستان کی طرف سے آٹا برآمد کرنے پر بھی پابندی عائد کرنا پڑی۔ ان واقعات سے قبل اکتوبر کے آخری ہفتے میں چترال کے علاقے میں پاکستان اور افغانستان کی سرحدی افواج کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا اور سرحد سے پار افغانستان کی سکیورٹی فورسز نے چترال میں ایک گاؤں پر مارٹر اور بھاری مشین گنوں کے ساتھ فائرنگ کی تھی۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کیوں مستقل امن قائم نہیں ہوپاتا؟ حالانکہ دونوں ملک اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے درمیان تعلقات بہتر ہونے چاہئیں۔ دونوں ملکوں کے عوام خصوصاً تجارت اور کاروبار سے وابستہ تنظیمیں دونوں ملکوں کی حکومتوں پر زور دیتی ہیں کہ باہمی کشیدگی کم کی جائے اورتعلقات کو بہتر بنایا جائے تاکہ آئے دن طورخم اور چمن کے مقام پر سرحد بند نہ کی جائے‘ کیونکہ اس سے سرحد کے دونوں طرف تاجروں اور کاروباری لوگوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ اس حقیقت کے اعتراف میں دونوں ملک تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور بعض اوقات اہم معاہدے بھی کئے جاتے ہیں‘ لیکن اس کے باوجود تعلقات میں استحکام نہیں آتا اور بعض اوقات نوبت سرحد پار سے چھوٹے ہتھیاروں کی فائرنگ سے بڑھ کر بھاری ہتھیاروں اور راکٹوں کے ساتھ ایک دوسرے کی چوکیوں پر حملوں تک پہنچ جاتی ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کو افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد بند کرنا پڑتی ہے اور وہ کئی کئی دن بلکہ ہفتوں بند رہتی ہے۔ افغانستان چونکہ خشکی سے گھرا ہوا ملک ہے اور پاکستان کے ساتھ اپنی سب سے لمبی سرحد کی بنا پر بیرونی دنیا سے درآمدی اور برآمدی تجارت کے لئے پاکستان پر کلیدی انحصار رکھتا ہے‘ اس لیے سرحد کی بندش سے افغانستان کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی نہ صرف بیرونی دنیا کے ساتھ تجارت متاثر ہوتی ہے‘ بلکہ پاکستان سے خوراک اور روزمرہ استعمال کی ضروری اشیا کی ترسیل بھی بند ہو جاتی ہے۔ ان مسائل کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کے آر پار روزانہ آنے جانے والے ہزاروں مزدوروں‘ طالب علموں‘ علاج معالجے کے متلاشی لوگوں کو پیش آنے والے مسائل الگ ہیں۔ چونکہ مشکلات کا شکار ہونے والے لوگوں کا زیادہ تر تعلق عام لوگوں سے ہے‘ اس لیے ان اقدامات کے نتیجے میں عوام کی سطح پر غم و غصہ اور منفی ردِعمل کا پیدا ہونا ناگزیر ہو جاتا ہے‘ مگر پاک‘ افغان تعلقات کے محرکات ایسے ہیں کہ تمام تر دعوؤں کے برعکس بدگمانی‘ شکوک و شبہات اور کشیدگی کے بادل چھائے رہتے ہیں۔ ان محرکات میں تازہ ترین پاکستان کی طرف سے مشترکہ سرحد پر خاردار آہنی باڑ لگانے کا منصوبہ ہے۔ چترال میں اس ماہ کے آغاز میں پاک‘ افغان فوجی دستوں میں جو جھڑپ ہوئی تھی اُس کا سبب بھی یہی منصوبہ بتایا جاتا ہے۔ اس منصوبے کی وجہ سے گزشتہ ستمبر اور اپریل میں بھی پاکستان اور افغانستان کے سرحدی محافظ دستے ایک دوسرے کی چوکیوں پر فائرنگ کا تبادلہ کر چکے ہیں۔
پاکستان کی طرف سے سرحد پر آہنی باڑ دہشت گردوں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کی آمد و رفت کو روکنے کے لئے لگائی جا رہی ہے‘ مگر افغانستان کی طرف سے اس کی تعمیر روکنے کی کوشش کی جا تی ہے ۔ اسی جھگڑے میں فریقین کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ بھی ہو جاتا ہے‘ لیکن اصل مسائل اس سے زیاہ پرانے اور گہرے ہیں۔ ایک تو مشترکہ سرحد جسے ڈیورنڈ لائن بھی کہا جاتا ہے‘ پر دونوں ملکوں میں اختلاف ہے۔ تمام دنیا اور خود اقوام متحدہ بین الاقوامی قانون کی رو سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان بین الاقوامی سرحد کی حیثیت کو تسلیم کرتی ہے‘ مگر افغانستان کی ہر حکومت نے اسے متنازعہ بنانے کی کوشش کی ہے‘ یہاں تک کہ جب افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی‘ اُسے بھی ڈیورنڈ لائن کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان مستقل بین الاقوامی سرحد تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کیا جا سکا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاک افغان مشترکہ سرحد ان بین الاقوامی سرحدوں میں سے ایک ہے جن کے آر پار آمد و رفت کے راستے میں عملاً کوئی رکاوٹ نہیں۔ ایک آزاد‘ خود مختار ریاست کے تحفظ اور بقا کے لئے یہ صورتحال قابل قبول نہیں ہو سکتی‘ اسی لیے پاکستان کو اپنی سرحد محفوظ بنانے کا پورا پورا حق ہے کیونکہ محفوظ سرحدیں کسی بھی ریاست کی بقا کی ضمانت ہیں۔ بدقسمتی سے افغانستان‘ پاکستان کے اس حق کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔
پاکستان اور افغانستان میں کشیدگی کا ایک اور سبب افغانستان کی طرف سے اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت‘ خصوصاً طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے جنگجوؤں کو اپنی سرزمین سے افغانستان میں فوجی کارروائیاں کرنے کیلئے سہولتیں فراہم کرنے کا الزام ہے‘ حالانکہ بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والے آزاد اور غیر جانبدار ادارے اور ذرائع ابلاغ اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ طالبان اب پاکستان کے محتاج نہیں ہیں‘ بلکہ وہ افغانستان کے اندر سے ہی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حکومت پاکستان کے ترجمان بھی متعدد بار ان الزامات کی تردید کر چکے ہیں لیکن بدقسمتی سے افغانستان اور امریکہ کی طرف سے بدستور الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کی حکومت افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے جنگجوؤں کو افغانستان میں افغان اور امریکی افواج پر حملوں کیلئے اپنی سرزمین کو استعمال کرنے سے روکنے میں ناکام رہی ہے‘ حالانکہ دونوں طرف سے یہ بھی اعتراف کیا جاتا ہے کہ پاکستان نے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے اور مصالحتی عمل کو آگے بڑھانے میں مثبت اور تعمیری کردار ادا کیا ہے‘ مگرامریکی اور افغان فورسز چونکہ طالبان کو شکست دینے میں ناکام رہی ہیں‘ اس لیے وہ پاکستان پر اپنی ناکامی کا الزام لگاتے ہیں۔ گمان یہ ہے کہ جب تک افغانستان میں جنگ جاری ہے‘ پاک افغان تعلقات کشیدگی کا شکار ہوتے رہیں گے‘ لیکن اس سے دونوں ملکوں کو شدید نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ اس کشیدگی کی وجہ سے دوطرفہ تجارت ایک تہائی رہ گئی ہے اور اگر اس کا سدباب نہ کیا گیا تو نہ صرف حکومت بلکہ عوامی سطح پر بھی اس سے دونوں ملکوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved