سابق وزیر اعظم نواز شریف کی دوران حراست شدید علالت اور پھر ضمانت، بیرون ملک علاج کے لیے ای سی ایل سے نام نکالنے نہ نکالنے کی کشمکش، مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ، دو ہفتوں کا دھرنا اور پھر پلان بی کے تحت ملک بھر کی اہم سڑکوں کی بندش، یہ وہ موضوعات ہیں جو قومی میڈیا پر کئی ہفتوں سے چھائے ہوئے ہیں۔
این آر او نہ دینے کے اعلانات سے نواز شریف کی ضمانت اور مولانا کے دھرنے تک، قدم قدم پر سازشی مفروضے گردش کرتے رہے لیکن اب تک کوئی مفروضہ شواہد کے ساتھ حقیقت ثابت نہیں ہوا، اس کے باوجود یہ سازشی مفروضے پوری شدت کے ساتھ سیاسی و عوامی حلقوں میں زیر بحث ہیں۔
نواز شریف کو ضمانت ملنے کے بعد ای سی ایل سے نام نکالنے کا وعدہ کرتی حکومت اچانک پیچھے کیوں ہٹی؟ مولانا فضل الرحمن استعفے اور حکومت گرانے تک پشاور موڑ سے نہ اٹھنے کے عزم سے کیسے دستبردار ہوئے؟ اس سب پر بھی اندازے قائم کئے جا رہے ہیں۔ حقیقت تو بنیادی فریقوں کے درمیان ایک راز ہے جس کی پردہ داری میں ہی سب کو عافیت نظر آ رہی ہے لیکن چند بیانات اور سیاسی اقدامات سے ایک منظر تشکیل پاتا نظر آتا ہے۔
میاں محمد نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن سیاسی منظرنامے اور میڈیا پر چھائے نظر آتے ہیں لیکن مسلم لیگ ق بھی اچانک اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کی ناکامی کے بعد چوہدری برادران نمودار ہوئے اور مولانا کے کان میں ایسا منتر پھونکا کہ وہ عجلت میں دھرنا سمیٹ کر چل دیئے۔ اب چوہدری پرویز الٰہی نے انکشاف کیا ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے 'انڈر سٹینڈنگ‘ کے تحت اسلام آباد مارچ ختم کیا۔ معاملات طے ہونے کے بعد مولانا اسلام آباد سے روانہ ہوئے، مولانا فضل الرحمن کو ہم نے جو دے کر بھیجا وہ 'امانت‘ ہے۔
چند روز قبل ایک ٹی وی انٹرویو میں چوہدری شجاعت حسین نے کہا تھا کہ بڑھتی مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے کوئی بھی وزیراعظم بننے کو آمادہ نہیں ہو گا۔ یہ ڈیڈ لائن تین سے چھ ماہ تک بڑھائی جا سکتی ہے کیونکہ حالات ایسے ہو چکے ہیں کوئی بھی ملک کے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ قبول کرنے کو تیار نہ ہو گا۔
حکمران جماعت نے قومی اسمبلی میں قواعد کو بلڈوز کرتے ہوئے ایک ہی دن میں نو آرڈیننس منظور کرائے تھے۔ اس کے جواب میں اپوزیشن نے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی، جو اس اجلاس کی صدارت کر رہے تھے، کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی، لیکن حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کے بعد اپوزیشن نے ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد جبکہ حکومت نے منظور کیے جانے والے نو آرڈیننس واپس لے لیے۔ وزیر دفاع پرویز خٹک نے کہا کہ آئندہ ایسا ماحول پیدا نہیں ہو گا کہ کسی کی دل آزاری ہو، مل کر فیصلے کریں گے۔
قومی اسمبلی میں تحریک انصاف نے لچک کیوں دکھائی؟ صرف نو ووٹوں کی برتری پر کھڑی حکومت کو مسلم لیگ ق سمیت اتحادیوں نے مولانا کے دھرنے کے موقع پر اپنی اہمیت کا احساس تو دلا دیا ہے لیکن کہیں نہ کہیں کوئی کھچڑی بھی پک رہی ہے۔ وفاق اور پنجاب میں اتحادی جماعتیں بالخصوص ق لیگ کے ارکان حکومت کی بقا کے لئے بے حد ضروری ہیں۔
ماضی میں ایسی اطلاعات سامنے آ چکی ہیں کہ دونوں جماعتوں کے درمیان ق لیگ کے کابینہ میں حصے کے حوالے سے اختلافات پیدا ہو چکے ہیں۔ چوہدری برادران روایات اور اقدار کی پاسداری کرتے ہیں، نواز شریف کی بیماری پر ان کا ہمدردانہ رویہ انہی روایات اور اقدار کا نتیجہ ہو سکتا ہے‘ لیکن حکمران جماعت میں خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ سروسز ہسپتال کے میڈیکل بورڈ میں شامل اکثر ڈاکٹرز پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کے دور میں بھرتی کئے گئے تھے۔ پرویز الٰہی اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں اور ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے ذاتی طور پر ٹیلی فون کر کے ان ڈاکٹروں سے نواز شریف کی خیریت دریافت کی تھی۔
نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے پر حکمران جماعت نے جو پالیسی اپنائی اور اس کے اپنے وزرا نے اس کی جو وضاحت کی اس کے مطابق وہ اپنے ووٹر کو مطمئن رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ پالیسی کس قدر کامیاب ہے اس کا اندازہ گیلپ پاکستان کے تازہ سروے سے ہوتا ہے۔ گیلپ پاکستان کے سروے کے مطابق 53 فیصد لوگوں نے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کی حمایت کی ہے جبکہ 44 فیصد اس کے مخالف ہیں۔ اس سروے میں نواز شریف کو اجازت دینے کی حمایت کرنے والوں کی تعداد حکومتی فیصلے کی مقبولیت کا پتہ دے رہی ہے۔
چوروں لٹیروں کو ملک سے بھاگنے نہ دینے کا عزم رکھنے والے وزیر اعظم اب یہ کہتے پائے جا رہے ہیں کہ شریف خاندان نواز شریف کی صحت پر سیاست کر رہا ہے 'ضمانتی بانڈ نہ دینا سمجھ سے بالاتر ہے، حکومت نے ان سے کون سے پیسے مانگ لئے ہیں؟‘ ان کی جگہ میں ہوتا تو کسی بھی قسم کی گارنٹی دے کر اپنے بھائی کا علاج کراتا۔ کپتان کا یہ بیان ان کی حکومت کی طرف سے نواز شریف کی لاہور ہائیکورٹ میں درخواست کی مخالفت کے بعد آیا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ کپتان اور ان کی حکومت‘ دونوں یکسوئی کھو چکے ہیں۔
نئے سیاسی حالات میں کپتان ایک بار پھر حکومتی صفوں کو سیدھا اور مضبوط کرنے میں بھی لگ گئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ مرکز اور دونوں صوبوں میں جو وزراء ڈیلیور نہیں کریں گے وہ گھر جائیں گے 'پہلے بھی کہا تھا جس کی کارکردگی ٹھیک نہیں ہو گی اسے فارغ کریں گے‘ میں نے اپنا کام مکمل کر لیا‘ بہت جلد اس کا اعلان کروں گا۔ بار بار کابینہ کی صفائی اور وزرا کو فارغ کرنے کی دھمکی دینے والے وزیر اعظم ماضی میں کہا کرتے تھے کہ کپتان اچھا ہو تو کمزور ٹیم کے ساتھ بھی پرفارم کر سکتا ہے۔
عوام کا اصل مسئلہ مہنگائی اور بیروزگاری ہے لیکن حکومت ان مسائل کو مسائل ماننے پر تیار نہیں۔ مہنگائی پر کپتان کا تازہ بیان اس کا عکاس ہے۔ ان کا فرمان ہے کہ ملک میں مصنوعی مہنگائی دکھا کر حکومت کو ناکام بنانے کی سازش ہو رہی ہے۔ روزگار کے معاملے پر وزرا پہلے ہی کہتے آئے ہیں کہ ملازمتوں کی فراہمی حکومتوں کا کام نہیں۔ جو ایک کروڑ ملازمتوں کے وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے ان کے یہ بیانات عوام میں پارٹی کی جڑیں کھودنے کا کام کر رہے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے عوام کو گھروں میں محصور ہوئے سو دن سے اوپر ہو چکے ہیں اور حکمران کامیاب خارجہ پالیسی اور بھارت کی سفارتی ناکامی کا ڈھنڈورا پیٹ کر پاکستانی عوام اور کشمیریوں کو مطمئن کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ حکمران جماعت کا یہ بیانیہ عوام میں کس قدر قبولیت پاتا ہے‘ اس کا اندازہ مشکل نہیں، صدر آزاد کشمیر نے ایک بیان دے کر حکومت کے اس بیانئے کی قبولیت کا راز بھی کھول دیا ہے۔
اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام ''جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا میں امن و ترقی‘‘ کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر آزاد کشمیر نے کہا: پاکستان میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ بھارت ناکام اور ہم کامیاب جا رہے ہیں، یہ غلط ہے‘ بھارت بابری مسجد کے بعد مزید اقدامات کرے گا، اس نے بھارت میں مسلمانوں اور پاکستان کو ہدف بنا رکھا ہے وہ کیسے ناکام ہے؟؟
قومی سیاست، عوامی مسائل اور حکومتی پالیسیوں کے نتائج کا یہ ایک چھوٹا سا جائزہ اخبارات میں دو دن کے دوران شائع خبروں سے لیا گیا ہے۔ کون کہاں کھڑا ہے؟ عوام کتنے مطمئن ہیں؟ سیاست میں نئے مد و جزر کتنے عرصے میں دوبارہ نمودار ہوں گے؟ کپتان اچھا ہو تو کمزور ٹیم بھی اچھا ڈیلیور کرتی ہے کا بیانیہ اب کتنی دیر چلے گا؟ منظر نامہ واضح ہے اور عقل مندوں کے لیے اس میں نشانیاں ہیں۔