حالات بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں ۔شاید عمران خان صاحب کو بھی اندازہ نہیں ہوگا کہ ان کے ہاتھ سے معاملات نکل سکتے ہیں ۔ ابھی صحافیوں اور اینکرز سے ان کی جو آخری ملاقات ہوئی تھی اس میں وہ بڑے اعتماد سے بتا رہے تھے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ یہ ہورہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور وزیراعظم ایک ہی پیج پر ہیں۔ اگرچہ کچھ صحافیوں کا یہ خیال ہے کہ جب سے پاکستان جیسے ملک میں یہ معجزہ رونما ہوا ہے اس سے ہوسکتا ہے یہ دو ادارے فائدے میں رہے ہوں‘ لیکن باقی اداروں کو بہت جھٹکے لگے ہیں۔ سب سے بڑا جھٹکا پارلیمنٹ اور میڈیا کو لگا ہے۔ پہلے دن سے ہی حکمران جماعت نے پارلیمنٹ کو سنجیدگی سے لینا بند کردیا اور میڈیا پر بھی چڑھائی شروع کر دی۔ حکمران جماعت کا خیال ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ آپ کے ساتھ ہے تو پھر آپ کو پارلیمنٹ اور میڈیا کی فکر کی ضرورت نہیں ہے‘ اسی لیے عمران خان پارلیمنٹ میں آپ کو نظر نہیں آتے۔ اپوزیشن نے اس کا پورا پورا فائدہ اٹھایا ہے اور وہ جو چاہتے تھے کہ پارلیمنٹ آپ کو بیکار لگے‘ وہی کچھ ہورہا ہے ۔ پارلیمنٹ میں اب کچھ کرنے اور دیکھنے کو نہیں رہ گیا۔ حکومت کو اس کی پروا نہیں رہی ۔ ہاں اس وقت بہت پروا شروع ہوگئی جب خواجہ آصف‘ جو کچھ عرصے سے خاموشی سے وقت گزار رہے تھے‘ اچانک قومی اسمبلی میں گرجے اور خوب گرجے ۔ انہوںنے جس انداز سے تقریر کی اس کے بعد کسی کو شک نہ رہا کہ معاملات عمران خان صاحب کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں اور بعض اہم باتیں بالا بالا طے ہوچکی ہیں‘ جن کا عمران خان کو علم نہیں ہے۔ اس لیے عمران خان اور ان کے وزیر بھی فورا ًچونکے کہ وہ کیا بات ہے ‘جس کا انہیں علم نہیں ہے ‘جبکہ خواجہ آصف کو علم ہے‘ لہٰذا اور کچھ سمجھ نہ آیا تو عمران خان نے فورا ًنواز شریف کی بیرون ملک روانگی میں کچھ ایسی شرائط ڈال دیں جن سے فوری طور پر نواز کیمپ کو جھٹکے لگے ‘کیونکہ ان کا خیال تھا کہ سب کچھ طے ہوچکا تھا ‘لہٰذا نواز شریف کو بیرون ملک جانے سے نہیں روکا جاسکے گا۔ لیکن اس دفعہ عمران خان بھی تل گئے کہ نہیں کچھ ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ اب بھی ملک کے وزیراعظم ہیں‘ یوں نواز شریف کی روانگی رک گئی اور اس پر یقینا خواجہ آصف اور سلمان شہباز کا قصور لگتا ہے ‘جو اپنی خوشی نہ چھپا سکے اور سب کچھ اُگل دیا۔ اس لیے خواجہ آصف اگلے روز پارلیمنٹ میں نئے انداز میں نواز شریف کی روانگی کی بھیک مانگ رہے تھے۔
خواجہ آصف اور عمران خان کا معاملہ بہت پرانا ہے اور دشمنی تقریباً ذاتی ہوچکی ہے۔ عمران خان نے خواجہ آصف کے خلاف کابینہ میں ان کے دبئی میں ماہنامہ پندرہ لاکھ روپے پر نوکری کرنے کے معاملے کو نہ صرف اٹھایا بلکہ ایف آئی اے کو کیس بھیجا۔ یہیں بس نہ کی بلکہ ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کو بلا کر دو تین دفعہ کہا گیا کہ وہ خواجہ آصف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر کے آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کریں‘ تاہم بشیر میمن نے انکار کر دیا‘ جس پر انہیں زبردستی چھٹی پر بھیج دیا گیا۔ اس لیے جب خواجہ آصف کو اندر کی خبر کا پتہ چلا کہ معاملات طے ہوگئے ہیں تو وہ اپنی خوشی پر قابو نہ رکھ سکے اور انہوں نے سب باتیں تقریباً کھول کر اپنی تقریر میں کر دیں جس سے سب ہنگامہ شروع ہوا اور اب تک تھمنے میں نہیں آرہا۔
اگر کچھ کسر رہ گئی تھی تو پرویز الٰہی نے درمیان میں اچانک انٹری ماری اور عمران خان کو واضح پیغام دیا کہ وہ نواز شریف کی روانگی میں مشکلات کھڑی نہ کریں ورنہ نواز شریف کو کچھ ہوگیا تو ساری عمر وہ بھگتیں گے۔ اب یہ بھی سب کو پتہ ہے کہ چوہدری صاحبان بغیر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے میدان میں نہیں اترتے۔ وہ سمجھدار لوگ آرام سے اپنی باری اور اپنے وقت کا انتظار کرتے ہیں۔ اب انہیں احساس ہوا ہے کہ وقت ہے‘ مولانا کے دھرنے کا فائدہ اٹھایا جائے اور عمران خان جو انہیں ڈیرھ سال سے گھاس نہیں ڈال رہے تھے‘ انہیں اپنا اصل سیاسی رنگ دکھایا جائے۔ مولانا کے دھرنے بارے جو پہلے کئی شکوک تھے کہ اسے کچھ اہم لوگوں کی حمایت حاصل ہے وہ شک اب یقین میں بدلتے جارہے ہیں کیونکہ عمران خان کے بارے بتایا جارہا ہے کہ وہ نواز شریف کے معاملے پر اپنے دوستوں کی بات نہیں مان رہے تھے لہٰذا انہیں تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ اس لیے چوہدری صاحبان کا رول اہم حیثیت اختیار کر گیا۔ اگرچہ چوہدریوں اور عمران خان کے تعلقات بیس برس سے کبھی اچھے نہیں رہے‘ لیکن حکومت میں رہتے ہوئے بھی وہ تعلقات بہتر نہ ہوسکے جس کے کچھ مناظر ہمیں نظر آرہے ہیں ۔ پرویز الٰہی اب تک ارشد شریف، ندیم ملک اور سلیم صافی کو انٹرویوز دے چکے ہیں جن میں وہ عمران خان کے لیے بڑے بڑے اشارے اور پیغام چھوڑ رہے ہیں ۔ ان کا جھکائو واضح طور پر نواز شریف کیمپ کی طرف ہے۔ وہ اپنے آپ کو ایک سمجھدار اور اچھا سیاستدان بنا کر پیش کررہے ہیں۔ پرویز الٰہی کیمپ کو عمران خان پر یقینا غصہ ہے‘ وہ ان کے برخوردارر مونس الٰہی کو وزیر بنانے پر تیار نہیں ہوئے۔ عمران خان کو ایک ہی اعتماد تھا کہ جن لوگوں نے چوہدریوں کو ان کے ساتھ ملایا ہے وہی انہیں ملائے رکھیں گے اور انہیں یہ اعتماد تھا کہ وہ طاقتیں ان کے ساتھ کھڑی ہیں‘ لہٰذا فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔ عمران خان کو اندازہ نہ تھا کہ جو اس کے سب سے بڑے حامی ہیں ان کا اعتماد بھی عمران خان سے ختم ہونا شروع ہوگیا تھا۔ یوں پہلے مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کی جھلک کرائی گئی تو ساتھ ہی چوہدری پرویز الٰہی کو اچانک سامنے لایا گیا کہ وہ عمران خان کوسیاست کی نزاکتیں سمجھائیں اور اب دھیرے دھیرے عمران خان کے سب سیاسی حلیف بھی نواز شریف کی روانگی پر یک زبان ہوتے جارہے ہیں۔ چوہدریوں اور شریفوں کو قریب لایا جارہا ہے۔ اس دوران میں وزیر اعظم عمران خان سے آرمی چیف کی ملاقات ہوئی جس کی تصویروں سے صاف لگ رہا ہے کہ معاملات کچھ گمبھیر ہیں‘ جن پر دونوں کو گفتگو کرنی ہے۔ امتیاز گل بہت اہم صحافی ہیں‘ انہوںنے جو اس ملاقات پر ٹوئٹ کیا ہے اس میں انہوں نے واضح لکھا ہے کہ وزیراعظم اور آرمی چیف میں ملاقات کا صرف ایک ہی ایجنڈا تھا اور وہ تھا نواز شریف کی بیرون ملک روانگی۔ اب جو کچھ لاہور ہائی کورٹ میں ہفتے کے روز ہوا اور جس طرح وفاقی حکومت اپنے پرانے موقف میں تبدیلی لانے پر راضی ہوئی اس سے صاف لگ رہا ہے کہ امتیاز گل کی خبر درست ہے اور عمران خان کو سمجھایا گیا ہے کہ کوئی ایسی ضد نہ کی جائے جس کی قیمت بعد میں سب کے لیے ادا کرنی مشکل ہوجائے۔ اب اس دوران یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ آرمی چیف سے ملاقات کے بعد وزیراعظم دو دن کی چھٹی پر چلے گئے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ نارمل چھٹی پر ہوں‘ لیکن جس طرح کے حالات میں وہ چھٹی پر جارہے ہیں اس کے بعد یقینا سوالات ذہنوں میں اٹھیں گے۔
بہرحال حکومت میں اٹھنے والے اس نئے بحران کا سب سے بڑا فائدہ شریف خاندان اور چوہدری پرویز الٰہی اٹھانے کے موڈ میں لگ رہے ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ مولانا کو بھی انہوں نے کچھ باتوں پر راضی کر کے بھیجا ہے کہ وہ کچھ ماہ صبر کریں ۔ ہوسکتا ہے تین ماہ بعد وہ بھی ان کے ساتھ کھلے عام کھڑے ہوں اور درمیان میں کچھ ضامن بھی پڑے ہیں جنہوں نے مولانا کو کہا کہ کچھ دن اور انتظار کر لیں۔ ہوسکتا ہے اس دوران عمران خان نے زیادہ ردعمل دیا تو پنجاب میں عثمان بزدار کو گرانے کے لیے چوہدری کچھ اہم اقدامات لیں ۔ بہرحال یہ بات طے ہے کہ خواجہ آصف اگرچہ جذباتی ہوکر راز اگل بیٹھے ہیں‘ جو ہمیں پتہ ہے وہ آپ کو پتہ نہیں ہے‘ لیکن اندورنی کہانی یہ ہے کہ جو اسلام آباد کی غلام گردشوں میں چل رہا ہے اس کا عمران خان اور ان کی پارٹی کو واقعی پتہ نہیں ہے‘ کیونکہ جس طرح حالات بدلتے جارہے ہیں وہ ان سے نہ صرف بے خبر ہیں بلکہ بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے مطمئن ہیں کہ بلا ٹل گئی ہے۔
اندر کی خبر یہ ہے کہ بلا ٹلی نہیں ہے‘ بلکہ وہ بلا بے خبر اور مطمئن کبوتر کی طرف دھیرے دھیرے قدم اٹھاتے چل پڑی ہے۔ دیکھتے ہیں یہ بلی کبوترکی گردن دبوچنے میں کتنا وقت لیتی ہے۔