تحریر : ڈاکٹر حسن عسکری رضوی تاریخ اشاعت     16-11-2019

مذہبی سیاحت اور غیر سرکاری ڈپلومیسی

9 نومبر کو کرتار پور کوریڈور کا افتتاح حکومت پاکستان کا ایسا تاریخ ساز فیصلہ ہے جس کے نتیجے میں بھارتی سکھ پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر اپنے مقدس مقام کرتار پور میں حاضری دے سکیں گے۔ وہ صبح کے وقت سرکاری بسوں میں سوار ہو کر نئی تعمیر شدہ شاہراہ سے پاکستان میں داخل ہوں گے اور حاضری کے بعد اسی شام واپس بھارت چلے جائیں گے۔ یہ صرف ایک دن کا وزٹ ہو گا اور بھارتی سکھ صرف اسی گوردوارے کو پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر وزٹ کر سکیں گے۔ اگر بھارتی سکھ پاکستان میں واقع اپنے دیگر مذہبی مقامات کو وزٹ کرنا چاہتے ہوں تو انہیں ماضی کی طرح ویزا لے کر ہی آنا ہو گا۔ دیگر ممالک سے آنے والے سکھ یاتریوں کو بھی پہلے سے موجود ویزا پروسیجر سے گزر کر ہی پاکستان آنا ہو گا؛ تاہم پاکستان نے ویزے کا اجرا کافی آسان کر دیا ہے۔ 
حکومت پاکستان نے بھارتی سرحد سے کرتار پور تک جدید سڑک تعمیر کی ہے، گوردوارے کی عمارت اور کمپائونڈ کو اپ گریڈ کیا گیا ہے تاکہ روزانہ سینکڑوں سکھ یاتریو ں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں مل سکیں۔ یہ ایک عظیم کمپلیکس بن گیا ہے جہاں لنگر کی تقسیم کے لئے لنگر خانے سمیت ضروری سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ یہاں سکھ یاتری آرام بھی کر سکیں گے۔
پاک بھارت کشیدہ تعلقات کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان نے بھارتی شہریوں کو ویزے اور پاسپورٹ کے بغیر کرتار پور آنے کی اجازت دی ہے۔ اس معاملے میں ابتدائی مرحلے پر بھارتی حکومت نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا مگر پھر وہ پاکستا ن کے ساتھ مل کر اس پروجیکٹ پر کام کرنے اور سرحد کھولنے پر آمادہ ہو گئی۔
یاترا کی یہ سپیشل سہولیات پاکستان کی ڈپلومیسی میں توسیع کی نئی پالیسی کا حصہ ہیں‘ جس میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ بھارت اور دیگر ممالک کے ساتھ سرکاری سطح پر روابط کے ساتھ ساتھ غیر سرکاری تعامل یعنی انٹرایکشن کا بھی آغاز کیا جائے۔ یہ ڈپلومیسی کا ایک جامع تصور ہے جس میں کئی غیر سرکاری سرگرمیاں شامل ہیں مثلاً میڈیا اور دانشور گروپس کے دورے اور سٹوڈنٹس ایکسچینج پروگرام۔ علاوہ ازیں سیاحت سمیت آرکیٹیکچر، آرٹ اور ثقافتی ورثے کی پروجیکشن اور فروغ پر کام کیا جائے گا۔ غیر سرکاری گروپس اور تنظیموں کے باہمی تعامل کو غیر سرکاری ڈپلومیسی کے چینل کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ اسی طرح جس ملک کے پاس عالمی شہرت کے حامل کھلاڑی موجود ہوں تو سپورٹس اور ثقافتی سرگرمیوں سے بھی اس ملک کا مثبت امیج قائم کرنے میں مدد ملے گی۔ کسی ملک کے لئے خیر سگالی کے جذبات کے فروغ میں مذہبی سیاحت کو ایک اہم حکمت عملی سمجھا جاتا ہے۔ سکھ مت کے اہم مذہبی مقامات پاکستان میں واقع ہیں۔ اسی طرح بدھ مت کے ثقافتی ورثے کے نشانات ٹیکسلا اور پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں بکثرت ملتے ہیں۔ سوات، خیبر پختون خوا اور قبائلی علاقوں میں چٹانوں پر بدھ مت کے عہد کی تحریریں کندہ ہیں۔ پشاور، ٹیکسلا اور لاہور کے عجائب گھروں میں بدھ مت کے عہد کی صناعی کے نمونے رکھے گئے ہیں‘ جن میں گوتم بدھ کی بعض نایاب مورتیاں بھی شامل ہیں۔ اسی طرح پنجاب اور سندھ میں ہندوئوں کے بعض اہم مندر موجود ہیں۔ پنجاب میں کٹاس راج جیسا تاریخی ہندو مندر واقع ہے۔
پاکستان آج کل مذہبی سیاحت کی حوصلہ افزائی کی طرف توجہ دے رہا ہے۔ بھارت، کینیڈا، امریکہ اور برطانیہ سے ہزاروں سکھ یاتری ہر سال پاکستان میں واقع اپنے مقدس مقامات کا وزٹ کرتے ہیں۔ سکھ مت کے بانی بابا گرونانک کے 550ویں یوم پیدائش کی وجہ سے امسال نومبر میں سکھ یاتریوں کی تعداد میں خاصا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کرتار پور راہداری کھلنے سے بھارتی سکھوں کو پاکستان میں واقع اپنے ایک مقدس مقام کی یاترا کا موقع ملا ہے۔
پچھلے چند برسوں سے ہندو یاتریوں نے بھی پاکستان کا دورہ کرنا شروع کر دیا ہے؛ تاہم ابھی ان کی تعداد بہت کم ہے۔ چند ماہ قبل‘ جنوری 2019ء میں حکومت پاکستان نے پشاور میں واقع ایک ہزار سالہ قدیم ہندو مندر کو قومی ورثہ قرار دیا تھا۔
بدھ مت کے پیروکاروں کے لئے پاکستان میں ایک مذہبی کشش پائی جاتی ہے۔ پاکستان میں ان کے تہذیبی ورثے کے نشانات موجود ہیں۔ 2012ء سے جنوب مشرقی ایشیاء کے ممالک اور سری لنکا کے وفود نے پاکستان میں واقع بدھ عہد کے تاریخی مذہبی مقامات کو وزٹ کرنا شروع کر دیا تھا۔ مئی 2012ء میں جنوبی کوریا کے ایک وفد نے پشاور میوزیم میں رکھی مہاتما بدھ کی مورتیوں کے سامنے اپنی عبادات میں حصہ لیا تھا۔ جنوبی کوریا، تھائی لینڈ اور سری لنکا سے کئی ایسے وفود آ چکے ہیں جنہوں نے ٹیکسلا اور پشاور میں اپنی مذہبی رسومات ادا کی تھیں۔ جنوبی کوریا کے عوام ضلع صوابی کے ایک گائوں ''چھوٹا لاہور‘‘ کے ساتھ ایک خصوصی تعلق کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کے دعوے کے مطابق اسی قصبے کے ایک بدھ راہب نے 348ء میں جنوبی کوریا پہنچ کر بدھ مت کو وہاں متعارف کرایا تھا۔ پاکستان نے 2016 اور 2018ء میں مہاتما بدھ کی مورتی اور گندھارا آرٹ کے نمونے جنوبی کوریا، سری لنکا اور سوئٹزر لینڈ میں نمائش کے لئے بھیجے تھے۔ کورین بدھ راہبوں نے چند روز قبل اکتوبر 2019ء میں ٹیکسلا کی بھاملا موناسٹری اور سٹوپا کے کھنڈرات میں پہلی مرتبہ مذہبی عبادات میں حصہ لیا تھا۔ ایک پندرہ رکنی وفد نے‘ جس کی قیادت تھائی لینڈ کی سانگا سپریم کونسل کے راہب کر رہے تھے‘ اکتوبر 2019ء میں پشاور میوزیم میں رکھی مہاتما بدھ کی مورتی کے سامنے عبادت کی تھی۔ سری لنکا، برما اور جنوب مشرقی ممالک سے بدھ مت کے مزید پیروکاروں کے پاکستان آنے کی توقع ہے۔ امید ہے کہ حکومت پاکستان اس طرح کے دوروں کے لئے انتظامات میں مزید بہتری لائے گی۔
پاکستان میں عظیم ثقافتی ورثہ موجود ہے جو عالمی سطح پر لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ ان میں مہر گڑھ (بلوچستان) کے قدیم ثقافتی آثار ہیں‘ موہنجو داڑو اور ہڑپہ میں وادیٔ سندھ کی تہذیب کے کھنڈرات پائے جاتے ہیں۔ مسلمان حکمرانوں خصوصاً مغلیہ خاندان کی زیر سرپرستی آرٹ اور آرکیٹیکچر ہمارا ایک اور اثاثہ ہے۔ ان تاریخی عمارتوں، قلعوں اور باغات کی اہمیت کو یونیسکو کا ادارہ بھی تسلیم کرتا ہے۔ پاکستان کی لوک اور صوفیانہ موسیقی بھی بیرون ملک ایک خصوصی مقبولیت رکھتی ہے۔ پاکستان کے بلند و بالا پہاڑوں سمیت شمالی علاقہ جات کے کئی مقامات اور قدیم زبانیں بھی غیر ملکی ماہرین تعلیم اور کوہ پیمائوں کے لئے خصوصی کشش اور دلچسپی کی حامل ہیں۔
جدید میڈیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی آمد نے پاکستان کے تہذیبی ورثے، تاریخی اور ثقافتی مراکز کو بیرون ملک متعارف کرانے کے مزید مواقع پیدا کر دیئے ہیں۔ اس سے پاکستان کا بیرون ملک ایک ایسا امیج بنانے میں مدد ملتی ہے جو اپنی صدیوں پرانی تاریخ رکھتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے ان تاریخی مقامات کی حفاظت اور نگہداشت کو بھی آسان بنا دیا ہے۔ اس طرح پاکستان کے سافٹ امیج سے ڈپلومیسی میں بھی خاطر خواہ مدد ملتی ہے۔
ایک اور ایشو بھی ہے جو پاکستان کے سافٹ امیج کو فروغ دینے میں مدد گار ہو سکتا ہے۔ مغل، سکھ اور برطانوی عہد کے تاریخی آرکائیو کو محفوظ کرنے کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اب آزادی کے بعد کا ریکارڈ بھی محفوظ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان اور بیرون ملک سے آنے والے ریسرچرز کو اپنی تحقیق میں سہولت اور آسانی میسر آئے۔ حکومت پاکستان نے اس قدیم ریکارڈ کو محفوظ کرنے کے لئے قابل قدر اقدامات کئے ہیں۔ اس ضمن میں مزید کوششوں کی گنجائش موجود ہے۔ پاکستان پرانے ریکارڈ اور آرکائیوز کو پرنٹ یا ڈیجیٹلائز بھی کر سکتا ہے۔ جناح پیپرز کی طرز پر مزید دستاویزات شائع کرنے کی ضرورت ہے۔
اپنی تہذیبی ڈپلومیسی کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لانے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان اپنے ماضی و حال سے متعلق تمام کارآمد مواقع سے فائدہ اٹھائے۔ دیگر معاشروں کے ساتھ اس طرح کی ڈپلومیسی اور سماجی روابط سے پیدا ہونے والے خیر سگالی کے جذبات سے سرکاری ڈپلومیسی میں بہت مدد ملتی ہے۔ اگر ہم اہم ممالک کے معاشروں کے ساتھ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر رابطے قائم کر لیں تو اس سے پاکستان کی سفارتی قوت میں اضافہ ہو گا اور مخالفانہ پروپیگنڈے کی بیخ کنی میں مدد ملے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved