سابق وزیراعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر عدالت سے ضمانت اور بیرون ملک علاج کی اجازت کے بعد ایگزٹ کنٹرول لسٹ کا جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا ہے اور طول پکڑتا جا رہا ہے۔ حکومت ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نواز شریف کا نام نکالنے کے لیے ان سے سکیورٹی بانڈز طلب کر رہی ہے جبکہ سابق وزیر اعظم کا موقف ہے کہ انہوں نے ضمانتی مچلکے عدالت کے حکم پر جمع کرانے کے بعد ضمانت حاصل کی اب سکیورٹی بانڈز کا تقاضا کیوں؟
کابینہ نے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی مشروط منظوری دی۔ کابینہ کی ذیلی کمیٹی کا فیصلہ بھی سامنے آ گیا ہے۔ ذیلی کمیٹی نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو علاج کیلئے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دی ہے۔ یہ اجازت صرف چار ہفتوں کیلئے ہو گی۔ اس ذیلی کمیٹی کے سربراہ وزیر قانون فروغ نسیم ہیں‘ جو آئین شکنی کے مقدمے میں مفرور ملزم پرویز مشرف کے وکیل رہے۔ فروغ نسیم صاحب ملک کے بہترین قانونی دماغوں میں سے ایک تصور ہوتے ہیں۔ وہ بطور وکیل اپنے موکل پرویز مشرف کی طبی بنیادوں پر بیرون ملک روانگی کا مقدمہ سپریم کورٹ میں لڑ چکے ہیں۔ بہرحال یہ الگ سوال ہے کہ پرویز مشرف کی بیماری جان لیوا تھی یا نواز شریف کا مرض خطرناک ہے؟
نواز شریف کی بیماری اور ان کی زندگی کو لاحق خطرات پر اچانک بد حواس ہو کر انہیں باہر بھجوانے کی کوشش کرنے والی حکومت اب خود ان کی بیرون ملک روانگی کی راہ میں رکاوٹ بن گئی ہے۔ نواز شریف صاحب کی ضمانت کے بعد حکمران جماعت دراصل اپنے ہی ووٹروں کی تنقید اور ان میں پھیلی بد دلی کا سامنا کرنے کی ہمت جٹا نہیں پا رہی، اخلاقی اقدار کی بنیاد پر نواز شریف سے ہمدردی کرنے والے اچانک پرانی روش پر واپس آ گئے ہیں۔ نواز شریف کو اپنے ادوارِ حکومت میں کوئی ایسا ہسپتال نہ بنانے کے طعنے مل رہے ہیں جسے وہ اپنے علاج کے قابل سمجھ سکیں اور وہاں سے علاج کرا سکیں۔ نواز شریف کی بیماری کو فرار کا بہانہ کہا جا رہا ہے۔
عدالت سے ضمانت کو نواز شریف کی رہائی کی وجہ بتا کر جان چھڑانے کی کوشش کرنے والی حکمران جماعت کے کچھ ''دماغ‘‘ اب نواز شریف سے کسی ایسی دستاویز پر دستخط چاہتے ہیں جسے بعد میں ڈیل کہا جا سکے‘ اور سیاسی مفاد کے لئے استعمال کیا جا سکے۔ اسی لئے سکیورٹی یا شورٹی بانڈز کے لیے کہا جا رہا ہے کہ جتنی کرپشن کا الزام ان پر لگا ہے اتنی ہی رقم کا بانڈ بھر دیں۔ فرض کریں، نواز شریف بانڈ بھر دیتے ہیں تو ڈیل کس نے کی؟ حکومت نے یا پھر یہاں بھی کوئی ان دیکھی مخلوق اس کی ذمہ دار قرار پائے گی؟
ڈیل نہ دینے کے دعوے دار آخر کس بنیاد پر سکیورٹی بانڈز مانگ رہے ہیں؟ کوئی بھی اس کی وضاحت کرنے کو تیار نہیں، زور بیان صرف اس بات پر ہے کہ نواز شریف صاحب بھگوڑے ہو جائیں گے، اگر واپس نہ آئے تو الزام حکومت پر آئے گا۔ نواز شریف بیرون ملک جاتے ہیں یا نہیں، اس سے قطع نظر سیاست کی بے رحمی کھل کر سامنے آ چکی ہے‘ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آئین شکنی کے مقدمہ کے ملزم کے لیے تگ و دو کرنے والے آج اقامہ کی بنیاد پر نااہل ہونے والے ایک سابق وزیر اعظم کو روک رہے ہیں اور واپس وطن آنے کی ضمانت طلب کر رہے ہیں۔
مرحومہ بیگم کلثوم نواز کی صحت کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے ایک سینئر رہنما اور قانونی ماہر نے غیر ذمہ دارانہ بیان تھا جس پر بعد میں انہیں یقینا خفت بھی ہوئی ہو گی، لیکن وہی قانونی ماہر اب ایک بار پھر نواز شریف کی بیرون ملک روانگی پر حکمرانوں کو ڈرا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف بیرون ملک سے علاج کے بعد وطن واپس نہیں آتے تو کابینہ کے فیصلے کو دیکھا جائے گا، یہ دیکھا جائے گا کہ بیرون ملک جانے کی اجازت کس نے دی اور وہ ہی اس کا ذمہ دار ہو گا۔
نواز شریف کی زندگی کو خطرے اور بیرون ملک جانے کی اجازت کی صورت میں نفع و نقصان کا حساب جانچنے والے کہتے ہیں کہ نواز شریف کو کچھ ہو گیا تو پی ٹی آئی کی سیاست کو بڑا دھچکا لگے گا‘ اور پنجاب میں مسلم لیگ ن، تنہا سب سے بڑی قوت بن جائے گی، بیرون ملک جانے کی اجازت دی تو ڈیل کا الزام لگے گا اور اس کے بھی سیاسی مضمرات ہوں گے۔ نفع نقصان کا یہ حساب کتاب کسی بھی فیصلے کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
نواز شریف صاحب کی بیرون ملک روانگی کو ان کی اپنی جماعت کے لوگ بھی نفع و نقصان میں تول رہے ہیں، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ بیرون ملک جانے اور ڈیل کے تاثر سے ختم ہو جائے گا۔ کچھ کا خیال ہے کہ اس کے بعد پارٹی میں شہباز شریف کا مفاہمت کا بیانیہ چلے گا۔ نواز شریف کی بیرون ملک روانگی کے لیے آمادگی کے باوجود کہا جا رہا ہے کہ وہ بیرون ملک علاج کے لیے کسی بھی قسم کی درخواست یا دستاویز پر دستخط کرنے کو تیار نہیں، یہ موقف رکھنے والے پارٹی کارکن 'ووٹ کو عزت دو، کے بیانیے کے ساتھ کھڑے تھے اور اب پارٹی کی آئندہ سیاست کے لیے ان کی نظریں مریم نواز پر ہیں۔
نواز شریف صاحب کی بیماری کے بعد پارٹی پر گرفت کے خواہش مند ہوں یا ان کے علاج معالجے پر سیاست کرنے والے، سب نے ثابت کر دیا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ سیاست دان کو بستر مرگ پر بھی سود و زیاں کا حساب کرنا اور دینا پڑتا ہے۔ ہندوستان کے تینتیس مسلمان بادشاہوں کے حالات زندگی پڑھ لیں یا پھر خلافت راشدہ کے بعد خلافت کے نام پر بنو امیہ اور بنو عباس کی بادشاہتوں کا حال دیکھ لیں، اقتدار کی سیاست نہیں بدلی۔
سیاست دان اقتدار میں ہو یا اقتدار سے باہر، سود و زیاں کے حساب سے باہر نہیں نکل پاتا۔ اقتدار کے سوا اس کی کوئی منزل نہیں۔ نظیر اکبر آبادی کی نظم 'بنجارہ‘ کے چند مصرعے سود و زیاں کا حساب لگانے والوں کی نذر ہیں، شاید انہیں حساب سمجھ آ جائے۔
جب چلتے چلتے رستے میں یہ گون تری رہ جاوے گی
اک بدھیا تیری مٹی پر پھر گھاس نہ چرنے آوے گی
یہ کھیپ جو تو نے لادی ہے سب حصوں میں بٹ جاوے گی
دھی پوت جنوائی بیٹا کیا بنجارن پاس نہ آوے گی
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارہ
کچھ کام نہ آوے گا تیرے یہ لعل و زمرد سیم و زر
جب پونجی باٹ میں بکھرے گی ہر آن بنے گی جان اوپر
نوبت نقارے بان نشان دولت حشمت فوجیں لشکر
کیا مسند تکیہ ملک مکاں کیا چوکی کرسی تخت چھتر
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارہ
حکمران آج جو نظیر قائم کر رہے ہیں کل ان کے سامنے آئے گی، مسلم لیگ نون میں مستقبل کی سیاست کے سود و زیاں کا حساب کرنے والوں کو بھی بنجارہ بن کر سوچنا چاہئے جو آج حصے اور وارثت کے چکر میں ہیں کل ان کی وراثت بھی یہیں دھری رہ جائے گی۔
نواز شریف صاحب کی بیماری کے بعد پارٹی پر گرفت کے خواہش مند ہوں یا ان کے علاج معالجے پر سیاست کرنے والے، سب نے ثابت کر دیا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ سیاست دان کو بستر مرگ پر بھی سود و زیاں کا حساب کرنا اور دینا پڑتا ہے۔ ہندوستان کے تینتیس مسلمان بادشاہوں کے حالات زندگی پڑھ لیں یا پھر خلافت راشدہ کے بعد خلافت کے نام پر بنو امیہ اور بنو عباس کی بادشاہتوں کا حال دیکھ لیں، اقتدار کی سیاست نہیں بدلی۔