استنبول ائیرپورٹ پر امیگریشن کا مرحلہ خوار کر دینے والا تھا لیکن جیسے تیسے طے ہوگیا۔ جسم بخار میں پھنک رہا تھا لیکن باہر شعیب دمرجی کو اپنا انتظار کرتا دیکھ کر شکر ادا کیا۔ شعیب دمرجی میرا ہم عمر خوبصورت ترک ہے اور میرے عم مکرم مولانا محمد تقی عثمانی اور برادر معظم مفتی محمود اشرف عثمانی کا شاگرد۔ بہت مدت کراچی میں رہا ہے اور صاف اردو بولتا ہے۔ کراچی ہی سے چچا تقی صاحب نے اسے فون کرکے میری آمد سے مطلع کر دیا تھا اور اب وہ بہت دیر سے میرا منتظر تھا۔ مجھے اس کی بڑی قدر ہوئی کہ علی الصبح وہ تکلیف اٹھا کر ائیرپورٹ آیا۔
شعیب کی گاڑی میں بیٹھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ میں کتنا تھکا ہوا ہوں۔ میں نے صرف اتنا کہا کہ مجھے کسی ہوٹل پہنچا دیں۔ یاد نہیں شعیب نے کیا جواب دیا کیونکہ شاید میں سو چکا تھا۔ آنکھ اس وقت کھلی جب تقسیم کے ایک ہوٹل پر گاڑی رک چکی تھی۔ کمرے میں پہنچا تو سیدھا بستر پر گیا۔ فوراً ہی نیند نے بانہوں میں بھر لیا۔ آنکھ کھلی تو سہ پہر کے پانچ بج رہے تھے۔ بخار تقریباً غائب ہو چکا تھا۔ آرام نے ساری کلفت دور کردی تھی۔ احسان اکبر نے کہا تھا ناں:
اک پوری نیند کی شانتی ترے کجرے والی لہر
تواک پوری نیند کی شانتی میسر آگئی تھی۔ میںنے طے کیا کہ آج کسی اور علاقے یا ہوٹل میں منتقل ہونے کے بجائے یہیں رہنا بہتر ہوگا کیونکہ اس طرح تقسیم کا علاقہ دیکھ لوں گا۔ کل کسی اور جگہ چلے جائیں گے۔ گویا آج تقسیم کا علاقہ اور اس کی چہل پہل دیکھی جاسکتی تھی۔ دنیا بھر کے وہ سیاح جو تاریخی آثار کے قریب رہنا زیادہ پسند نہیں کرتے اوراعلیٰ ہوٹلوں، شبینہ زندگی اور ملنے ملانے کے رسیا ہوتے ہیں، تقسیم کے علاقے میں ٹھہرنا پسند کرتے ہیں، یہ سارا علاقہ ریسٹورنٹس، ہوٹلز، کافی شاپس، شاپنگ اور رات کی رنگینیوں کاعلاقہ ہے۔ یہاں دن بہت دیر سے طلوع ہوتا ہے اور رات غروب ہوتی ہی نہیں۔ تقسیم چوک وہ مرکزی جگہ ہے جہاں آزادی کی جدوجہد کے یادگاری مجسمے لگائے گئے ہیں۔ اس بہت بڑے چوک سے کافی سڑکیں نکلتی ہیں جن میں استقلال کیدیسی بھی شامل ہے جو صرف پیدل چلنے والوں کے لیے مخصوص ہے۔ چوک کی دائیں بائیں گلیوں اور چھوٹی سڑکوں میں سے ایک میں میرا ہوٹل بھی تھا۔ میں نے ہوٹل والی گلی کی نشانی مقرر کی اور چوک میں آگیا۔ فضا میں ٹھنڈ بڑھ گئی تھی۔ ذرا سا آگے بڑھا ہی تھا کہ میں نے خود کو انسانوں کے ایک سیلِ رواں میںبہتے پایا۔ اکثر غیرملکی سیاح تھے تاہم ترک بھی موجود تھے۔ خوش لوگ، مطمئن لوگ، ہنستے بستے، قہقہے لگاتے مسکراتے لوگ، ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے جوڑے، سڑکوں اور گلیوں کے دائیں بائیں کافی شاپس اور قہوہ خانوں میں گپ لگاتے، داستانیں سناتے لوگ۔ یہ سب مر د، عورتیں ایک سرشاری، خوشی اور آسودگی کی ساعت میں زندہ تھے۔ انہیں کوئی ایک نظر دیکھ کر کہہ نہیں سکتا تھا کہ کوئی دکھ اور رنج انہیںکبھی چھوکر بھی گزرا ہوگا۔پر دل کی دنیا کو کون جانتا ہے۔اندر کس پر کیا گزر رہی ہے۔ کون کون اس ہجوم میں کتنا تنہا ہے‘ کسے خبر۔ کون اپنی مرضی سے اور کون مجبوری کے تحت کسی کے ساتھ موجود ہے‘ کون جانے۔
سینڈوچ، شاورما، ڈونر کباب، لہم چون، برگر اور پیزا کی دکانیں جگہ جگہ تھیں۔ اس طرح کہ ان کی خوشبوؤں سے بچ کر گزرنا ممکن نہیں تھا۔ یہان دکان داروںنے گزارے لائق انگریزی سیکھ لی ہے۔ میں نے ایک جگہ سے ڈونر کباب اور آئران (ترکی لسی) خریدے، ایک گوشے میں ایک بنچ منتخب کیا۔ یہاں بیٹھ کر چلتے پھرتے،کھاتے پیتے، ہنستے بولتے لوگوں کو دیکھا جا سکتا تھا۔ بغیر کسی کی مداخلت کے، بغیر کسی کو زحمت دیے اور بغیر کسی کا بوجھ اٹھائے۔ اکیلا پن بھی سفر میں کتنی بڑی نعمت ہے۔
نہیں، نہیں۔ غلط مت سمجھیے گا۔ خوش مزاج، ہم ذوق اور بے تکلف شریک سفر واحد ہو، یا جمع۔ مذکر ہو یا مؤنث۔ سفر میں بہت بڑی نعمت ہے۔ ایسے بہت سے یادگار سیر سپاٹے اور سفر کیے ہیں اور دوبارہ کرنے کی ہوس ہے۔ ہم سفر۔ آپ کی مسکراہٹوں میںشریک ہونے والے، قہقہے بانٹنے والے اور جملوں سے لطف اندوز ہونے والے۔ آپ کی غلطیوں کو درست کرنے والے اور تنہائی اور اداسی میں ساتھ دینے والے۔ ہمسفروں سے بہتر زادِ سفر کیا ہوتا ہے بھلا؟
لیکن حضور! اکیلے پن کا بھی ذائقہ چکھاہے کبھی؟ اگر تنہا رہنے کی عاد ت پہلے سے ہے اور اپنی صحبت میں ناخوش نہیں رہتے تو سفر میں بھی ذرا اکیلے پن کی ہم سفری اختیارکرکے دیکھیں۔ جہاں چاہے بیٹھ جانا، جب چاہے اٹھ کر چل پڑنا۔ جب بھوک لگے کھا لینا، جو چیزدل چاہے خرید لینا۔ جو اُوٹ پٹانگ فیصلہ کرنے کو دل چاہے، اسے من و عن مان لینا۔ جب جی چاہے سو جانا اورمن مرضی کے وقت اٹھ جانا۔ اکیلے سونا اورپوری آزادی کے ساتھ سونا۔ کیا عیاشی ہے اکیلا پن بھی۔ ایک پوری سلطنت آپ کے ساتھ چلتی ہے۔ خیمہ، خرگاہ، مطعم سب آپ کے ایک ہاتھ کے اشارے پر۔ اس سے زیادہ عیاشی کوئی بھلا کیا کر سکتا ہے۔ اور پھر یہ کہ آپ کی حرکتوں کا کوئی عینی شاہد اور رازدار بھی نہیں جو کسی نازک موقع پر کسی آئے گئے کے سامنے کچھ بک دے۔ سوائے آپ کے اپنے اعضا کے اور یہ اعضا قیامت میںجو چاہے حشر کریں لیکن کم از کم دنیا میں تو کچھ نہیں بولیں گے۔ اکیلے پن میں زیادہ سے زیادہ کسی خوب صورت چہرے کو دیکھ کراپنی تنہائی پر آہیں بھرنا پڑیں گی۔ تو یہ ایسی کوئی بات نہیں۔ اس خوبصورت چہرے کے ساتھ رہ کر اس کے نازاور خرچ اٹھاتے ہوئے بھی آہیں ہی بھرنی پڑیں گی یا پھر کوئی ایسی معجزاتی صورت ہوجو حسین بھی ہو اور آپ کے لاڈ بھی اٹھاتی رہے۔ تو صاحبو! کچھ تو خدا کا خوف کریں۔ ایسی کوئی حور شمائل اگر اس دنیائے فانی میں ہے بھی تو کسی بہتر شخص کے بجائے وہ آپ کی طرف متوجہ کیوں ہوگی۔ لہٰذا اپنے جامے اور اپنے اکیلے پن میںرہیں۔ یہی آپ کے لیے آبرومندانہ سفر ہے۔
خیر آپ اکیلے گھومیں یا کسی کے ساتھ سفر کریں۔ یہ اپنا اپنا ذوق اور مقدر ہے لیکن کسی خشک مزاج، کج مزاج اور تند مزاج کے ساتھ سفر کرنے سے پہلے ہزاربار سوچ لیں اور خود پر رحم کریں۔ جو چند سال اللہ نے زندگی کے دئیے ہیں اسے کڑھنے جلنے اور لڑنے میں کیوں گزارنا چاہتے ہیں۔ نیز یہ کہ اگر آپ کو اپنی زندگی پر رحم نہیں آتا تو خود سوچیں وہ منحوس ہم سفر کیوں رحم کرے گا۔
اچانک ایک بہت خوبصورت چہرہ سامنے آگیا۔ بس اسی مصرعے والا حال ''وہ مخاطب بھی ہیں، قریب بھی ہیں‘‘ ایک لمحے کو یہ لگا کہ معجزاتی صورت والی دعا خدا نے سن لی لیکن ذرا سا غور کیا تو خوش فہمی ہوا ہوگئی۔ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں وہ ترک لڑکی کسی شو کے ٹکٹ بیچ رہی تھی۔ سیاحوں کے علاقے میں ایک بڑا کام ٹکٹ بیچنا بھی ہوتا ہے اور یہ کام بہت سے نوجوان لڑکے لڑکیاں کمیشن پر کرتے رہتے ہیں۔ فیری کا ٹکٹ، میوزیم کے ٹکٹ، ٹورآپریٹرز کے پیکیج، میوزک شوز قسم قسم اور رنگ رنگ کے ترغیبی اشتہارات۔ اس بات کا ادراک ہوتے ہی کہ یہ لڑکی میری دعاؤں کی قبولیت نہیں بلکہ مالی خسارے میں اضافے کا ممکنہ بندوبست ہے، دل نے اس سے روگردانی ہی بہتر سمجھی۔ غالب نے کیا ایسے ہی موقع کے لیے نصیحت نہیں کی تھی؟۔ ''لڑکی کے مت فریب میں آجائیو اسد‘‘۔
اگر آپ استنبول میں ہیں اور تازہ انار کا جوس نہیں پیا توآپ بڑے لطف سے محروم ہیں۔ استقلال کیدیسی پر ایک جوس والے نے یہ لطف مجھے فراہم کیا۔ میں گلیوں میں چلتا پھرتا رہا۔ ایک نئے شہر، نئی جگہ اور نئے لوگوں کو پہلی بار دیکھتارہا۔ ایک اجنبی آنکھ سے کسی جگہ کوپہلی بار دیکھنا کیسا عجیب نظارہ ہوتاہے۔ بات نہ کسی باغ کی ہے نہ ساحل کی نہ صحرا کی۔ بات نئے پن کی ہے اور اس نئی دنیا میں یہ منظر، یہ موسم اور یہ وقت کہیںکسی اور زمانے میں گویا ٹھہر گئے تھے۔ اس طرح کہ میں بعدمیں بھی انہیں دیکھ سکتا تھا۔
طلائی خاک، روپہلا فلک، سنہرے شجر
عجیب رنگ ترے زرنگار خواب کا ہے
ٹانگیں تھکنے بلکہ ٹوٹنے لگیں۔ رات کے تین بج رہے تھے لیکن نہ ہوٹل واپس لوٹنے کوجی چاہتا تھا نہ کہیں بیٹھنے کو؛ تاہم پلٹنا تو تھا،اس تمام منظر کو آنکھوں اور ذہن میں بسا کر۔ اور پوری رونق لہو میں جذب کرکے۔ جون ایلیا یاد آئے لیکن دیر سے۔ اس وقت جب یہ رات آنکھوں میں اتر چکی تھی اور ہر رنگ دل پر نقش ہوچکا تھا۔
شہر بہ شہر کر سفر، زادِ سفر لیے بغیر
کوئی اثر کیے بغیر، کوئی اثر لیے بغیر