تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     14-11-2019

سرخیاں ‘متن اور مزیدشاعری

ناجائز حکومت کی رٹ ختم کر دی‘ بی پلان پر عمل ہوگا: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ناجائز حکومت کی رٹ ختم کر دی‘ بی پلان پر عمل ہوگا‘‘ اگرچہ اس کا انجام بھی پلان اے جیسا ہی ہوگا‘ لیکن مجھے بتایا جائے کہ میں کیا کروں اور ان ہزاروں طلبا کو کیا جواب دوں؟ جبکہ میں نے تو کہہ دیا تھا کہ اگر وزیراعظم کا استعفیٰ نہیں ملتا تو اس کے برابر کوئی اور معاملہ ہی کر لیا جائے‘ مثلاً: ان کا کوئی وزیر ہی استعفیٰ دے دے اور اس طرح مجھے پتلی گلی سے نکلنے کا موقعہ مل سکے‘ کیونکہ کئی وزیر ایسے ہیں‘ جو آئے دن میرے خلاف زبان درازی کرتے رہتے ہیں‘ جبکہ مجھے بتایا گیا ہے کہ ان کی زبانیں ویسے ہی بہت لمبی ہیں اور زبان درازی ان کی مجبوری بھی ہے‘ لیکن کوئی میری مجبوری بھی تو دیکھے کہ اگر میں پنگا لے ہی بیٹھا ہوں‘ تو کچھ وضعداری کا بھی ثبوت دیا جائے‘ جبکہ اصل بات یہ بھی ہے کہ حکومتی رٹ ابھی اسی طرح قائم ہے ۔آپ اگلے روز دھرنے کے شرکاء سے خطاب کر رہے تھے۔
نا اہل حکمرانوں کی موجودگی میں ملکی مستقبل محفوظ نہیں: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''نا اہل حکمرانوں کی موجودگی میں ملکی مستقبل محفوظ نہیں‘‘ بلکہ ان کی موجودگی میں ملک کا ماضی بھی غیر محفوظ ہے‘ تاہم اگر انہوں نے پانچ سال پورے کر لیے تو خدشہ ہے کہ یہ اپنے بہت سے وعدے بھی پورے کر لیں گے اور ہمارے سمیت جملہ اپوزیشن پارٹیوں کا مستقبل تاریک ہو جائے گا‘ جبکہ ہمارا تو پہلے ہی کوئی خاص روشن نہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اسے کسی کی کوئی نظربد لگی ہوئی ہے‘ جس کی وجہ سے آج تک اقتدار کا مُنہ تک نہیں دیکھا اور صرف دوسروں کے اقتدار کا مُنہ دیکھنے پر ہی گزر اوقات کر رہے ہیں اور یہ بھی بس برائے نام ہی ہے ‘کیونکہ اگر گزر اوقات ہو رہی ہوتی تو مجھے روزانہ اور بلاناغہ بیان کیوں دینا پڑتا؟ اور یہ بھی غنیمت ہے کہ اس کسمپرسی کے عالم میں ہر روز کم از کم اخبار میں نام تو چھپ جاتا ہے ‘ورنہ لوگ تو میرا نام ہی بھولتے جا رہے تھے ۔ آپ اگلے روز لاہور میں منعقدہ ایک ایجوکیشن ایکسپو سے خطاب کر رہے تھے۔
مہنگی سبزیوں پر ہمیں گہری تشویش ہے: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''مہنگی سبزیوں پر ہمیں گہری تشویش ہے‘‘ جبکہ طعنہ ہمیں یہ دیا جاتا ہے کہ ہم کوئی کام نہیں کرتے؛ حالانکہ تشویش میں مبتلا ہونا بجائے خود ایک کام ہے اور اگر تشویش گہری ہو تو کام بھی ان تھک ہی ہوتا ہے‘ اس لیے اس کام کے دوران آرام کرنے کا تو موقعہ ہی نہیں ملتا ؛اگرچہ یہ جعلی مہنگائی ہے‘ کیونکہ کراچی میں ٹماٹر 17 روپے کلو فروخت ہو رہا ہے اور ہمارے صدر صاحب نے خود وہاں سے اس بھائو خریدے ہیں‘ جبکہ فردوس عاشق صاحبہ ‘مٹر پانچ روپے کلو خرید کر لائی ہیں‘ جسے کھا کر آپ مٹر گشت بھی کر سکتے ہیں؛ البتہ ٹماٹر گشت نہیں کی جا سکتی اور جنہیں یہ دونوں سبزیاں اس بھائو نہ مل رہی ہوں‘ وہ صدر صاحب اور فردوس صاحبہ کو ساتھ لے جا کر بھی خرید سکتے ہیں جس پر ہینگ لگتی ہے ‘نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آتا ہے‘ جبکہ ٹماٹر اپنے رنگ کی وجہ سے بھی مہنگا ہے ‘کیونکہ اگر سبز رنگ کا ٹماٹر خریدیں تو وہ سستا ملے گا؛ اگرچہ وہ کچا ہوگا‘ لیکن جب ہانڈی میں ڈالا جائے گا تو وہ بھی پک جائے گا۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ضمانتی بانڈ کی شرط حکومت کی بدنیتی ہے: جاوید لطیف
نواز لیگ کے اہم رہنما جاوید لطیف نے کہا ہے کہ ''ضمانتی بانڈ کی شرط حکومت کی بدنیتی ہے‘‘ کیونکہ کوئی اپنے خون پسینے کی کمائی میں سے ایک پیسہ بھی اپنے آپ سے جدا نہیں کر سکتا‘ جبکہ اسی بچت کی وجہ سے وہ باہر جا رہے ہیں‘ کیونکہ کفایت شعاری ان کی گھُٹی میں پڑی ہے‘ جبکہ اب تو وہ کھانے پینے میں بھی کفایت شعاری کا مظاہرہ کر رہے تھے ‘اس لیے اگر انہوں نے ضمانتی بانڈ ہی دینا ہے تو پھر باہر جانے کا فائدہ ہی کیا ہے‘ اسی لیے انہوں نے اس سے انکار کر دیا ہے اور جہاں تک اُن کی بیماری کا تعلق ہے تو ہر مریض کو پتا ہوتا ہے کہ وہ کتنے بیمار ہیں؛ حتیٰ کہ ڈاکٹروں سے بھی زیادہ پتا ہوتا ہے‘ بلکہ زرداری صاحب کو تو اپنی بیماری کا سب سے زیادہ پتا ہے اور وہ بھی اسی لیے باہر نہیں جا رہے کہ ان سے بھی ضمانتی بانڈ کا مطالبہ کیا جائے گا۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں شریک تھے۔
اور‘ اب ''ادبیات‘‘ سے کچھ مزید شاعری:
حُسن کی لہر کراں تا بہ کراں ہوتی تھی
ایک جھلمل سی کہیں جی میں رواں ہوتی تھی
لب و رخسار کی تعظیم بجا لانے کو
روز مرّہ ہوا کرتا تھا‘ زباں ہوتی تھی (اختر عثمان)
اس سے پہلے کہ مقام آئے پلٹ جانے کا
کشتیاں اپنی ڈبونے کی اجازت دی جائے (خالد معین)
سپردِ نامہ بر احوال کیا کرتے
نہ تھا کچھ پاس تو ارسال کیا کرتے( رُستم نامی)
مجھے تو اتنی بھی مہلت ملی نہ وحشت سے
کہیں پہ رکتا‘ گریباں کے تار دیکھتا میں(آفتاب احمد)
دیر میں حسرت و ہجراں ہیں خدایا کب سے
تو بتا کیونکہ یہاں سب سے پُرانا تو ہے ( سلیم ساگر)
ہر ایک چیز کسی داخلی حصار میں ہے
دکھائی دیتی ہے ویسے تو کائنات کھلی (شہاب صفدر)
اب کے وحشت میں کوئی راہ نکالوں گا میں خود
دشت وہ دے‘ وہاں دیوار بنا لوں گا میں خود (احمد فرید)
ترے حصول کی گردش میں کھو گئی ہوں میں 
فضائے دہر میں ٹوٹا ہوا ستارہ ہوں (بینا گوئندی)
سبھی پہلے پہل ملتے ہیں بے حد گرمجوشی سے
ہمارے سامنے اپنا رویہ آخری لائو(نینا عادل)
آج کا مقطع
ہم نے چھیڑا نہیں اشیائے محبت کو ظفرؔ
جو جہاں پر تھی پڑی اس کو وہیں رہنے دیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved