پنجاب اسمبلی کے سپیکر، پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ، اور مسلم لیگ (ق) کے مرکزی رہنما چودھری پرویز الٰہی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں وزیر اعظم عمران خان (اور ان کی حکومت) کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سب کاموں کو چھوڑ کر معیشت اور گورننس کی طرف توجہ دیں۔ حکومت کا یہ کام نہیںکہ گرفتاریوں کے لیے نیب کو مشورے دے۔ احتساب کا کام نیب کے ذمے ہے، اسے اپنا یہ فرض ادا کرنے دینا چاہیے۔ حکومت کا کام حکومت کرنا ہے، گرفتاریاں کرانا نہیں۔ مسلم لیگ (ق) وفاق اور پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی ہے، اور اعداد و شمار کے کھیل میں اس کی حمایت بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ مرکز اور پنجاب‘ دونوں جگہ چند ووٹوں کی اکثریت سے تحریک انصاف حکومت کر رہی ہے۔ اگر مسلم لیگ (ق) اپنا ہاتھ کھینچ لے تو پنجاب حکومت تو فوراً دھڑام سے گر جائے گی، مرکز میں بھی اپنے آپ کو سنبھالنا اس کے لیے مشکل ہو جائے گا۔ چودھری پرویز الٰہی سے پہلے چودھری شجاعت حسین خرابیٔ صحت کے باوجود متحرک ہو چکے تھے، اور انہوں نے صاف الفاظ میں واضح کیا تھا کہ اگر حالات وہی رہے جو کہ ہیں، تو تین سے چھ ماہ میں شاید ہی کوئی ایسا شخص مل پائے گا، جو حکومتی ذمہ داریاں سنبھالنے کو تیار ہو۔ چودھری شجاعت حسین نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی علاج کے لئے بیرون ملک روانگی پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت اسے فوری طور پر ممکن بنائے، اور شرائط عائد کرنے کے چکر میں نہ پڑے۔ چودھری صاحب کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ان کی روانگی میں تاخیر کسی ناقابلِ تلافی نقصان کا سبب بن جائے، اور حکومت کے ماتھے پر کلنک کا ایسا ٹیکہ لگ جائے جسے اتارا نہ جا سکے۔ ان کی یہ دو ٹوک گفتگو پاکستان کی منقسم اور الجھی ہوئی سیاست میں تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوئی تھی، اور صورتِ حال سے بیزار دانش کو اطمینان سا ہوا تھا کہ ابھی ہماری کھیتی بالکل ویران نہیں ہوئی، اس میں ایسے لوگ موجود ہیں جو تعصب اور عناد سے اوپر اُٹھ کر سوچ سکتے، اور اس سوچ کا برملا اظہار کر سکتے ہیں۔
چودھری شجاعت حسین کے مشورے کے باوجود حکومت سابق وزیر اعظم (یا ان کے بھائی شہباز شریف) سے ضمانتی بانڈ بھروانے پر مصر رہی، اور معاملہ لاہور ہائی کورٹ تک لے جانا پڑا، وہاں سے نواز شریف کو بلا شرط سفر کی اجازت دے دی گئی۔ اگر وزیر اعظم اپنے طور پر فیصلہ کر لیتے تو اس سے سیاسی فضا میں اعتدال پیدا ہو سکتا تھا، لیکن اپنی جماعت کے نابالغوں کے زیر اثر ان کے بڑھتے ہوئے قدم رُک گئے۔ سابق وزیر اعظم کو بیرون ملک بھجوانے کے لیے جس ضمانتی بانڈ کا مطالبہ کیا جا رہا تھا، اسے مسلم لیگ (ن) نے تاوان قرار دیا۔ پاکستان کے انتہائی ممتاز ماہرین قانون نے بھی اسے غیر قانونی گردانا۔ بیرسٹر علی ظفر جو حال ہی میں تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں، اور بیرسٹر سینیٹر محمد علی سیف جو حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کا حصہ ہیں، برملا یہ کہہ گزرے کہ قانون میں اس طرح کا بانڈ بھروانے کی کوئی شق موجود نہیں ہے۔ عابد حسن منٹو، رشید رضوی، کامران مرتضیٰ جیسے سینئر اور قابلِ احترام قانون دانوں نے بھی اسی نقطہ نظر کا اظہار کیا۔ سلمان اکرم راجہ اور بابر ستار بھی اسی موقف کے حامی نظر آئے، لیکن حکومت کا مرغا ایک ٹانگ پر کھڑا رہا کہ بانڈ بھروائے بغیر باہر نہیںجانے دیں گے۔ حکومتی ترجمانوں کی رٹ تھی کہ اگر نواز شریف باہر سے واپس نہ آئے تو پھر کیا ہو گا؟ نواز شریف صحت یابی کے بعد راہِ فرار اختیار کر سکتے ہیں، یہ سوچنے کے لیے ''فراست‘‘ کی جس مقدار کی ضرورت ہے، وہ چند سرکاری دماغوں کے سوا کہیں اور دستیاب نہیں تھی۔ یہ بات تو اندھا بھی دیکھ سکتا ہے کہ نواز شریف کا سب سے بڑا اثاثہ ان کی سیاست ہے۔ پورے قد سے کھڑا رہنے کی ضرورت اسی اثاثے کی حفاظت کے حوالے سے تو پیدا ہوتی ہے؎
مجھے ڈر ہے دل زندہ کہیں تُو نہ مر جائے/ کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے
مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے یہی بات دہرائی۔ ان کاکہنا تھاکہ سیاست میں نواز شریف کی کئی عشروںکی انویسٹمنٹ ہے۔ وہ کروڑوں ووٹروں کا اعتمادرکھتے ہیں۔ انہوں نے اس ملک کی بڑی خدمت کی ہے، وہ اپنی اہلیہ کوبستر مرگ پر چھوڑ کر لندن سے پاکستان پہنچے تھے کہ یہاں آکر ہتھکڑیاں پہن سکیں۔ انہیں معلوم تھاکہ انہیں سیدھا زندان خانے لے جایا جائے گا۔ ان کی بیٹی مریم بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ ایسے شخص کے بارے میں یہ کہناکہ بیرون ملک جاکر واپس نہیں آئے گا سب کچھ ہوسکتا ہے، سچ نہیں ہوسکتا۔ لیکن حکومت نے بانڈ بھروانے کو اپنی ضد بنائے رکھا۔ عدالت میں معاملہ جس طرح سلجھے، اورجس طرح کی بھی یقین دہانی لی جائے، چوہدری برادران ضرور یاد رکھے جائیں گے، جنہوں نے سیاسی تعصبات سے اوپر اُٹھ کراپنا کردار ادا کیا اور اپنا قد اونچاکر لیا۔ مسلم لیگ (ن) اور (ق) کے درمیان گزشتہ چند برسوں کے دوران جو چپقلش رہی، اس سے ہر شخص آگاہ ہے۔ نوازشریف جب بیرون ملک سے واپس آئے تھے، اگر اُسی وقت مسلم لیگوں کا اتحاد ہو جاتا تو تاریخ بہت مختلف ہوتی۔ ایسا کیوں نہیں ہو سکا، اس کی وجوہ پر اختلاف ہوسکتا ہے۔ شریف برادران فرشتے ہیں، نہ چودھری برادران۔ دونوں انسان ہیں اورسیاست دان بھی۔ دونوںکی سیاست اپنی ہے، دونوں نے اپنے راستے کھوٹے کئے ہیں اورکشادہ بھی۔ اس سے قطع نظرکہ کس شخص کی کس وقت کیا رائے اور کیا رویہ رہا ہے، بنیادی بات یہ ہے کہ بنیادی انسانی اقدار مرنے نہ پائیں۔ ان کی حفاظت کی جائے۔ سیاست کو جنگ کی طرح نہیں کرکٹ میچ کی طرح کھیلاجائے۔
وزیر اعظم عمران خان نے طویل جدوجہد کی ہے۔ کم و بیش دو عشروںکی سرگرمی کے بعد انہیں ایوانِ اقتدار میں پہنچنا نصیب ہوا ہے۔ ڈھیروں شکایات کے باوجود ان کے شدید تر مخالفین نے بھی ان کے حقِ حکومت کو تسلیم کر لیا تھا۔ وہ مولانا فضل الرحمن کی رائے کے برعکس اسمبلیوں میں جا بیٹھے تھے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہئے تھا کہ حکومت کاروبارِ حکومت کی طرف توجہ دیتی، اور اِدھر اُدھر کی ٹامک ٹوئیوں میں اپنا وقت ضائع نہ کرتی۔ احتساب کے لیے نیب جیسا ادارہ موجود ہے عدالتیں بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہیں تو پھر ان کا کام ان پر چھوڑ دینا چاہیے تھا۔ افسوس ایسا نہ ہو سکا۔ کرپشن کرپشن کی ایسی رٹ لگائی گئی اور الزامات کی ایسی بارش برسائی گئی کہ سننے دیکھنے والوں نے انگلیاں دانتوں میں دبا لیں۔ غیر ملکی دوروں میں بھی کرپشن کا تذکرہ اس طرح ہوا کہ سرمایہ کاروںکا اعتماد اُٹھنے لگا۔ صنعت کاروں، تاجروں، سرکاری افسروںکی مشکیں کسی جانے لگیں۔ نیب اپنا دائرہ کار پھیلاتا چلا گیا۔ ذرا ذرا سی بے قاعدگی یا کوتاہی کے نیچے کرپشن کا پہاڑ تلاش کیا جانے لگا۔ لوگوں میں اعتماد پیدا کرنے بجائے ان کے حوصلے پست کیے جانے لگے نتیجتاً مسائل بڑھتے چلے گئے۔ ترقی کا پہیہ رُک گیا۔ معاشی مشکلات یقینا موجود تھیں، لیکن ان کو ختم کرنے کے نام پر ان میں اضافہ ہوتا نظر آنے لگا۔ چودھری پرویز الٰہی جو مشورہ دے رہے ہیں، اس پر اگر اب بھی عمل ہو جائے تو حالات کو سنبھالنا ممکن ہو جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) یا کسی دوسری جماعت کی طرف سے تاحال مقدمات کی واپسی کا کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا، ان کی طرف سے جو بات کہی جاتی رہی ہے اور کہی جا رہی ہے، وہ یہ ہے کہ حکومت اپنے آپ کو ان معاملات سے الگ رکھے۔ دُنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں حکومتیں مقدمہ بازی یا مقدمہ سازی میں ملوث نہیںہوتیں،متعلقہ اداروں کی خود مختاری یقینی بنا کر، ان کا کام ان پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ قانون اگر غیر منصفانہ ہو، اس میںجھول ہوں، اور اسے مخصوص مفادات اور اغراض کا ٹول (Tool) بنایا جا رہا ہو تو پھر قانون ساز اداروں کو ضرور مداخلت کرنی چاہیے، اس سے آگے بڑھنے یا اس سے پیچھے ہٹنے کے نقصانات یکساں ہو سکتے ہیں... وزیر اعظم عمران خان چودھری رہنا چاہتے ہیں، چودھراہٹ قائم رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں ''چودھری مشوروں‘‘ پر سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)