اکادمی ادبیات کا یہ سہ ماہی جو اسلام آباد سے شائع ہوتا ہے اور جس کے مدیر اختر رضا سلیمی ہیں‘ کا تازہ شمارہ چھپ کر مارکیٹ میں آ گیا ہے۔ اس کے نگران سید جنید اخلاق ‘جبکہ مدیر منتظم ڈاکٹر راشد حمید ہیں۔ خوبصورت ٹائٹل ہمارے دوست راجہ نیئر کا تیارہ کردہ ہے۔ مجلسِ مشاورت میں توصیف تبسم‘ ڈاکٹر اقبال آفاقی‘ محمد حمید شاہد اور ڈاکٹر وحید احمد ہیں۔ حصۂ نعت میں افتخار عارف‘ ڈاکٹر خورشید رضوی اور صغیر انور ہیں۔ شعبۂ غزل میں اس خاکسار کے علاوہ ناصر ز یدی‘ جلیل عالی‘ صابر ظفر‘ عباس رضوی‘ سیّد نواب حیدر نقوی‘ نصرت صدیقی‘ طارق نعیم‘ اشرف جاوید‘ مبین مرزا‘ احمد حسین مجاہد‘ اختر عثمان‘ رستم نامی‘ طاہر شیرازی‘ شہاب صفدر‘ خورشید ربانی‘ احمد فرید‘ بینا گوئندی‘ کاشف حسین غائر‘ عمران عامی ‘ سجاد بلوچ اور دیگران ہیں۔
حصۂ نظم میں علی محمد فرشی‘ ڈاکٹر وحید احمد‘ ڈاکٹر اول سومرد‘ عنبرین صلاح الدین‘ عامر شہزاد‘ امجد بابر اور دیگران شامل ہیں۔ افسانہ نگاروں میں محمود احمد قاضی‘ محمد الیاس‘ آغا گُل‘ خالد فتح محمد‘ محمد حفیظ خاں‘ فریدہ حفیظ اور دیگران شامل ہیں‘جبکہ ناول کا باب نجم الدین احمد کے قلم سے ہے۔ بین الاقوامی زبانوں سے تراجم میں محمود احمد قاضی‘ حنیف باوا‘ محمد اسلم‘ صہبا جمال شاذی‘ حنا علی احمد‘ اقتدار جاوید‘ ناہید ورک‘ اجمیر افغانی اور حمزہ شیخ کی تحریریں شامل ہیں۔ پاکستانی زبانوں سے تراجم افضل مراد‘ عبدالمطلب‘ وحید عامر‘ رضوان فاخر‘ محمد رفیق مغیری‘ اسد اللہ اسد‘ نثار ترابی‘ حمید راضی‘ سلطان کھاروی‘ قمر زمان‘ محمد مشتاق آثم‘ زاہد نبی‘ اسد عباس خان‘ منور آکاش‘ شاہد حنائی‘ نگر چنا‘ ارشاد شیخ‘ جہانگیر عباسی‘ فہیم شناس کاظمی‘ مصطفی ارباب اور انجم جاوید نے کیے ہیں۔
اس دفعہ مضامین و مقالات شامل نہیں کیے گئے۔
اس بار''ادبیات‘‘ کے شمارے میں غزلیں خلافِ معمول جاندار ہیں۔ ان میں سے کچھ اشعار دیکھیے:
ہوا نے اس قدر گردا دیا ہے شہر سارا
کہاں میداں کہاں گلزار ہے کھلتا نہیں ہے
سرِ اخبار اک کُہرام کی قیدی ہیں آنکھیں
وہ منظر جو پس اخبار ہے کھلتا نہیں ہے
بہت پہلے مصیبت کی خبر دیتا ہے ہم کو
کوئی دشمن ہے یا غمخوار ہے کھلتا نہیں ہے (جلیل عالیؔ)
قریب سے اُسے دیکھا تو دُور تک دیکھا
قریب و دُور میں تفریق پھر کبھو نہیں کی (صابرؔ ظفر)
یہ جو اک مہتاب سا مجھ میں ڈوبا ہے
اس منظر میں آدھے تم ہو آدھا میں (عباس ؔرضوی)
ہر شخص اپنے اپنے مسائل میں گھر گیا
اب تیرے میرے تذکرے اتنے نہیں رہے (نصرتؔ صدیقی)
میری خوش بخت تیری خیر‘ مری گاڑی میں
ساتھ تُو ہو تو اشارے بھی کھُلے ملتے ہیں (منصورؔ آفاق)
مجھے بھی گھر کی طرف لوٹنا پڑا آخر
نسیمؔ صبح کا بھولا تھا‘ شام کیا کرتا (نسیمؔ عباسی)
دھوپ میں ہم تھے اور سائے کو
تیری دیوار تک پہنچنا تھا(طارقؔ نعیم)
شہر میں چرچے ہوئے اس کی مسیحائی کے
جو بھی سنتا ہے وہ بیمار ہوا جاتا ہے
مدتوں بعد کسی یاد کا جھونکا آیا
میرا کمرہ بھی ہوادار ہوا جاتا ہے (اشرف ؔجاوید)
میں ہی الجھن میں ہوں‘ ہاں اور نہیں کے مابین
اس کی جانب سے تو تاخیر مگر کوئی نہیں(مبینؔ مرزا)
دل کسی اور ہی امکان پہ آیا ہوا ہے
وقت کیسا مرے ایمان پہ آیا ہوا ہے (احمد حسین مجاہدؔ)
عجب بے پردگی سی ہو رہی تھی
سو گھر کے لیے پردہ خریدا (کاشف حسین غائرؔ)
ہاں کوئی ایک ہُوا کرتا ہے میرے جیسا
سارے انسان تو پتھر کے نہیں ہوتے ہیں (عمران عامیؔ)
خاک اڑانے کو رفتگاں کے لیے
دشتِ آئندگاں بنا ہوا ہے (سجادؔبلوچ)
آگ بجھ کر یہیں رہے گی مگر
پھیلتا جائے گا دھواں مرے ساتھ (مسعودؔ صدیقی)
تمہاری یاد بھی شوقِ طلب میں تم پہ گئی
نئی نے آ ہی لیا آج پھر پُرانی کو(فرح ؔرضوی)
تھی دائرے میں لکھی سب عبادتِ ہستی
جہاں پہ بات چلی تھی وہیں پہ ختم ہوئی(شمس الدین شمسؔ)
آنے والوں کے لیے اور تو کیا چھوڑتے ہیں
رفتگاں صرف نشانِ کفِ پا چھوڑتے ہیں( محمد اسدؔ خاں)
دونوں نے جینے مرنے کی قسمیں ساتھ اٹھائی تھیں
لڑکے کے اب دو بچّے ہیں‘ لڑکی چھت سے جھُول گئی (کومل ؔجوئیہ)
کبھی سوتے میں بھی چل پڑتا ہوں
خواب ہے نقلِ مکانی میری
میں نہ ہو کر بھی تری بزم میں ہوں
بے نشانی ہے نشانی میری
ذکر کرتا ہے مرا غیر سے اب
اُس نے کچھ قدر تو جانی میری(شاہینؔ)
آج کا مقطع
لپٹی ہوئی ہے اب بھی ظفرؔ دل سے اس کی یاد
ویسے تو اس کو ہم نے بھلایا بھی کم نہیں