گزشتہ ہفتے جرمنی میں دیوارِ برلن کے انہدام کے 30 برس مکمل ہونے پر تقریبات کا اہتمام کیا گیا ۔ دارالحکومت برلن میں مرکزی تقریب میں چانسلر انجیلا مرکل اور جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائر شریک ہوئے۔دنیا میں دو دیواریں مشہور ہیں‘ ایک دیوارِ چین اور دوسری دیوارِ برلن۔ سابقہ مشرقی اور مغربی جرمنی کو ایک دوسرے سے جدا کرنے والی اس دیوار کی تعمیر 1961ء میں شروع ہوئی ۔ 9 نومبر 1989ء میں دیوارِ برلن گرا دی گئی۔3 اکتوبر 1990ء کو جرمنی کا انضمام مکمل ہوا تھا۔شہر برلن جرمنی کا دارالخلافہ کے ساتھ ایک خوبصورت تاریخی شہر بھی ہے۔ اس بڑے شہر میں درجنوں میوزیم اور سینکڑوں دیکھنے والی جگہیں ہیں، لیکن مجھے اس شہر کے حوالے سے ایک ہی چیز ہمیشہ یادرہتی ہے‘ وہ ہے ''دیوارِ برلن‘‘۔ مشرقی اور مغربی برلن دو مختلف طاقتوں کے تسلط کا استعارہ تھے، جس نے ایک دوسرے سے روز ملنے والوں اور محبت کرنے والوں کو بھی ایک دوسرے سے جدا کردیا تھا۔
برلن کی تاریخ بھی منفرد مقام رکھتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں جب جرمنی کو شکست ہو ئی ‘ فاتح قوموں نے اس ملک پر کنٹرول قائم رکھنے کی خاطر اس شہرکو چار حصوں میں تقسیم کیا۔ شمالی علاقے میں برطانیہ‘ وسطی علاقے میں امریکا‘ جنوبی علاقے میں فرانس اور مشرقی علاقے میں روس نے قبضہ جما لیا۔ برلن شہر کی اہمیت کے پیش نظر اس کو کسی علاقہ میں شامل نہ کیا گیا ‘ چار سیکٹرز میںتقسیم کرتے ہوئے ہر سیکٹر کی حدود مقرر کی گئی ۔1948ء میں تینوں مغربی طاقتوں اور روس کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے اور 1949ء میں تینوں مغربی حصوں پر مغربی جرمنی اور روسی حصہ پر مشتمل مشرقی جرمنی وجود میں آئے اور اسی طرح برلن شہر کے تینوں مغربی حصے مغربی برلن اور روسی سیکٹر مشرقی برلن کہلانے لگا۔
دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر‘ 1949ء سے 1961ء تک جرمنی میں مشرقی و مغربی لوگ بغیر کسی رکاوٹ کے آتے جاتے تھے۔کہا جاتا ہے کہ جرمنی کی تقسیم امریکہ کی ذاتی خواہش تھی‘ سوویت یونین یہ تقسیم ذاتی طور پر نہ چاہتی تھی۔دیوارِ برلن کی تعمیر سے مغربی جرمنی کو پہنچنے والے نقصان و فوائد کی خبریں کئی دنوں تک عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہیں۔دیوار کی تعمیر سے مغربی جرمنی کو 60 ہزار باہنر مزدوروں کا نقصان ہوا ‘جو مشرقی برلن میں اپنے گھروں سے پیدل چل کر مغربی برلن میں مزدوری کرنے جاتے تھے‘ اگر کہا جائے دیوارِ برلن کی تعمیر سے قبل مشرقی (کمیونسٹ) جرمنی کے لوگ مغربی (سرمایہ دارانہ) جرمنی روز آتے جاتے تھے تو غلط نہ ہوگا۔ ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگرمغربی جرمنی (سرمایہ دارانہ معاشی سوشلزم ) زیادہ کامیاب اور ترقی یافتہ تھا‘ اسے مشرقی جرمنی کے باہنر مزدوروں کی ضرورت کیا تھی ؟صرف محنت مزدوری ہی نہیں‘ لوگ خریداری کرنے، گھومنے پھرنے، تعلیم و علاج کے لیے بھی ہزاروں کی تعداد میں جرمنی کے مشرقی اور مغربی حصوں میں بنا کسی رکاوٹ کے آیا جایا کرتے تھے۔
اہم سوال جو ہر ذی شعور کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے ‘ کیادیوارِ برلن کی تعمیر کے بعد مشرقی جرمنی کے لوگوں کے لیے مغربی جرمنی کے سفرپر پابندی لگ گئی تھی ؟یقینا ایسا نہیںہے۔دیوارِ برلن کے انہدام سے قبل مشرقی جرمنی سے 1984 ء میں 40 ہزار لوگ مغربی جرمنی منتقل ہوئے۔ 1985 ء میں قریباً 20 ہزار افراد مغربی جرمنی سے واپس مشرقی جرمنی میں آبسے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق ان لوگوں کا کہنا تھا کہ مغربی جرمنی کے ترقی یافتہ نظام کے بارے میں ان کے تصورات غلط تھے۔ مغربی جرمنی کی حکومت کے مطابق دس سال میں مشرقی جرمنی سے آکر مغربی جرمنی میں سکونت اختیار کرنے والے لوگوں میں سے قریبا 15 ہزار لوگ مستقل بنیادوں پر واپس مغربی جرمنی چلے گئے ۔ حقائق کچھ اور ہی منظرکشی کرتے ہیں‘ دیوارِ برلن کے حوالے سے مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ حکومت کے بارے میں یہ تاثر بھی بالکل غلط تھا کہ اس نے مشرقی جرمنی میں جرمن لوگوں کو محصور کر رکھا تھا اور ان کے آزادنہ نقل و حمل پر کمیونسٹ حکومت نے کڑی پابندی لگا رکھی تھی۔ جیسا کہ دیوارِ برلن کو پھلانگ کر مشرقی جرمنی سے مغربی جرمنی‘‘فرار''ہونے والوں کی تصویروں سے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ مغربی میڈیاکے توسط سے مشرقی جرمنی کے ایک نوجوان بارڈر گارڈ'' کونراڈ شومین ‘‘کی تصویرکافی مشہور ہوئی‘ جس میںگارڈ خاردار تار پھلانگ کر مشرقی جرمنی سے مغربی جرمنی بھاگتے ہوئے دکھایا گیا ۔اسے ''آزادی کی چھلانگ''کا عنوان دے کر دنیا بھر میں اس کی تشہیر کی گئی۔
دیوارِ برلن 155 کلو میٹر طویل تھی۔ اب چند ایک مقامات ہی ایسے بچے ہیں، جہاں اس دیوار کی باقیات موجود ہیں۔13اگست 1961ء میں بنائی جانے والی یہ دیوار اٹھائیس برس دو ماہ اور ستائیس دن بعد9 نومبر 1989ء کو منہدم کر دی گئی۔ سرد جنگ کے دور میں یہی دیوارِ برلن عشروں تک جرمنی کی ریاستی تقسیم کی علامت بنی رہی تھی، لیکن جب یہ دیوار گرائی گئی تو ایک سال سے بھی کم عرصے میں کمیونسٹ نظام حکومت والی مشرقی جرمن ریاست ناپید ہو گئی۔ دونوں جرمن ریاستوں کا اتحاد عمل میں آیا۔تبدیلی اور زیادہ آزادی کی عوامی خواہشات کا ایک سیلاب تھا جس کے آگے آہنی پردہ بھی پگھل گیا، ساتھ ہی پورے یورپ میں عظیم تر سیاسی اور جغرافیائی تبدیلیوں کا ایک ایسا طویل سلسلہ شروع ہو ا، جو سوویت یونین کے خاتمے اور مشرقی یورپ میں بہت سی نئی ریاستوں کے وجود میں آنے کا سبب بنا۔دیوار ِبرلن کا منہدم ہونا اس بات کا غماز ہے کہ خواب حقیقت کا روپ دھار سکتے ہیں۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ ہم یہ استطاعت رکھتے ہیں کہ اپنی قسمت سنوار سکیں اور معاملات کو سلجھائیں۔