تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     13-11-2019

ایک ایک لمحہ قیمتی ہے!

میاں محمد نوازشریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ECL) سے نکالنے (اور انہیں علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے) کا معاملہ منگل کی سہ پہر تک (جب یہ سطور قلم بند کی جا رہی تھیں) حکومت اور نیب کے درمیان ''شٹل کاک‘‘ بنا ہوا تھا۔
سروسز ہسپتال میں دوہفتے تک میاں صاحب کا علاج کرنے والی سینئر ڈاکٹروں کی سرکاری ٹیم مرض کے اسباب کا تعین نہیں کرسکی تھی۔ ان کے دل کا عارضہ پرانا ہے۔ دو بار ہارٹ سرجری کے عمل سے گزر چکے۔ سات سٹنٹ اس کے علاوہ ہیں۔ اس کے ساتھ بلڈ پریشر، شوگر اور گردوں کے امراض نے بھی آ لیا۔ فروری میں مختلف ڈاکٹروں پر مشتمل پانچ میڈیکل بورڈز نے اپنی رپورٹس میں ان مسائل کو سنگین قرار دیا تھا جس کے بعد عدالت نے طبی وجوہات کی بنا پر 6 ہفتے کی ضمانت پر رہائی کا حکم جاری کیا تھا۔ تشخیص کا عمل جاری تھا،ٹیسٹ ہورہے تھے کہ سات مئی کو 6 ہفتے مکمل ہونے پر وہ دوبارہ کوٹ لکھپت جیل پہنچ گئے۔
میڈیکل بورڈ کی ایڈوائس پر انہیں جیل میں ایئرکنڈیشنر کی سہولت میسر تھی (اور بی کلاس قیدی کے طور پر ٹی وی کی سہولت بھی) پھر جناب وزیر اعظم نے واشنگٹن کے جلسۂ عام میں فرمایا ''میں واپس جاکر ان کا اے سی اور ٹی وی تو نکلواتا ہوں‘‘، لیکن اس اعلان پر اس لیے عمل نہ ہو سکا کہ ایئرکنڈیشنر، مریض کے لیے عیاشی نہیں، بلکہ ڈاکٹروں کی تشخیص کے مطابق اس کی ضرورت تھی جس کے بغیر گردوں کا مرض شدت اختیار کر سکتا تھا (جو پہلے ہی خطرے کے نشان کے قریب تر تھا) اسی دوران چودھری شوگر ملز منی لانڈرنگ کیس بھی آ گیا، ملزمان میں نوازشریف، مریم اور یوسف عباس شامل تھے۔ مریم کو 8 اگست کو انکوائری کے لیے نیب ہیڈکوارٹر (لاہور) طلب کیا گیا تھا۔ یہ جمعرات کا روز تھا، میاں نوازشریف سے کوٹ لکھپت جیل میں ہفتہ وار ملاقات کا دن۔ پیشی کو کسی اور دن پر ملتوی کرنے کی، مریم کی درخواست مسترد ہوگئی۔ پیشی کے لیے 2 بجے (دوپہر) کا وقت تھا۔ ممکن تھا کہ مریم ملاقات سے فارغ ہو کر نیب ہیڈکوارٹر پہنچ جاتیں، لیکن 12 بجے ہی متعلقہ افسران واہلکاران، وارنٹ گرفتاری لئے کوٹ لکھپت جیل پہنچ گئے۔ مسلم لیگ (اور دیگر اپوزیشن جماعتوں) کا الزام تھا کہ مریم کے خلاف یہ کارروائی، دراصل ان کی رابطہ عوام مہم کا ''نتیجہ‘‘ تھی۔ گزشتہ شب سرگودھا میں بھی ان کا جلسہ عام زبردست تھا اور اگلے روز (جمعہ) کو وہ مظفرآباد میں مودی کے 5 اگست کے جارحانہ اقدام کے خلاف ایک احتجاجی جلسے سے خطاب کرنے والی تھی۔
11 اکتوبر کو نوازشریف کو بھی چودھری شوگر ملز کیس کی انکوائری کے لیے نیب کی تحویل میں دے دیا گیا۔ ملزم کے جسمانی ریمانڈ کی ضرورت تب پڑتی ہے اگر وہ انکوائری میں تعاون نہ کر رہا ہو، اس بات کا خطرہ ہو کہ وہ ضروری ثبوت وشواہد ضائع کردے گا، یا اس کے فرار ہوجانے کا خدشہ ہو، لیکن یہاں تو وہ پہلے ہی کوٹ لکھپت جیل میں تھے۔ 21 اور 22 اکتوبر کی درمیانی شب، میاں صاحب کو اس حالت میں سروسز ہسپتال لایا گیا کہ ان کے پلیٹ لیٹس کی تعداد خطرناک حد تک کم ہوچکی تھی۔ خود صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ کی میڈیا بریفنگ کے مطابق ہسپتال منتقلی کے وقت یہ 10ہزار تھے اور اگلی صبح ان کی تعداد کم ہو کر صرف 2 ہزار رہ گئی تھی (ایک صحت مند آدمی میں یہ تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہوتی ہے)
سروسز ہسپتال میں میاں صاحب کے علاج معالجے کے لیے سروسز انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے سربراہ ڈاکٹر ایاز محمود کی سربراہی میں سینئر ڈاکٹروں پر مشمل ٹیم تشکیل دے دی گئی۔ وزیر اعظم کے بقول ،ان کے حکم پر شوکت خانم ہسپتال کے سینئر ڈاکٹر بھی ٹیم میں شامل کئے گئے۔ میاں صاحب کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان بھی ٹیم کا حصہ تھے۔ کراچی کے ڈاکٹر طاہر شمسی پاکستان میں خون کے امراض کے ماہر ترین ڈاکٹروں میں شمار ہوتے ہیں، وہ بھی کراچی سے بطور خاص آتے رہے لیکن پلیٹ لیٹس کے مسئلے پر قابو نہ پایا جاسکا۔
ڈاکٹرو ںکی ٹیم اپنی بہترین صلاحیتوں اور پاکستان میں دستیاب جدید ترین آلات کے باوجود مرض کے اسباب کی تہہ تک نہ پہنچ سکی اور آخرکار اس نے بیرون ملک، طبی معائنے اور علاج کی تجویز دے دی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ سے 8 ہفتے کی ضمانت کے بعد میاں صاحب کو جاتی امرا منتقل کردیا گیا، جہاں ان کی رہائش گاہ کے ایک کمرے کو وینٹیلیٹر سمیت جدید ترین طبی آلات کے ساتھ ICU بنا دیا گیا تھا۔
تشویشناک صورتِ حال جاری تھی، مریض کی بیرون ملک منتقلی میں پہلا مسئلہ خود اس کا انکار تھا۔ آخر والدہ صاحبہ کا دبائو، چھوٹی بہن کی فرمائشیں اور شہباز صاحب کا اصرار کارگر ثابت ہوا۔ سب سے زیادہ ''خطرہ‘‘ مریم کی طرف سے تھا کہ بیرون ملک منتقلی سے انکار میں وہ بھی والد کی ہم نوا ہو گی لیکن وہ بھی میاں صاحب کے بیرون ملک جانے پر اصرار کررہی تھیں۔ اخبار نویسوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی والدہ کو کھو چکی، اب والد سے بھی محرومی کا حوصلہ نہیں۔ اس کے لیے والد کی صحت (اور زندگی) دنیا کی کسی بھی چیز سے عزیز تر ہے، سیاست کے لیے توساری عمر پڑی ہے۔ لندن سے حسین، حسن اور اسما بھی والدکی منت سماجت کررہے تھے۔ آخر وہ مان گئے لیکن اپنی طرف سے کوئی درخواست لکھنے، کوئی گزارش کرنے کو تیار نہ تھے۔ یہ کام ''ہمیشہ کی طرح‘‘ شہباز صاحب نے کیا اور وزارتِ داخلہ کو میاں صاحب کا نام ECL سے نکالنے کی درخواست دے دی۔
جمعہ کے روز سرکاری ترجمانوں کے اجلاس میں وزیر اعظم صاحب کا کہنا تھا کہ وہ اپنے سیاسی حریف کی علاج کے لیے بیرون ملک منتقلی کی مخالفت نہیں کریں گے۔ اپنے ترجمانوں سے ان کا کہنا تھا کہ عوام میں اس تاثر کی تردید کریں کہ یہ کوئی این آر او ہے یا کوئی ڈیل اور ڈھیل ہے۔ وہ صرف علاج کے لیے بیرون ملک جا رہے ہیں، اس دوران مقدمات قائم رہیں گے اور قانونی کارروائی جاری رہے گی۔ 
حکومت کا موقف تھا کہ چونکہ ECL پر نام نیب کی''سفارش‘‘ پر ڈالا گیا تھا، اس لیے اس کی رسمی منظوری ضروری ہے۔ جس کے لیے وزارتِ داخلہ کی طرف سے نیب کو لکھ دیا گیا اور نیب نے اس کے لیے میڈیکل ریکارڈ منگوا لیا۔ ادھر شریف فیملی نے سرکار کی طرف سے اس ''اطلاع ‘‘ پر کہ ECL کے حوالے سے کارروائی محض رسمی ہے، بیرون ملک منتقلی کی تیاریاں شروع کردیں۔ ایک ایک لمحہ قیمتی تھا، اتوار اور سوموار کی دستیاب فلائٹس پر سیٹیں بک کروا دی گئیں۔
لیکن اُدھر معاملہ لٹک گیا تھا (چودھری شجاعت حسین جسے سرکاری گورکھ دھندا قرار دیتے ہیں) سوموار کو یہ کہہ کر گیند حکومت کے کورٹ میں پھینک دی گئی کہ وہ ECL سے نام نکالنے کا اختیار رکھتی ہے۔ منگل کی صبح کابینہ کی ذیلی کمیٹی میں (وزیر قانون فروغ نسیم کی زیر صدارت) یہ معاملہ زیر غور آیا، ذرائع کے مطابق واضح موقف اختیار کرنے کے لیے کہا گیا۔
وزیر اعظم نے اپنے وزرا کو نوازشریف کے مسئلے پر سیاست نہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اس کے باوجود بعض وزرا کی طرف سے دل آزار بیان بازی کا سلسلہ جاری رہا۔ وفاقی وزیر محترمہ زبیدہ جلال کے بقول، وزیر اعظم نوازشریف کی بیرون ملک روانگی کی اجازت کا فیصلہ کرچکے۔ شیخ رشید اسے طبی نظریہ ضرورت کہتے ہیں، گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے سوموار کو فرمایا تھا کہ آج (سوموار )کو ECL سے نکالنے کا فیصلہ ہو جائے گا‘ لیکن سوموار بھی گزر گیا۔ وفاقی وزیر داخلہ کے بقول نوازشریف بیمار ہیں اور ان کی بیرون ملک روانگی پر کابینہ میں کوئی اختلاف نہیں۔ مریم کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ بیمار ہوجائے تواسے بھی بیرون ملک جانے کی اجازت مل سکتی ہے (مریم کا پاسپورٹ لاہور ہائی کورٹ کے پاس ہے) فیملی ذرائع کے مطابق مریم نے پاسپورٹ کی واپسی کے لیے (فی الحال) درخواست نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ مریم اورنگ زیب کے بقول، قطر سے ایئر ایمبولینس بدھ کی صبح لاہور پہنچ جائے گی کہ مریض کی حالت عام پرواز سے سفر کے قابل نہیں رہی۔
کیا جناب وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ (بڑے چودھری صاحب کے مشورے کے مطابق) نوازشریف کو باہر بھجوانے کے لیے دل بڑ ا کریں گے۔ نوازشریف کو کچھ ہوا تو سیاست مزید تلخ ہوجائے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved