اسلام آباد میں ’’فیفن‘‘ نامی ایک ادارے نے‘ مختلف پولنگ اسٹیشنز میں ووٹنگ کا جائزہ لینے کے بعد‘ ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ 49 پولنگ اسٹیشنز میں درج شدہ ووٹروں سے زیادہ‘ ووٹ کس شرح سے ڈالے گئے؟ ایک پولنگ سٹیشن پر رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد اگر 315ہے ‘ تو وہاں جو ووٹ ڈالے گئے ان کی تعداد 1010 ہے۔ یعنی کاسٹ کئے گئے ووٹ ‘ رجسٹرڈ ووٹوں سے320 فیصد زیادہ ہو گئے۔ بظاہر یہ بہت بڑی دھاندلی نظر آتی ہے۔ لیکن اگر غیر سیاسی مقصد کے تحت محض تحقیق کی خاطر حقائق کا جائزہ لیا جائے‘ تو صرف اتنی سی بات سامنے آتی ہے کہ یہ غلطیاں پولنگ سٹاف کی غفلت یا عدم توجہی کے نتیجے میں ہوئیں۔ لیکن انہیں آسانی سے پکڑا جا سکتا ہے۔ صرف شائع شدہ پولنگ اسٹیشنز کے اعدادوشمار کی چھان بین نادرا کی مدد سے کی جائے‘ تو وہ انگوٹھے کے نشان اور ووٹرز کی تصویر کا جائزہ لے کر یہ بتا سکتا ہے کہ غلطی کہاں پر ہوئی اور کیسے ہوئی؟ اصلی اور غلطی سے بنائے گئے ووٹرز کا سراغ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے اور اس کے بعد پورے حلقے میں ڈالے گئے ووٹوں کو شمار کر کے یہ جائزہ لیا جا سکتا ہے کہ ان اغلاط کے نتیجے میں حلقے کے مجموعی نتائج پر کیا اثر پڑا؟ اگر بڑھائے گئے ووٹ مجموعی نتیجے پر اثرانداز ہو گئے ہیں‘ تو اس حلقے میں دوبارہ پولنگ کا حکم دیا جا سکتا ہے اور اگر بڑھائے گئے ووٹوں کو شمار کرنے کے بعد بھی کامیاب ہونے والے امیدوار کے ووٹ زیادہ نکلتے ہیں‘ تو پھر اس کی کامیابی کو درست قرار دینے میں کوئی ہرج نہیں۔ ہمیں اس معاملے کو دھاندلی‘ سازش یا خفیہ اداروں کی کارستانی قرار دے کر پورے انتخابی عمل کو مشکوک قرار دینے کے بجائے‘ اس ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھانا چاہیے جو غیرملکیوں نے ہمیں اس لئے مہیا کی ہے کہ ہر الیکشن کو مشکوک قرار دے کر جھگڑے پیدا کرنے کے بجائے‘ ہم ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھا کر حقائق معلوم کریں اور پھر غلطیوں کی اصلاح کر کے‘ نتائج کو درست کر لیں۔ اس کے بعد اگر کامیاب امیدوار کے ووٹوں کی تعداد مقابل امیدوار سے کم ہو جاتی ہے‘ تو دوبارہ ووٹنگ کا انتظام کر لیا جائے۔ ہمارے جتنے امیدوار‘ دھاندلی کے سوال پر ہنگامہ کر رہے ہیں اور پورے انتخابی عمل کو مشکوک بنا کر خود جمہوریت کے بارے میں سوال اٹھا رہے ہیں‘ انہیں چاہیے کہ دستیاب فنی سہولتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ اپنے خدشات کے حل تلاش کریں۔ یہ حل تلاش کرنے کے طریقے بہت آسان ہیں اور جتنی تفصیل اور وضاحت کے ساتھ نادرا کے پاس ریکارڈ موجود ہے‘ استعمال شدہ بیلٹ پیپر کے ساتھ موازنہ کر کے‘ آسانی سے پتہ چلایا جا سکتا ہے کہ اصل ووٹ کتنے ہیں ؟ اور کسی بنیاد کے بغیر گنتی میں لائے گئے ووٹ کتنے ہیں؟ جو مسئلہ ٹیکنالوجی نے حل کر دیا ہے‘ اس پر بلاوجہ تنازعات کھڑے کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ مجھے یہ دیکھ کے خوشی ہوئی کہ ’’فیفن‘‘ کے ماہرین نے خود اس معاملے کو غیرجذباتی انداز میں دیکھا ہے۔ ان کی طرف سے نہ کسی پر الزام لگایا گیا اور نہ ہی سازش یا بدنیتی ڈھونڈی گئی۔ انہوں نے انتہائی غیرجذباتی اور سادہ انداز میں ‘ ان وجوہ کا جائزہ لیا‘ جن کی بنا پر یہ غلطیاں ہوئیں اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ کس طریقہ کار پر عمل کر کے‘ ان کو پکڑا جا سکتا ہے؟ جب سائنس اور ٹیکنالوجی نے تنازعے کی وجہ بننے والی اغلاط کا سراغ لگانے کی سہولت بہم پہنچا دی ہے‘ تو پھر ضد اور بے صبری سے کام لیتے ہوئے‘ قابل علاج بیماری میں زبردستی مبتلا رہ کر‘ اپنی حالت کیوں خراب کی جائے؟ جو سیاسی کارکن اور لیڈرسڑکوں اور چوراہوں میں مظاہرے کرکے اپنی توانائیاں ضائع کر رہے ہیں‘ وہ الیکشن کمیشن اور نادرا کی خدمات سے فائدہ اٹھا کر وجہ تنازعہ ختم کرنے میں دلچسپی کیوں نہیں لے رہے؟ ہماری سیاست میں بے اعتباری‘ عدم اعتمادی‘ شکوک و شبہات اور طاقت کے زور پر بات منوانے کی بیماریاںاس قدر بڑھ گئی ہیں کہ ہم ذرا سے شک کی گنجائش نکلنے پر‘اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں ہمارا قصور بھی نہیں۔ ہمارے ملک میں ایسے ایسے تماشے لگتے رہے ہیں اور ایسی ایسی فریب کاریاں ‘ حقائق پر غالب آ کر ہمیں بھٹکاتی رہی ہیں کہ اب ہم نے انہیں سیاست کا حصہ تصور کر لیا ہے۔ سب سے بڑی مثال 1977ء کے انتخابات ہیں۔ ان انتخابات کے نتائج پر اپوزیشن کے جس متحدہ محاذ نے احتجاج شروع کیا تھا‘ اس کے لیڈروں نے بعد میں خود بھی تسلیم کیا کہ دھاندلی اتنی نہیں ہوئی تھی‘ جس پر ہم نے احتجاجی تحریک چلائی۔ لیکن ہمارے لئے حالات اتنے آسان اور سازگار بنائے جاتے رہے کہ ہم اس میں اپنی کامیابی دیکھ کر آگے بڑھتے چلے گئے۔ انتخابی نتائج پر جس دھاندلی کا الزام لگایا گیا‘ اس کے مطابق یہ صرف 21نشستوں پر کی گئی۔ حکومت نے تسلیم نہ کیا۔ اس پر صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا گیا۔ قومی اسمبلی کی محض 21نشستوں کی وجہ سے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا گیا۔اس سلسلے میں حزب اختلاف جتنے بھی فیصلے کرتی گئی‘ انہیں میڈیا پر جائز اور برحق قرار دینے کی بھرپور مہم کی صورت‘ پشت پناہی حاصل ہو جاتی۔ضیاالحق کے ماتحت خفیہ ادارے‘ جو درحقیقت اپوزیشن کے متحدہ محاذ کے خالق اور مددگار تھے‘ وہ اسے کامیابی کی یقین دہانیاں کراتے رہتے۔ اس طرح معاملات بگڑتے چلے گئے۔ بھٹو صاحب اپوزیشن کے مطالبات تسلیم کرتے گئے۔ انہوں نے 21نشستوں پر دوبارہ انتخابات کا مطالبہ فوراً نہیں مانا۔ نتیجے میں صوبائی اسمبلیوں کا بائیکاٹ ہوا۔ حکومت نے صوبائی اسمبلیوں کے نتائج کو مستردکر کے دوبارہ انتخابات کا مطالبہ مان لیا‘ تو اپوزیشن نے پورا الیکشن ہی دوبارہ کرانے کا مطالبہ پیش کر دیا۔ جب بھٹو صاحب یہ بھی مان گئے‘ تو پھر یہ سوال پیدا ہو گیا کہ الیکشن کس حکومت کے تحت کرائے جائیں؟ باہراحتجاجی تحریک چلائی جاتی رہی۔ میڈیا میں اسے بڑھا چڑھا کر کوریج دی جاتی رہی۔ اندر سے حزب اختلاف کے لیڈروں کو ہلاشیری دینے کا سلسلہ جاری رہا اور ملک جب ایک بڑے سیاسی بحران میں مبتلا ہوتا نظر آیا‘ تو حزب اختلاف کے قائدین خود بھی جمہوریت کو لاحق خطرات دیکھ کر خبردار ہو گئے اور انہوں نے آپس میں صلاح مشورے کے بعد فیصلہ کیا کہ ’’ہم بھٹو صاحب کو جتنا دیوار کے ساتھ لگانا چاہتے تھے‘ اس سے زیادہ لگا چکے ہیں۔ اگر ہم مزید تصادم کی طرف بڑھے‘ تو اس کا فائدہ غیر سیاسی قوتیں اٹھا لیں گی۔ اس لئے بہتر ہے فوری طور پر حکومت سے معاہدہ کر کے نگران حکومت کی تشکیل کر دی جائے اور اس کے تحت انتخابات کے شیڈول کا اعلان کر دیا جائے۔‘‘ 4جولائی کی شام کو یہ فیصلہ ہو گیا۔ میٹنگ کے فوراً ہی بعد نوابزادہ نصراللہ خان نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کر دیا کہ ’’ہمارے درمیان سمجھوتہ ہو چکا ہے۔ ہم اپنی تحریک ختم کرتے ہیں۔ قوم کو نئے انتخابات مبارک ہوں اور سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنوں کو چاہیے کہ اب احتجاجی تحریک چھوڑ کر اپنی اپنی انتخابی مہم میں مصروف ہو جائیں۔‘‘ مگر اس دوران سازشی ٹولہ اپنی تیاریاں کر چکا تھا۔ نصف شب کے قریب ضیاالحق کے ماتحت فوجی دستے حرکت میں آ گئے۔ وزیراعظم‘ وزراء اور تمام اپوزیشن لیڈروں کو گرفتار کر لیا گیا اور اقتدار پر قبضہ کرتے ہی جنرل ضیاالحق نے حکم دیا کہ نوابزادہ صاحب کی پریس کانفرنس کا ایک لفظ بھی اخباروں میں شائع نہ ہو۔ ملک کے تمام اخبارات نے اس پریس کانفرنس کا بائیکاٹ کر دیا۔ لیکن ’’پاکستان ٹائمز‘‘ اسلام آباد میں خبر شائع ہو گئی‘ جو آج بھی اس کے ریکارڈ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ لیکن پاکستانی عوام آج تک یہ سمجھتے ہیں کہ بھٹو صاحب نے بہت بڑی دھاندلی کر دی تھی‘ جس پر احتجاجی تحریک چلائی گئی اور بقول ضیاالحق پاکستان میں خانہ جنگی کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا اور اسی لئے مارشل لا نافذ کیا گیا۔ہرچند آج حالات بدل چکے ہیں اور وہ تمام داخلی اور بیرونی قوتیں‘ جو اس وقت پاکستان میں جمہوریت کا خاتمہ کر کے‘ ہمیں اپنی جنگ میں گھسیٹنا چاہتی تھیں‘ آج ان کی پالیسیاں بدل چکی ہیں۔ لیکن ان میں سے پاکستان کی دشمنی پر تلے ہوئے عناصر ‘ ان کے ایجنٹ اور ذاتی مفادات کے لئے اندھے ہو جانے والے‘ کسی بھی وقت حالات کا فائدہ اٹھانے سے گریز نہیں کریں گے۔ ہماری جمہوریت بحرانوں سے تو نکل رہی ہے لیکن اتنی طاقتور نہیں ہوئی کہ مخالفین کے ساتھ کشمکش میں ان پر غالب آ جائے۔جمہوری نظام کو بچانے اور چلانے کے لئے ہوشمندی اور حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مناسب یہی ہے کہ ہم فوری مفادات کی خاطر طویل مدتی مفادات قربان نہ کریں۔ انتخابی نتائج ‘ عوامی جذبات کے عین مطابق آئے ہیں۔ کامیاب ہونے والے مجموعی طور سے کامیاب رہے ہیں۔ انتخابی نتائج میں ہونے والی غلطیوں کی تلافی ہمار ے ہاتھ میں ہے۔ مناسب یہی ہے کہ پنجابی محاورے کے مطابق ’’ککڑ کھہ اڑاوے‘ تے سر اپنے وچ پاوے‘‘ والی حالت نہ کریں۔ یہ ہم بہت کر چکے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved