بی بی سی نے 31 اکتوبر کو ''CIA-backed Afghan troops committed war crimes‘‘ کے عنوان سے چونکا دینے والی رپورٹ میںافغانستان کے صوبہ وردک کے مسیح الرحمن کے حوالے سے بتایا کی یہ شخص جب اپنے گھر پہنچا تو یہ دیکھ کر لرز کر رہ گیا کہ اس کا گھر ملبے کا ڈھیر بن چکاتھا اورا س کے خاندان کے 12 افراد اس ملبے تلے دب کر ہلاک ہو چکے تھے۔وحید اﷲ جو اپنے گھر کے باہر چیختا چلاتا رہتا ہے‘ اس کی کہانی بیان کرتے ہوئے بی بی سی پشتو نے بتایا کہ'' اس کے گھر کے تمام افراد کو پہاڑ کی چوٹی پر لے جا کر امریکیوں نے افغان فورسز کو حکم دیا کہ سب کو ہلاک کرکے نیچے پھینک دو‘‘۔ کل تک یہی افغان فوج راء کی مدد اور تعاون سے پاکستان کے اندرپشتونوں کی نسل کشی کے لیے تحریک طالبان پاکستان کے ذریعے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سکولوں اور کالجوں میں آتے جاتے پشتون بچوں کو‘ کبھی چارسدہ یونیورسٹی تو کبھی آرمی پبلک سکول پشاور میں بے رحمی سے قتل کیا تو کبھی بنوں‘ ڈیرہ اسماعیل خان اور مردان کے سکولوں میں نو عمر طالب علموں کے خون سے اپنی پیاس بجھائی۔ افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس نے گود لی ہوئی ٹی ٹی پی کے ذریعے کبھی پشاور کی سڑکوں اور مارکیٹوں کو پشتونوں کے خون سے لال کیا تو کبھی اپنے کام کاج کی غرض سے مختلف منزلوں کی جانب گامزن لوگوں کی بسوں‘ویگنوں کے خود کش دھماکوں سے پرخچے اُڑائے۔ خیبر پختونخوا کا ایسا کون سا علاقہ ہو گا جسے حامد کرزئی اور پھر اشرف غنی ٹولے نے تاراج نہ کیا ہو۔ خیال تھا کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے پشتونوں کا خون پی پی کر افغان فوج اور اس کی این ڈی ایس کا پیٹ بھر گیا ہو گا‘ لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا اور اب امریکی سی آئی اے اور بلیک واٹر کی معاونت سے کابل حکومت پشتون آبادی پر مشتمل علاقوں کے چھوٹے چھوٹے دیہات کے شہریوں اور ان کے سکولوں اور میڈیکل سنٹرز کو ڈرون حملوں کے ذریعے نشانہ بناکر سینکڑوں بے گناہ مرد وخواتین اور بچوں کو ہلاک کر چکی ہے۔ بین الاقوامی میڈیا تسلیم کر رہا ہے کہ ـــعالمی عدالتِ انصاف نے جنگی جرائم کا صحیح اور میرٹ پر فیصلہ دیا تو کشمیر میں بھارتی مظالم کے بعد افغانستان میں امریکی سی آئی اے اور افغان فوج کا دوسرا نمبر ہو گا۔
افغان سپیشل فورس اور امریکی سی آئی اے کی جانب سے پشتون کشی کے لاتعداد ثبوتوں اور دستاویزات پر مبنی ہیومن رائٹس واچ کی50 صفحات پر مشتمل رپورٹ کے بعد الجزیرہ ٹی وی اور آریانا نیوز نے بھی این ڈی ایس اورسی آئی اے کی پشتون نسل کشی کے وہ دلدوز اور بھیانک منا ظر دکھائے کہ روح کانپ اٹھی۔ الجزیرہ کے مطا بق یہ تمام ڈرون حملے اور بمباری دن کی روشنی میں نہیں بلکہ رات کی تاریکی میں پکتیا اور ننگر ہار کے دور دراز دیہات میں کی گئی ۔ رات کی تاریکی میں گھروں میں زبردستی گھس کر وہاں ملنے والے ہر مرد اور لڑکے کو اٹھا کر کچھ دور پہاڑیوں میں لے جا کر وحشیانہ طریقوں سے تفتیش کی جاتی ہے اور جب اس تفتیش سے کچھ نہیں نکلتا تو انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ۔ کچھ نوجوانوں کو ہیلی کاپٹروں میں بٹھا نے کے بعد فضا سے نیچے پھینک دیا گیا ‘جن کی پاش پاش حالت میں ملنے والی لاشیں امریکی سی آئی اے اور افغان خفیہ ادارے این ڈی ایس کی بر بریت اور پشتونوں کی نسل کشی کے جنون کی بلند آواز سے گواہی دے رہی ہیں۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے جال سے آزاد میڈیا اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے معتبر ادارے افغانستان کے چھوٹے چھوٹے دیہات کے سادہ سے نوجوانوں اور عمر رسیدہ افراد کے اجتماعی قتل عام کی فلمیں اور رپورٹس دیکھنے کے بعد سی آئی اے پر جس طرح برس رہے ہیں اس نے سی آئی اے کو بوکھلا کر رکھ دیا ہے ‘جس سے اسے لینے کے دینے پڑ گئے ہیں ۔
ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں پشتون آبادیوں پر مشتمل نو دیہات میںسی آئی اے اور افغان سپیشل فورس کی بر بریت کے چودہ واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بلیک واٹر اور افغان سپیشل فورس رات کی تاریکی میں ان دیہی علا قوں کے کسی گھر کا دروازہ توڑ کراور کسی کی دیواریں پھلانگ کر بوڑھوں‘ بچوں کی تمیز کئے بغیر سامنے آنے والے ہر ایک کو گولیوں سے بھون رہی ہے۔سب سے افسوسناک رپورٹ بی بی سی‘ الجزیرہ ٹی وی اور آریانا نیوز نے پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ان دیہات کے چھوٹے چھوٹے ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کو سی آئی اے کے تربیت یافتہ افغان ایجنٹوں کے ہاتھوں طاقتور بموں کے ذریعے تباہ کیا جا رہا ہے اور یہ شاید اس لیے کیا گیا کہ خوش قسمتی سے اگر کوئی پشتون مردیا خاتون زخمی ہو جائے تو کوئی ان کا علاج نہ کر سکے اور وہ سسک سسک کر بغیر علاج کے مر جائے۔ امریکی سپیشل فورس اور امریکی ایئر فورس اس آپریشن میں سی آئی اے کی بھر پور مدد کر رہی ہے ۔ یہ رپورٹ ہلاکو خان‘ تاتاریوں‘ ہٹلر‘ داعش اور1857 کی آزادی کی تحریک میں انگریز فوجیوں کے خوفناک جرائم کو مات کر گئی ہے اور یہ سب اس وقت کیا جا رہا تھا جب اپنے زیر اثر میڈیا پر امریکہ زور شور سے تاثر دے رہا تھا کہ طالبان سے امن مذاکرات کامیابی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
28 جولائی2019 ء کو تانی ضلع کے ایک معمولی سے گائوں میں داخل ہونے والی ایک کار کو سی آئی اے اور خوست پروٹیکشن فورس نے جس طرح میزائل کا نشانہ بنا کر کار میں سوار بچوں اور عورتوں کو گاڑی سمیت جلا کر خاکستر کیا‘اس کی منہ بولتی تصویر آج بھی ان کے چینل پر موجود ہے ۔ یہ سب شادی کے بعد دلہن کو لیے اپنے گھر واپس آ رہے تھے ان'' دہشت گردوں‘‘ میں ایک دودھ پیتا بچہ بھی تھا۔افغان پیرا ملٹری فورس جسے امریکی سپیشل فورس نے سخت تربیت دے کر تیار کیا ہے‘ افغانستان کی ایک این جی او ممبر کے گھر جاگھسے اور وہاں اس رکن کے بھائی کو دوسرے کمرے میں لے جا کر کلاشنکوف کے برسٹ سے چھلنی کر کے رکھ دیا اور جاتے ہوئے گھر میں موجود ایک نوجوان لڑکے کو اپنے ساتھ لے گئے‘ جس کا آج تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ امریکی سپیشل فورس کی تربیت یافتہ یہی افغان پیرا ملٹری فورس کے چار یونٹس صوبہ ننگر ہار کے ایک چھوٹے سے گائوں رودات کے ایک گھر میں گھس کروہاں موجود پانچ بھائیوں اور ایک عمر رسیدہ خاتون اور دو سال کے ایک بچے کو گولیوں سے بھون کر چلتے بنے۔ ان کی لاشیں دنیا بھر کے میڈیا کی زینت بن کر افغان سپیشل فورس کی بر بریت کی گواہی دے رہی ہیں۔ رودات سے خوست پروٹیکشن فورس پکتیا صوبے کے ایک گائوں پہنچی جہاں اس نے ایک قبائلی اورصوبائی امن کمیٹی کے رکن ساٹھ سالہ نائم فاروقی اورا س کے بیس سالہ بھتیجے کوبے دردی سے ہلاک کر دیا۔
اس رپورٹ کا سامنے آنا تھا کہ افغان اہل کاروں‘ سول سوسائٹی اور ہیومن رائٹس کی تنظیموں‘ میڈیااور افغان معاشرے کے ذمہ دار لوگوں نے اس قسم کے قتل عام جیسے واقعات کی تصدیق کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ اس رپورٹ کا ایک ایک لفظ سچائی پر مبنی ہے۔ہیومن رائٹس واچ سے گفتگو کرتے ہوئے افغان معاملات کے ماہر سفارت کار نے بتایا کہ افغان سٹرائیک فورس‘ جو بنیادی طور پر افغانستان کی خفیہ تنظیم این ڈی ایس سے لئے گئے ہیں‘ جسے ''ڈیتھ سکواڈ‘‘کے نام سے پکارا جاتا ہے۔