تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     15-11-2019

ایک موقع ہی کافی ہے

دنیا بھر کے سائنس دان خلائی تحقیق کے میدان میں عشروں سے مصروف ہیں۔ اُن کی بھرپور کوششیں صرف اس مقصد کے تحت ہیں کہ نظامِ شمسی کے اندر یا باہر کہیں زندگی کا سُراغ مل جائے۔اس سلسلے میں کہیں دُور زندگی کی تلاش میں ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ 
زندگی کی تلاش؟ وہ تو ہمیں پہلے ہی ملی ہوئی ہے‘ پھر تلاش کیوں کی جارہی ہے؟ مِریخ اور دیگر سیاروں پر زندگی کے لیے معاون ماحول یا عناصر تلاش کرنے کی کوشش کیوں‘ جبکہ روئے ارض پر ہمیں زندگی ایسی نعمت سے بہرہ مند تو کرہی دیا گیا ہے؟ 
روئے ارض پر ہمیں عطا کی جانے والی زندگی ہمارے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔ روئے زمین پر ہمارا قیام صرف ایک بار ہے۔ ہمارے لیے سمجھنے‘ سوچنے اور کچھ دکھانے کی گنجائش صرف ایک بار پیدا کی گئی ہے۔ دل چھوٹا نہ کریں۔ اگر ڈھنگ سے جی لیں‘ کچھ کر جائیں تو سمجھ لیجیے کہ یہ ایک موقع بھی کافی ہے۔ 
اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وقت مفت ہے تو اِسے اُس کی سادہ لوحی ہی سمجھا جائے گا۔ وقت ہمیں مفت ملتا ہے ‘مگر یہ بے قیمت ہرگز نہیں۔ ہم اپنے افکار و اعمال کی نوعیت سے وقت کی قیمت ادا کرتے رہتے ہیں‘ جو کچھ اس کائنات کے خالق نے ہمیں بخشا ہے ‘اُس کا حساب دینا ہے اور ہم حساب دینے کے قابل اُسی وقت ہوسکتے ہیں ‘جب رب کی نعمتوں کا حق ادا کرنے کی ذہنیت پروان چڑھائیں۔ یہ ذہنیت اُس وقت پروان چڑھتی ہے جب ہم رب کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔ 
ڈھنگ سے جینے‘ کچھ کر دکھانے کے لیے لازم یا ناگزیر ہے کہ ہم اپنے وجود کو تسلیم کریں اور اپنے آپ پر پورا یقین رکھیں۔ جو لوگ انکارِ ذات کے دائرے سے باہر نہیں آتے‘ وہ بامعنی زندگی کے دائرے میں بھی داخل نہیں ہو پاتے۔ ڈینس ویٹلے کا کہنا ہے کہ جو کچھ آپ ہیں‘ وہ آپ کی راہ میں مزاحم نہیں۔ آپ کی راہ میں اگر کوئی شخصیت رکاوٹ ہے تو صرف وہ جس کے بارے میں آپ کا خیال ہے کہ آپ نہیں! ہم زندگی بھر اپنی صلاحیتوں اور سکت کے بارے میں تذبذب اور بے یقینی کا شکار رہتے ہیں۔ جو کچھ ہم کرسکتے ہیں وہ بھی اس لیے نہیں کر پاتے کہ اپنے وجود ہی پر پورا یقین نہیں ہوتا۔ جب ہم اپنے وجود کو اُس کی تمام خصوصیات کے ساتھ تسلیم کرتے ہیں تب ہی کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے‘ جسے بھی بامعنی اور بامقصد زندگی بسر کرنی ہے اُس کے لیے اپنے وجود پر غیر متزلزل یقین رکھنا لازم ہے۔ اس مرحلے سے گزرنے ہی پر کچھ کرنے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ 
زندگی منصوبہ سازی چاہتی ہے۔ اچھی طرح سمجھے اور سوچے بغیر زندگی بسر کرنا کچھ زیادہ دانش کا سودا نہیں ہوا کرتا۔ مگر خیر‘ بہت کچھ ایسا ہے‘ جو آپ کے منصوبوں سے ہٹ کر بھی ہو رہا ہوتا ہے۔ جب آپ کئی منصوبے تیار کرنے میں مصروف ہوں تب جو کچھ واقع ہو رہا ہوتا ہے‘ وہی زندگی ہے اور اسے قابو میں رکھنے میں کامیاب ہونا ہی زندگی کا بنیادی مقصد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے نہیں کہ آپ کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں۔ بہت کچھ ہے ‘جو آپ کے تصرف میں ہے‘ مگر اس حوالے سے باہوش و باشعور رہنا لازم ہے۔ معاملات کو کسی نہ کسی حد تک اپنے بس اور حق میں کرنا آپ کے لیے ہمیشہ ممکن ہوتا ہے۔ اگر قدرت نے یہ اہتمام نہ کیا ہوتا تو آج دنیا میں ڈھنگ کا کوئی بھی کام نہ ہوا ہوتا اور ہم انتہائی پس نوعیت کی زندگی بسر کر رہے ہوتے۔ 
جوزف کیمبل نے ایک بہت بڑی بات چند الفاظ میں انتہائی خوب صورتی سے بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ زندگی کا کوئی بھی مفہوم نہیں ہوتا۔ اس خاکے میں مفہوم کا رنگ ہم بھرتے ہیں۔ زندگی خود کچھ نہیں ہوتی۔ ہم جو کچھ سوچتے اور کرتے ہیں‘ اُسی سے زندگی بنتی ہے۔ اسے کوئی بھی شکل دینا‘ کسی بھی سمت موڑ دینا ہمارا کام‘ بلکہ ذمہ داری ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؔ نے کہا ہے ؎ 
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی‘ جہنم بھی 
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نُوری ہے نہ ناری ہے 
جب معاملہ یہ ہو تو یہ سوال ہی فضول ہے کہ زندگی کا مفہوم کیا ہے۔ آپ اس سوال کا کیا جواب دیں گے؟ جبکہ جواب تو آپ خود ہیں! یعنی یہ کہ بہت کچھ ہے جو ہمیں کرنا ہے۔ قدرت نے بہت کچھ ہمارے ہاتھ میں رکھا ہے۔ بہت کچھ ہماری مرضی اور ارادہ و عمل سے جوڑ دیا گیا ہے۔ بے عمل رہ کر اس حوالے سے کوئی جواز تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ 
زندگی کا ہر معاملہ آپ کے تصرف میں نہیں۔ آپ زندگی کے ہر معاملے پر متصرف ہو ہی نہیں سکتے۔ بہت کچھ ایسا بھی تو ہوتا ہے‘ جو آپ کے بس میں ہوتا ہے‘ نہ متعلق۔ آپ کو ہر وہ معاملہ اچھی طرح شناخت کرنا ہے ‘جو آپ سے متعلق ہے اور آپ کے اندر جی رہا ہے۔ اپنے ماحول میں رونما ہونے والی ہر بات پر بہت زیادہ دھیان دینے کی ضرورت کبھی نہیں ہوتی۔ اس صورت میں وقت بروئے کار نہیں لایا جارہا ہوتا‘ صرف ضائع ہو رہا ہوتا ہے۔ 
بہت کچھ ہے جو ہمیں کبھی نہیں مل سکے گا۔ اور بہت کچھ ایسا بھی ہے ‘جو تھوڑی بہت کوشش سے ہم حاصل کرسکتے ہیں۔ جو کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے‘ اُسی پر متوجہ رہیے۔ ہوسکتا ہے کہ اُس کا حصول یقینی بنانے کی صورت میں آپ ایسا بہت کچھ بھی حاصل کرلیں ‘جس کے بارے میں سوچا ہی نہ ہو۔ ہر انسان بہت کچھ پانا چاہتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ لوگ بہت کچھ پانے کی خواہش کو پیچھے چھوڑ کر سب کچھ پانے کی خواہش کا زہر پینے لگتے ہیں‘ اسی مقام سے تباہی کا سفر شروع ہوتا ہے۔ ہمیں اُتنا پانا ہے‘ جتنا برداشت کیا جاسکے‘ ہضم ہوسکے۔ بہت کچھ پانے کی دُھن میں رہنے والے صرف بربادی چُنتے ہیں۔ بہت کچھ کرنے کی کوشش بھی برباد کرتی ہے اور بہت کچھ پانے کی خواہش بھی لے ڈوبتی ہے۔ 
ہمیں یہ زندگی صرف اس لیے ملی ہے کہ جئیں تو ہر لمحے سے لطف پائیں‘ ہر نئے تجربے سے حیرت زدہ ہوں‘ کچھ سیکھیں اور دوسروں کو بھی کچھ سکھانے یا دینے کی کوشش کریں۔ سارا مزا اِس نکتے میں مضمر ہے کہ آپ قدم قدم پر حیرت زدہ اور خوش ہوں اور ہر معاملے کو اُس کے منطقی انجام تک پہنچانے کے حوالے سے اپنا کردار پوری دیانت اور جاں فشانی سے ادا کریں۔ ہر نئی بات سے محظوظ ہونا ہی کافی نہیں‘ کچھ نہ کچھ سیکھنا بھی ہے اور کچھ نیا کرنے کی تحریک بھی پانی ہے۔ 
جو کچھ آج تک پیدا ہونے والوں نے کیا ہے‘ اُس سے دنیا بھری پڑی ہے۔ بہت سے معاملات میں ہم دوسروں کی محنت کا پھل کھا رہے ہوتے ہیں۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ہم یہاں محض اس لیے نہیں ہیں کہ دوسروں کی محنت کا پھل کھائیں۔ ہمیں کچھ کرکے جانا ہے۔ ہمیں کچھ پانے کی زیادہ خواہش نہیں کرنی چاہیے‘ کیونکہ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہے‘ وہ خود بخود ہمیں ملتا رہے گا۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم کیا کرنا چاہتے ہیں۔ جو کچھ بھی ہم کرنا چاہتے ہیں اُسی کی اہمیت ہے۔ باقی سب تو اضافی کہانی ہے۔ صرف اس بات پر دھیان دیجیے کہ ایک بار‘ اور صرف ایک بار ملنے والی اس زندگی کو اس طور گزارنا ہے کہ لوگ یاد رکھیں۔ ؎ 
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو 
ایسا کچھ کرکے چلو یاں کہ بہت یاد رہو 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved