مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے امیر پروفیسر ساجد میر ‘ ناظم اعلیٰ ڈاکٹر حافظ عبدالکریم ‘ نائب امیر قاری صہیب احمد میر محمدی اور مجھے 10 نومبر کو سعودی عرب کے سرکاری دورے پر ریاض جانے کا موقع ملاتوا س موقع پر ائیر پورٹ پر جہاں سعودی حکومت کے پروٹوکول افسران نے بڑے پرتپاک انداز میں استقبال کیا ‘ وہیں پر مکتبۂ دارالسلام کے مدیر مولانا عبدالمالک مجاہد‘ سید توصیف الرحمن شاہ راشدی اور دیگر احباب بھی ان کے ہمراہ تھے۔
اس دورے کے دوران جہاں پر بعض سعودی حکام سے ملاقاتیں طے تھیں‘ وہیں پر 11 نومبر کی رات کو مولانا عبدالمالک مجاہد نے اپنے رفقاء کے ہمراہ ریاض کے ایک بڑے آڈیٹوریم میں ایک پرُوقار سیرت النبیﷺ کانفرنس کا انعقاد کیا۔ کانفرنس سے مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے امیر پروفیسر ساجد میر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نبی کریمﷺ کی ذات اور تعلیمات نے معاشرے پر ان مٹ نقوش چھوڑے اور یہ آپﷺ کی تعلیمات کا اثر تھا کہ دردر کی خاک چھاننے والے اور بتوں کی پوجا کرنے والے لوگ اللہ وحد ہ لاشریک کے آستانے پر جھکنے والے بن گئے۔ انہوں نے اس موقع پر اس امر کا بھی اظہار کیا کہ نبی کریمﷺ کی سیرت وتعلیمات کا اثر تھا کہ عرب معاشرے کے عقائد اور فکر میں انقلاب پیدا ہو گیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ آپﷺ کی تعلیمات نے انسانوں کی عملی زندگی پر بھی غیر معمولی اثرات مرتب کیے؛ چنانچہ سیرت النبیﷺ کا مطالعہ کرنے کے بعد اس بات کو جاننا کچھ مشکل نہیں رہتا کہ برائی کے خوگر لوگوں نے نبی کریمﷺ کی سیرت مبارکہ سے متاثر ہونے کے بعد برائی کواس انداز میں خیر ِباد کہہ دیا کہ وہ غیر محرم عورت کے چہرے کو بھی دیکھنا گوارہ نہیں کرتے تھے۔ جوئے اور دیگر معاشرتی برائیوں کا ارتکاب کرنے والے لوگ ہمیشہ کے لیے ان برائیوں سے توبہ تائب ہو گئے۔ مولانا علی محمد ابو تراب نے ا س موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں زندگی کے ہر مرحلے میں سیرت النبی ﷺ کے ساتھ تمسک کو اختیار کرنا چاہیے۔ اور اس حوالے سے اس امر کوذہن نشین کرنا چاہیے کہ سیرت النبیﷺ کے ساتھ ہماری وابستگی کا ایک اہم تقاضا یہ ہے کہ ہم دعوت دین کا کام حکمت ‘ دانائی اور نرمی کے ساتھ کریں۔ ہمیں تکفیر اور تنفر کی بجائے پیار‘ محبت اور رکھ رکھاؤ سے لوگوں کو دین کی دعوت دینا ہو گی۔ اگر دین کی دعوت دینے والے نبی کریمﷺ کی تعلیمات کے ان خوبصورت پہلوؤں پر عمل پیرا ہو جائیں تو یقینا پورا معاشرہ سیدھے راستے پر گامزن ہو سکتا ہے۔ قاری صہیب احمد میر محمدی نے اس موقع پر اس بات کا ذکر کیا کہ وہ لوگ خوش نصیب تھے‘ جنہوں نے اس دنیا میں رہتے ہوئے اپنی آنکھوں سے نبی کریمﷺ کے چہرہ پر نور کی زیارت کی تھی۔ گو آج ہم اس سعادت کو حاصل نہیں کر سکتے ‘لیکن روزِ قیامت آپﷺ کی زیارت اور جام کوثر کی نعمت سے فیض یاب ہونے کے امکانات تاحال باقی ہیں۔ انہوں نے ان اعمال کا ذکر کیا کہ جن پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے کل قیامت کے دن ہمیں نبی کریمﷺ کی زیارت کا شرف حاصل ہو سکتا ہے۔
اس اجتماع میں مجھے بھی اپنی چند گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھنے کا موقع ملا‘ جن کے خلاصے کو کچھ ترمیم کے ساتھ قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہتاہوں:۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کائنات رنگ ونور میں جن شخصیات کو پیدا کیا‘ ان میں سے انبیاء علیہم السلام انتہائی بلند مقام کے حامل ہیں۔ انبیاء علیہم السلام کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے ساتھ ہم کلام ہونے کا شرف عظیم عطا فرما دیا اور ان پر لوگوں کی رہنمائی کے لیے وحی کا نزول فرما دیا۔ انبیاء علیہم السلام سیرت وکردار کے حوالے سے ممتاز ترین ہستیاں تھیں۔ ان کی سیرت وکردار میں ان کی اُمتوں کی رہنمائی کے لیے تمام لوازمات اور امکانات موجود تھے‘ لیکن سیدالبشر اور فخرا نسانیت حضرت محمد ﷺ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے عالم ارواح ہی میں آپﷺکو جمیع انبیاء علیہم السلام سے ممتاز کر دیا تھا اور معراج کی رات صحن ِبیت المقدس میں انبیاء علیہم السلام کو آپﷺ کی امامت میں جمع فرما کر اس بات کو واضح کیا کہ آپﷺ آنے والوں کے امام بن کر نہیں آئے‘ بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کو جانے والوں کا بھی امام بنا کر بھیج دیا ہے۔
نبی کریمﷺ کی ذات اقدس کی حقیقی معنوں میں تعریف اور توصیف کرنا کسی بھی انسان کے بس کی بات نہیں‘ اس لیے کہ جن کی تعریف خود اللہ تبارک وتعالیٰ کرتے ہوں ‘ مخلوق کیونکر ان کی تعریف کا حق ادا کر سکتی ہے۔ غالبؔ جیسے قادر الکلام شاعر نے کہا : ع
غالبؔ ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم
ہر عہد کے سیرت نگار اور خطباء نبی کریم ﷺ کو خراج عقیدت پیش کرتے رہے اور شعرا کرام‘ آپﷺ کی نعت کہتے رہتے اور یہ سلسلہ تاحال جاری وساری ہے‘ لیکن یہ بھی ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ جہاں پر آپﷺ کے امتیوں اور آپ ﷺ کے چاہنے والوں نے آپﷺ کی عقیدت ومحبت کا دم بھرا ‘وہیں پر بہت سے غیر مسلم بھی آپﷺ کی عظمت کے معترف رہے؛ چنانچہ مشہور مورخ مائیکل ہارٹ نے سو بڑے انسانوں پر لکھی جانے والی مشہور زمانہ کتاب The Hundred میں نبی کریمﷺ کا نام پہلے نمبر پر درج کیا اور اس میں اس بات کو واضح کیا کہ نبی کریمﷺ کی تعلیمات کا دائرہ فقط مسجد تک محدود نہیں‘ بلکہ آپﷺ کی تعلیمات نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ گردش دوراں نے بڑی بڑی شخصیات کے نام کو دھندلا دیا ہے‘ لیکن ہر گزرتے ہوئے دن اور بدلتے ہوئے موسم کے ساتھ ساتھ نبی کریمﷺ کی شان وعظمت کی آگہی میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس کے حوالے سے اہل ایمان پر چاراہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں:۔
1۔عظمت کا اعتراف: ہم سب کو نبی کریم ﷺ کی عظمت کا اعتراف ہونا چاہیے اور ہمارے ذہن میں یہ بات اچھی طرح راسخ ہونی چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جمیع کائنات میں آپﷺ کو سب سے اونچا اور بلند مقام عطا کیا ہے۔
2۔ والہانہ محبت : ہمیں نبی کریمﷺ کی ذات اقدس سے والہانہ محبت ہونی چاہیے اور دنیا میں کسی بھی چیز کی محبت ہمیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت سے بڑھ کر عزیز نہیں ہونی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لیے جو اللہ اور رسول اور اس کے راستے میں کی جانی والی جدوجہد سے زیادہ دوسری چیزوں کو اہمیت دیتے ہیں‘ کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے سورہ توبہ کی آیت نمبر24میں ارشاد فرمایا ہے: ''کہہ دیجئے اگر ہیں تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان اور وہ مال (کہ)تم نے کمایا ہے اُن کو اور(وہ) تجارت (کہ)تم ڈرتے ہو اُس کے مندا پڑ جانے سے اور (وہ)گھر (کہ)تم پسند کرتے ہو اُنہیں محبوب ہیں تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے تو تم انتظار کرو‘ یہاں تک کہ لے آئے اللہ اپنے حکم کو‘ اور اللہ ہدایت نہیں دیتا نافرمانی کرنے والوں کو ۔ ‘‘مذکورہ بالا آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہمیں اللہ اور رسول کی محبت کو ہر محبت پر فوقیت دینی چاہیے۔
3۔اتباع رسولﷺ: اللہ تبارک وتعالیٰ کے بعد نبی کریمﷺ کی ذات دنیا میں واحد ذات ہے کہ جن سے معمولی سے اختلاف کی بھی سرے سے کوئی گنجائش موجود نہیں۔ہمیں زندگی کے تمام مراحل میں آپﷺ کی ہر بات کو حرف آخر سمجھنا چاہیے۔ اگر ہم نبی کریمﷺ کے ساتھ عقیدت کا دعویٰ کرتے ہیں تواس کا تقاضایہ ہے کہ ہم آپﷺ کی غیر مشروط اتباع اور اطاعت کے لیے کوشاں رہیں اور کسی بھی معاملے میں آپ ﷺ کی بات کے مقابلے میں کسی دوسرے کی بات کو اہمیت نہ دیں۔
4۔نظام مصطفی ﷺکا قیام: نبی کریمﷺ ایک ہمہ گیر انقلاب کے ساتھ دنیا میںجلوہ گر ہوئے اورآپﷺ کی تعلیمات نے معاشرتی ‘ اقتصادی اور اخلاقی برائیوں کے خاتمے کے لیے کلیدی کردار ادا کیا ۔ آپ ﷺ کے نظام کا نفاذ ایک پرُامن اور بابرکت معاشرے کے قیام کی ضمانت دیتا ہے۔ اہل ایمان کو آپﷺ کے نظام کے قیام کے لیے اپنی جملہ صلاحیتوں کو استعمال کرنا چاہیے اور اپنے اپنے دائرہ کار میں نبی کریم ﷺ کے نظام کے نفاذ کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو نبی کریمﷺ کی ذات اقدس کے حوالے سے ان ذمہ داریوں کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔
اس موقع پر سامعین نے بڑی یکسوئی سے خطباء اور علماء کے خطابات کو سنا اور بعدازاں بڑے ہی پرُجوش انداز میں علماء سے ملاقات کیں‘ یوں سیرت النبیﷺ کانفرنس اپنے جلومیں بہت سی خوشگوار یادوں کو لیے ہوئے اختتام پذیرہوئی گئی۔