تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     17-11-2019

پاکستان چیئرز: ایک دہائی کا انتظار

پوری دنیا میں طاقت کا تصور بدل رہا ہے۔ طاقت کا مرکز اب روایتی جنگی ہتھیار نہیں بلکہ علم کی تحقیق ہے۔ اس کے نتیجے میں جو ممالک علم کے میدان میں آگے ہوں گے وہی ترقی کی دوڑ میں بھی بازی لے جائیں گے۔ اسی طرح بالا دستی کا تصور بھی سافٹ پاور سے جوڑ دیا گیا ہے۔Josph Nye کی کتاب سافٹ پاور (Soft Power) کا بنیادی نکتہ ہی یہ ہے کہ اب روایتی ہتھیاروں کے بجائے دوسرے ممالک کو اپنی پُر کشش اور دلفریب پالیسیوں سے فتح کیا جا سکتا ہے۔ یہ سافٹ پاور کسی بھی ملک کی زبان، ادب‘ تعلیم، ثقافت اور تہذیب سے جنم لیتی ہے اور جغرافیائی سرحدوں کو پار کرتی ہوئی ذہنوں کو تسخیر کرتی ہے۔ یوں یہ سافٹ پاور اس ملک کی مثبت پہچان اجاگر کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔
حکومتِ پاکستان کی طرف سے مختلف ممالک کی جامعات کے لیے چودہ چیئرز کا اعلان کیا گیا ہے۔ ان چیئرز کا بنیادی مقصد پاکستان کی زبان، تاریخ اور ثقافت کو میزبان ممالک کی یونیورسٹیوں میں متعارف کرانا ہے۔ ماضی میں ان چیئرز پر مختلف پاکستانی سکالر مختلف ممالک کی جامعات میں فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں۔ اپنے تین سالہ قیام کے دوران چیئرز پر فائز سکالرز کے فرائض میں درج ذیل چیزیں شامل ہیں:
-1 اپنے مضمون اور تحقیق کے حوالے سے ایک یا ایک سے زیادہ کورس پڑھانا۔ 
-2 تین سالہ دورانیہ میں ایک کانفرنس کا انعقاد اور کانفرنس میں پڑھے جانے والے مضامین کو یکجا کر کے شائع کرانا۔
-3 یونیورسٹی کے سائوتھ ایشیا سٹڈیز پروگرام سے رابطہ اور متعلقہ شعبوں کے ساتھ پاکستان کے حوالے سے تحقیق۔
-4 یونیورسٹی میں پاکستان کے حوالے سے ہونے والے تقریبات میں شرکت اور پاکستان کے بارے میں متوازن رائے کا اظہار۔
-5 مختلف شعبوں کے اساتذہ سے رابطہ تا کہ پاکستان کے حوالے سے مختلف موضوعات پر تحقیق کرائی جا سکے۔
-6 ان اساتذہ اور طلباء کے لیے ریسورس پرسن کے طور پر کام کرنا جو پاکستان کے حوالے سے تحقیق کرنا چاہتے ہوں۔
-7 اساتذہ اور طلباء کی پاکستان کے مختصر دوروں اور کانفرنسوں میں شرکت کے لیے حوصلہ افزائی کرنا۔
-8 متعلقہ شعبوں کے ساتھ رابطے تاکہ پاکستانی سکالرز اور دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو مدعو کیا جا سکے۔
-9 یونیورسٹی کے ایڈمیشن آفس اور دوسرے کلیدی شعبوں سے رابطہ تاکہ پاکستانی طلباء کے داخلوں کے عمل میں سہولت دی جا سکے۔
-10 یونیورسٹی میں پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ مل کر کام کرنا اور مختلف تقریبات کے انعقاد میں انہیں مشورے دینا۔
-11 پاکستان چیئرز پر فائز سکالرز کے فورم کا حصہ بننا تاکہ کارکردگی کا جائزہ لیا جا سکے اور کامیاب کارکردگی سے سیکھا جا سکے۔
-12 میزبان یونیورسٹی میں مختلف شعبوں میں کامیاب اکیڈیمک گورننس کا بغور مطالعہ۔
یوں یہ چیئرز مختلف ممالک میں پاکستان کی سفارت کاری کا ایک موثر ذریعہ ثابت ہو سکتی ہیں اور دو طرفہ تعلقات میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے بیرونی دنیا میں پاکستان کے حوالے سے بہت سی غلط فہمیاں پھیلائی گئیں۔ ان میں سے بہت سی غلط فہمیوں کا جواب پاکستان چیئرز کے ذریعے ممکن تھا لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ پاکستان کی چیئرز پچھلے تقریباً دس سال سے خالی پڑی ہیں‘ تعلیم کے حوالے سے ہماری حکومتوں کی بے حسی کی ایک داستان ہے۔ پاکستان تعلیم کے میدان میں پہلے ہی جنوبی ایشیا کے ممالک سے پیچھے ہے۔ بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان سب ہی شرح خواندگی کے حوالے سے پاکستان سے آگے ہیں۔ اسی طرح پاکستان تعلیم کے حوالے سے جو فنڈز فراہم کرتا ہے وہ جنوبی ایشیا کے ممالک میں کم ترین سطح پر ہیں۔ پاکستان کے اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں، پینتیس فیصد بچے پانچویں جماعت تک پہنچنے سے پہلے ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ ایلیٹ اور نان ایلیٹ سکولوں میں حد درجہ تفاوت ہے۔ یونیورسٹیوں کی فنڈنگ میں غیر معمولی کمی ہو گئی ہے جس سے بہت سی سرکاری جامعات کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ یہاں بھی پاکستان کا نمبر بالکل آخر میں آتا ہے۔ پچھلے سال تک پاکستان اپنی جی ڈی پی کا محض 2.2 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا تھا۔ ماضی میں سیاستدان اکثر بلند بانگ دعوے کرتے رہے لیکن ان پر عمل درآمد کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہ ہوئی۔ سابق وزیر اعظم جناب شوکت عزیز نے اعلان کیا تھا کہ تعلیم کے لیے جی ڈی پی کا 4 فیصد مختص کیا جائے گا۔ اس اعلان کو قریب دو عشرے ہونے کو ہیں لیکن آج بھی تعلیم کے لیے ہمارا فنڈ جی ڈی پی کا محض 2.2 فیصد ہے۔ 2009ء کی تعلیمی پالیسی میں یہ کہا گیا تھا کہ حکومت 2015 تک جی ڈی پی کا 7 فیصد تعلیم کے لیے مختص کرے گی اور اس کے نفاذ کے لیے ضروری اقدامات کرے گی۔ اس دعوے کے مطابق 2015ء تک جی ڈی پی کا 7 فیصد حصہ تعلیم کے لیے مختص ہونا چاہیے تھا‘ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ 2013-14 میں تعلیم کے لیے مختص رقم جی ڈی پی کا 2.1 فیصد تھی۔ 2014-15 میں 2.2 فیصد‘ 2015-16 میں 2.3 فیصد، 2017-18 میں یہ فنڈنگ کم ہو کر 2.2 فیصد رہ گئی۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا داخلی منظرنامہ ہے لیکن پچھلے دس سالوں سے پاکستان چیئرز کے معاملے پر مختلف حکومتوں کی بے حسی نا قابلِ فہم ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلے برسوں میں ان چیئرز کا اشتہار تین بار دیا گیا۔ تینوں بار انٹرویوز بھی ہوئے لیکن نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر یہ عمل ابھی تک مکمل نہیں ہوا۔
2015 میں اشتہار آیا‘ امیدواروں نے درخواستیں دیں، انٹرویوز ہوئے لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ 2018 میں چودہ پاکستانی چیئرز کے لیے اشتہار دیا گیا۔ ان میں چین کی پیکنگ یونیورسٹی، مصر کی جامعۃ الاظہر اور قاہرہ یونیورسٹی، جرمنی کی ہائیڈل برگ یونیورسٹی، امریکہ کی کو لمبیا یونیورسٹی اور برکلے یونیورسٹی ، برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی اور کیمرج یونیورسٹی، ترکی کی انقرہ یونیورسٹی، ہانگ کانگ کی بیٹیسٹ یونیورسٹی، ایران کی تہران یونیورسٹی، اردن کی عمان یونیورسٹی، نیپال کی کٹھمنڈو یونیورسٹی اور قازقستان کی الماتی یونیورسٹی شامل تھیں۔ انٹرویو کمیٹی میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، کیبنٹ ڈویژن اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے نمائندے شامل تھے۔ انٹرویوز مکمل کر لیے گئے تھے اور سو سے زائد امیدواروں میں سے 28 امیدوار شارٹ لسٹ کر لیے گئے تھے لیکن اس بار بھی سارے عمل کو مکمل نہ کیا جا سکا۔ اسی دوران پی ٹی آئی کی حکومت آ گئی۔ پہلے انٹرویوز کے نتائج کو ختم کر کے ایک بار پھر سے اشتہار دیا گیا۔ امیدواروں کے انتخاب کے لیے ایک نئی کمیٹی بنائی گئی جس میں وفاقی یونیورسٹیوں کے تین وائس چانسلرز اور وزیرِ تعلیم بھی شامل تھے۔ جو لائی میں انٹرویوز مکمل ہو گئے لیکن اس کے بعد سے اب تک چار مہینے گزرنے کے باوجود کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکا۔ اس سارے عمل میں غیر ضروری تاخیر کے بعد کچھ امیدواروں نے وفاقی محتسب آفس سے رجوع کر لیا ہے۔ یہ ساری صورتحال افسوسناک ہے۔ یہاں یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ بھارت نے مختلف ممالک کی جامعات میں تین سو کے قریب چیئرز قائم کی ہوئی ہیں‘ جہاں ان کے نمائندے اپنے ملک کی زبان، تاریخ اور ثقافت کی سفارت کاری میں مصروف ہیں۔ یوں ان کا پیغام کتنے ہی ممالک کے طلباء اور اساتذہ تک پہنچتا ہے اور ان کا ایک مثبت تشخص ابھرتا ہے۔ اس طرح ایک ملک کا بیانیہ مختلف ملکوں کی درس گاہوں سے ہوتا ہوا پالیسی سازوں کے بیانیے کو متاثرکرتا ہے۔ یہ چیئرز سافٹ پاور اپروچ کا حصہ ہیں‘ جن کے ذریعے توپ و تفنگ کے استعمال کے بغیر ذہنوں کو تسخیر کیا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کے منشور میں تعلیم کا کلیدی مقام ہے۔ خود وزیرِ اعظم عمران خان تعلیم کو مرکزی اہمیت دیتے ہیں جس کا اظہار قوم سے ان کا پہلا خطاب ہے۔ وزیرِ تعلیم شفقت محمود ہیں جنہیں میں ذاتی طور پر ایک موثر منظم اور استاد کے طور پر جانتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ پاکستان چیئرز کے حوالے سے وہ فوری اقدامات کریں گے اور یوں سفارت کاری کے اس ایک انتہائی اہم ذریعے کو بحال کریں گے‘ جو پچھلی ایک دہائی سے غیر مؤثر ہو کر رہ گیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved