کچھ باتیں سمجھ آنا مشکل ہے چاہے ساری عمر گزر جائے۔
چلیے آپ ہی بتائیے۔ کیا یہ گورکھ دھندا کبھی آپ کی سمجھ میں آیا ہے کہ جمہوریت پسند کون ہوتا ہے اور جمہوریت دشمن کون؟ بلکہ اس کو بھی چھوڑیں۔ اپنے ہاں کی جمہوریت بھی کبھی سمجھ آئی ہے؟ کیا کبھی پتہ چلا ہے کہ ملک دشمن کی شناخت کیا ہے اور محب وطن کی نشانی کیا؟کیا کبھی ٹھیک سے علم ہوا کہ عوام کی خدمت کرنے والا کون ہے اور عوام کا کچومر نکالنے والا کون؟ ملک کو بلندی پر لے جانے والا کیسا ہوتا ہے اور تنزلی کے راستے پر چلانے والے کیسے ہوتے ہیں؟ کیا کبھی معلوم ہو سکا کہ ان دو ٹانگوں والی رنگ بدلتی مخلوق میں اچھا سیاست دان کون ہے اور برا کون؟ اسٹیبلشمنٹ اچھی کون سی ہوتی ہے اور بری کون سی؟
ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کو ملک بیچ دینے والا اور جمہوریت کش جابرانہ نظام مسلط کرنے والا قرار دے کر اوپر آئے۔ پھر جس جمہوریت کے راگ الاپتے تھے اسی کی بنیاد پر اکثریت کا ووٹ لے کر آنے والے مجیب الرحمن کو اقتدار منتقل کرنے سے انکار کر دیا‘ اس بنیاد پر کہ وہ ملک دشمن ہے۔ غیظ و غضب کے عالم میں فرمایا کہ اسمبلی کی حلف برداری کے لیے ڈھاکہ جانے والوں کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ چند ماہ نہ گزرے تھے کہ ریاست کی اپنی ٹانگیں ٹوٹ گئیں۔ ملک دو ٹکڑے ہو گیا۔
بھٹو کے کرسی پر بیٹھتے ہی اقتدار سے باہر مسلم لیگی دھڑے، جے یو آئی، اے این پی وغیرہ اکٹھے ہو گئے۔ اس بنیاد پر کہ بھٹو جمہوریت کش ہے اور اس نے ملک میں فسطائی نظام قائم کر دیا ہے۔ جواباً حکومت نے غداری، جمہوریت دشمنی کے الزام لگائے اور انہی سیاست دانوں کو رگیدنا شروع کر دیا جن کے ساتھ مل کر ایوب خان کے خلاف اکٹھے ہوئے تھے۔ مخالفین نے ہر برا الزام بھٹو کے سر تھوپا اور اسی میں بھٹو کا اقتدار ختم ہو گیا۔ جنرل ضیا الحق کا دور آیا۔ ہر قسم کی جماعتیں ان کے خلاف اکٹھی ہو گئیں اور ہر قسم کے الزامات کی بھرمار ہو گئی۔ جواباً حکومت نے مخالفین کو ڈرانے، بھگانے اور ملک دشمن قرار دینے کا ہر قدم اٹھایا۔ بے نظیر وزیر اعظم بنیں تو اقتدار سے باہر جماعتیں خاص طور پر مسلم لیگ انہیں ہر سانس میں ملک دشمن اور پنجاب دشمن قرار دیتے نہ تھکتی تھیں۔ اس وقت کے وزیر داخلہ پر سکھ مزاحمت کاروں کی فہرستیں بھارت کے حوالے کرنے کا الزام لگا۔ یعنی حکومت سکیورٹی رسک بھی بن گئی۔ بالآخر صدر غلام اسحاق خان نے سنگین نوعیت کے الزام لگا کر وزیر اعظم کو چلتا کیا۔ میوزیکل چیئرز کے اگلے رائونڈ میں نواز شریف کرسی پر بیٹھ گئے تو بے نظیر اور حامی جماعتیں انہیں کرپشن اور پنجاب گردی کا مرتکب قرار دیتی رہیں۔ ایک بار پھر بے نظیر کی باری آئی تو اب نواز شریف نے کسی طرح چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ ان کے شوہر بھی مسٹر ٹین پرسنٹ بن کر اہداف میں شامل ہو گئے۔ اب اس آواز میں تمام سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔ کھینچا تانی کے دوران ہی فاروق لغاری نے انہیں چلتا کر دیا۔ دوبارہ نواز شریف آئے تو پیپلز پارٹی نے انہی سب لیڈروں اور جماعتوں سے رابطہ کیا جو ان کے دورانِ اقتدار انہیں ہر لقب سے نواز چکے تھے۔ اب حسب معمول وزیر اعظم نواز شریف جمہوریت کش اور فاشسٹ قرار پائے۔ حسب معمول حکومت نے حکومت سے باہر لیڈروں کو ملک دشمن اور ڈکٹیٹر شپ کو دعوت دینے والوں کے نام سے یاد کیا۔ پھر واقعی ڈکٹیٹر شپ دونوں ہاتھوں میں پلّے لے کر برآمد ہوئی تو محمود و ایاز پھر ایک صف میں کھڑے ہو گئے یعنی صف مخالف میں۔
اب پرویز مشرف جمہوریت کا قاتل ٹھہرا اور بے نظیر، نواز شریف جمہوریت کے علم بردار۔ جواباً پرویز مشرف انہیں سکیورٹی رسک، نا اہل اور ہائی جیکر قرار دیتے تھے۔ مسلم لیگ قاف، ایم ایم اے‘ جو حکومت کا حصہ تھیں‘ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی زبان میں بے حمیت اور ضمیر فروش ٹھہریں۔مشرف کو انہی سکیورٹی رسک بے نظیر کی ضرورت پڑ گئی تو ابو ظہبی پہنچ گئے اور قومی مفاہمت کے نام پر این آر او بھی جاری ہو گیا۔ بے نظیر اگلی دنیا کو روانہ ہو گئیں اور آصف زرداری مسند نشین ہوئے تو اب اس کا نام مسلم لیگ کی زبان میں زرداری مداری تھا اور انہیں سڑکوں پر گھسیٹنا نصب العین۔ ان کے خلاف سب ایک ہو گئے۔ اب وہ جمہوریت فروش تھے اور ایک نمبر عوام دشمن۔ اب آصف زرداری نے وہی راگ الاپنے شروع کیے جو حالیہ حکمران اور سابق حزب مخالف الاپا کرتے ہیں۔ خدا خدا کر کے تیسری بار نواز شریف صاحب کی باری آئی تو اب وہ ملک کے کرپٹ ترین حکمران تھے جنہوں نے اربوں ڈالر لوٹ کر ملک سے باہر بھیج دئیے تھے۔الزامات لگانے میں پیپلز پارٹی بھی شامل تھی لیکن بلند آواز عمران خان کی تھی جنہوں نے مالی، انتظامی، سیاسی غرضیکہ ہر قسم کی کرپشن کا ذمے دار شریف خاندان کو قرار دیا۔ یعنی ہر برائی، ہر خامی اور ہر زوال کی ذمہ داری اسی خاندان پر تھی اور کوئی اچھائی سرے سے تھی ہی نہیں۔ عمران خان اب طاقت پکڑ چکے تھے‘ سو انہیں باقی مخالف جماعتوں کے ساتھ ملنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی اور تازہ بیانیہ انہوں نے یہ اپنایا کہ یہ سب میرے مخالف ہیں اور سب کرپٹ ہیں۔ نیز سب آپس میں ملے ہوئے ہیں۔
یہ بات لوگوں کو اس لیے زیادہ متاثر کن لگی کہ یہ سب پارٹیاں کئی کئی بار اقتدار میں رہ چکی تھیں اور لوگوں کے اصل مسائل اسی طرح تھے لیکن عوام کا اپنا ایک انتقام ہوا کرتا ہے۔ ووٹ کا انتقام۔ اس انتقام نے ایک طرف مسلم لیگ کے پاؤں سے لاہور سمیت بڑے مضبوط گڑھ نکال دئیے اور دوسری طرف پیپلز پارٹی کو پورے ملک سے نکال کر سندھ کے دیہی علاقے میں محدود کرکے رکھ دیا۔ شاید جماعت اسلامی وہ واحد بڑی سیاسی جماعت ہے جسے پی ٹی آئی نے الزامات سے معاف رکھا اور اس کے ساتھ سیاسی حلیف بھی بنے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی‘ جماعت کے رہنماؤں کا عام طور پر صاف دامن۔ دوسری‘ سیاسی ضرورت، اور تیسری اور سب سے بڑی بات‘ یہ کہ وہ فی الوقت اور مستقبل قریب میں پی ٹی آئی کی حریف بننے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ لیکن اگر کبھی اس کی ایسی پوزیشن ہوئی تو پی ٹی آئی کی پوزیشن بھی مختلف ہو گی۔
اور اب ذرا یہ تازہ منظر دیکھ لیں۔ عمران خان تخت پر ہیں۔ وہ تمام لوگ جن کے ساتھ مل کر عمران خان پرویز مشرف اور پرویز الٰہی کے خلاف تھے اور انہیں مختلف القابات سے یاد کرتے تھے، اب تخت کے نیچے کھڑے ہو کر عمران کے خلاف متحد ہیں اور عمران کی ہر مخالفت کا ہدف بھی وہ سب ہیں۔ بغل میں بیٹھی قاف لیگ چونکہ سیاسی مجبوری ہے اس لیے اس کی عوام دشمنی فراموش ہو چکی ہے۔ پیپلز پارٹی، نون لیگ، جے یو آئی اور اقتدار سے باہر جماعتیں عمران پر نااہلیت، عوام دشمنی، کشمیر کا سوداگر جیسے الزامات میں یک زبان ہیں۔ مزید کہ مولانا فضل الرحمن خان صاحب کو یہودی ایجنٹ بھی قرار دیتے ہیں اور وزیر اعظم کی زبان سے ڈیزل کا لقب سنائی دیتا ہے۔ وہی وزیر اعظم جو بین الاقوامی سطح پر اپنا مقام ایک مدبر کے طور پر بنا چکے ہیں، ملکی جلسوں میں خطاب کرتے ہیں تو انتقامی جذبات پر قابو نہیں پاسکتے۔ ان کے بیشتر ملکی خطابات دراصل ایک ہی تقریر ہوتے ہیں جس میں وہ سیاسی مخالفین کو رگڑا لگانے کے لیے وہی گھسی گھسائی باتیں کرتے ہیں جنہیں سن سن کر لوگوں کے کان پک چکے ہیں۔ اب وہ ایسی تقریر کے خود ہی مقرر ہیں اور خود ہی ان سے متاثر ہونے والے واحد سامع۔
بتائیے اب۔ کچھ سمجھ میں آیا؟ اس طویل تاریخی ریکارڈ کے ساتھ آپ یہ طے کر دیجیے کہ ملک دشمن، عوام دشمن، سکیورٹی رسک، فاشسٹ، کرپٹ ترین شخص، جمہوریت کش دراصل ہے کون؟ اور جب آپ یہ طے کرکے مجھے بتائیں گے تو میں اسی تاریخی ریکارڈ سے ثابت کردوں گا کہ نہیں جن کے نام آپ لے رہے ہیں‘ وہ سب محب وطن، عوام دوست، جمہوریت پسند، دیانت دار اور مخلص ترین لوگ ہیں۔
تو اس صورت میں ستر سالہ تجربے کے بعد اگر لوگوں کے دلوں میں نہ جمہوریت کا احترام ہے نہ جمہوریت پسندوں کا، نہ ہی ڈکٹیٹروں کا تو اس میں تعجب کیا ہے؟، اگر جمہوریت کی دہائی دینے والوں کی چیخ پکار سنی ان سنی ہو جاتی ہے تو حیرت کیسی؟ بے بسی آخر بے حسی بن جاتی ہے۔ ہم تو ان منزلوں پر پہنچ رہے ہیں جہاںکچھ بھی نہیں۔ صرف ایک رنج ہے اور رنج بھی ٹھوس حالت میں۔
دل میں اک رنج مستقل ہے سعود
جس طرح شعلہ منجمد ہو جائے