تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     15-05-2013

رات ڈھلتی ہی نہیں ہے دن نکل آنے کے بعد…!

جمہوریت کا کمال یہ ہے کہ عوام تین سو لوگوںمیں ایک آمر کا اختیار تقسیم کرنے کے فیصلے پر مہرتصدیق ثبت کرتے ہیں اور جتنی مدت تک وہ تین سو مطلق العنان افراد حکمران رہتے ہیں‘ پوری کی پوری قوم ایک طعنہ مسلسل سنتی رہتی ہے۔’’تم کون ہوتے ہوہمیںپوچھنے والے،ہم جوچاہیںکریں، ہمیں عوام نے منتخب کیا ہے‘‘۔ اس قوم نے گزشتہ پانچ سال یہ طعنہ سنا اور آئندہ پچاس سال تک سنتی رہے گی۔کیا اس قوم کے کسی ایک فرد نے بھی کبھی کسی پارلیمنٹ کے رکن کویہ اختیار دیا تھاکہ اگرچہ اس ملک کی کل آمدن ایک سوارب ہے مگر تم قرض لے کر ڈیڑھ سوا رب کا بجٹ بنائو۔کبھی کسی ایک رکن پارلیمنٹ نے بھی لوگوں سے پوچھاکہ ’’میں اس سال قوم کے بچے بچے کوپانچ یادس ہزارروپے کامقروض کر رہا ہوں۔ یہ قرضہ تم اداکرو گے لیکن خرچ میں اپنی مرضی سے کروں گا۔ جاہل انسانو! تمہیں کیا پتہ حکومت کیسے چلائی جاتی ہے۔ ہم قرض لیتے رہیں گے، تم ادا کرتے رہو‘‘۔ ایسے مطالبات بکواس ہیں ’’ہمیں کھانا چاہیے، کپڑا چاہیے، گھر چاہیے، ہمارے والدین، بچے، بیوی اور بہن بھائی بیمار ہیں ، انہیں بھی ویسا ہی علاج چاہیے‘ جیسا منتخب وزیراعظم کو ملتا ہے، جان تو سب کی قیمتی ہوتی ہے۔ ہمارے بچوں کو بھی ویسی ہی تعلیم دلا دو جیسی ہر ممبر پارلیمنٹ کے بچے حاصل کرتے ہیں‘‘۔ نہ ان اٹھارہ کروڑ لوگوں سے پوچھ کر قرض نہیں لیا جاتا‘ مگر جو قرض لیتے ہیں وہ اُسے مرضی سے خرچ کرتے ہیں۔ بیشتر اراکین پارلیمنٹ عالمی سودی جمہوری مافیا کے کارپرداز بن کر ا سمبلیوں میں آتے ہیں۔ سودی جمہوری مافیا ان کی الیکشن مہم کا اربوں روپے کا خرچہ اٹھاتا ہے، ان کے جیتنے کے لیے ایک پورا نظام وضع کرتا ہے اور پھر ان کی جیت کوانتہائی خوبصورتی کے ساتھ دکھایا جاتا ہے ان کے لیے لازم ہوتا ہے کہ سود خور اور خون چوسنے والے عالمی اور ملکی بینکوں کو پیسے کی ترسیل یقینی بنائی جائے۔ بینکوں کے لیئے سود کی وصولی کا سب سے قابل اعتماد ذریعہ حکومتیں ہوتی ہیں۔ حکومت کبھی نادہندہ نہیں ہوتی۔ اس لیئے کہ وہ لوگوں پر ٹیکس لگا کر ان کا خون چوس کر بینکوں کا قرضہ اور سود واپس کرتی ہے۔ آپ صابن خریدیں، جوتا ، ٹوتھ پیسٹ، دوائی، ہوسٹل میں کھانا، سگریٹ، یہاں تک کہ موبائل کا کارڈ سب پر اپنے خون پسینہ کی کمائی سے ان کو ٹیکس دیتے ہیں اور یہ جمہوری طور پر منتخب حکمران اس میں سے پچاس فیصد سود اور قرض کے طور پر ان بینکاروں کو واپس کردیتے ہیں۔ گورکھ دھندہ اور گھن چکر دیکھیں‘ یہ بینک عام آدمی کا تنکا تنکا جوڑ کر جمع کی گئی بچت کو سود کا لالچ دے کر بینک میں جمع کرتے ہیں، پھر یہی بچت اونچی شرح سود پر حکومت کو قرض کے طور پر دی جاتی ہے۔ منتخب ارکان پارلیمنٹ اس پیسے کو جیسے چاہیں خرچ کریں، لیکن وصولی عوام سے کی جاتی ہے۔اس وقت تک حکومت پاکستان نے تقریباً5ہزار ارب روپے اندرون ملک بینکوں سے لے رکھے ہیں اور اتنی ہی رقم بیرون ملک سے قرض لی ہوئی ہے۔ یعنی اس وقت تک پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ ستاون ہزار روپے کا مقروض ہے۔ عوام یہ قرض اور سود انتہائی ذمہ داری سے مستقل ادا کرتے چلے آ رہے ہیں۔ کتنا آسان راستہ ہے سودکمانے کا،سرمایے میں اضافے کا۔یہی وہ گھن چکر ہے جس کے گرد سارا جمہوری نظام گھومتا ہے۔ سرمایہ، کاغذ کے نوٹ اور سرمایہ پرستوں کا تحفظ۔ انگریز اس نظام کی بنیادیں برصغیر میں اس قدر مضبوط بنا گیا ہے کہ جب تک یہ پورا ڈھانچہ تبدیل نہیں ہوتا کوئی تبدیلی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ پٹواری اور ایس ایچ او‘ دو ایسے ادارے ہیں جن کے گرد یہ سارا نظام گھومتا ہے۔ یہ اس نظام کے وفادار چہرے ہوتے ہیں۔ہوا کا رُخ اپنی مرضی سے بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اینگلوسیکسن قانون پر قائم عدالتی نظام اس کا رکھوالا ہوتا ہے۔ یہ تینوں نظام اور تینوں ادارے صرف پنجاب اور سندھ میں مضبوط ہیں اور ایک سو سال پرانے ہیں۔ لیکن خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ان کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کی قبائلی روایات اور صدیوں پرانے جرگہ سسٹم نے انہیں ابھی تک غیرت و حمیت کے زیور سے آراستہ رکھا ہوا ہے۔ وہاں نہ کسی پر کسی کی دھونس چلتی ہے اور نہ کوئی ان کے سامنے ان کی رائے کی توہین کرسکتا ہے۔ بلوچ اور پشتون معاشروں کو انگریز نے بھی چھیڑنے کی کوشش نہیں کی۔ان کا جو قانون تھا اسے انگریزی میں قانونی زبان میں تحریر کیا اور سب ان کی روایات پر چھوڑ دیا۔ اسی لیے ان معاشروں میں سچ کی عظمت ہے اور منافقت سے نفرت۔ جرگہ میں جھوٹے گواہ پیش نہیں ہوتے۔ جو بات شہر میں ہوتی ہے وہی عدالت میں ہوتی ہے۔ جبکہ پنجاب اور سندھ میں ایس ایچ او،پٹواری سے لے کر اعلیٰ سطح کے افسران تک جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا کر اپنے مرضی کے فیصلوں تک پہنچاتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں اگر کوئی یہ تصور بھی کرتا ہے کہ ایک ایسا نظام جس میں انگریز نے سرکاری زمینوں کی بندربانٹ سے اعلیٰ خاندان بنائے ہوں‘ انہیں اعزازی مجسٹریٹ سے لے کر نمبردار اور فوج کے اعزازی کرنل بنا کر ان کے سکہّ کو سو سال میں جمایا ہو او رپھر تمام انتظامیہ ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دی گئی ہو، وہاں تبدیلی کا خواب دیکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ دنیا بھر میں جمہوریت سرمایہ کی بالا دستی سے قائم ہوتی ہے، میڈیا کی خرید و فروخت سے آگے بڑھتی ہے اور انتظامیہ کی مکمل غلامی سے اس کا خمیر پیدا ہوتا ہے۔ ان سب کارندوں کو غلام بنانے ، ان کو ساتھ رکھنے،ان کی خواہشات اور خوابوں کو خریدنے میں وہ سرمایہ استعمال ہوتا ہے جو عالمی اور علاقائی سودی ادارے فراہم کرتے ہیں۔ اگر یہ سب قائم ہیں تو کچھ نہیں بدلے گا۔بدل بھی کیسے سکتا ہے، ہمارا یقین اسی پر ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ حالات اللہ نہیں جمہوری نظام بدلے گا، اگر ایسا ہوتا تو امریکی سرمایہ داروں کا 32ہزار ارب ڈالرسرمایہ کیمن جزیرے میں چوری کر کے نہ رکھا گیا ہوتا۔ جہاں دو سو سال سے جمہوریت ہے وہاں کانگریس کے کسی رکن میں بھی یہ جرأت نہیں کہ آواز اٹھائے، ’’اس ملک کا چوری شدہ سرمایہ واپس لائو‘‘، ہمارے ہاں تو ابھی پانچ سال ہوئے ہیں اور ہم خواب دیکھ رہے ہیں کہ چور یہ فیصلہ کریں کہ ملک کا چوری کیا سرمایہ واپس لایا جائے۔ چھوڑیں ان باتوں کو‘ اس وقت مجھے اپنی ہی ایک غزل یاد آرہی ہے‘ سناتا ہوں کہ دل کا بوجھ ہلکا ہو: رُت بدلتی ہی نہیں موسم بدل جانے کے بعد رات ڈھلتی ہی نہیں ہے دن نکل آنے کے بعد موسم بے رنگ میں‘ شہرِ شکستہ خواب میں کچھ نہیں بدلا مکینوں کے بدَل جانے کے بعد اک عذابِ حبسِ حرفِ حق ہے سینے پر گراں دم کہاں آئے کسی دم، دم نکل جانے کے بعد کون در کھولے گا اب ہجرت نصیبوں کے لیے کس کے گھر جائیں گے اب گھر سے نکل جانے کے بعد

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved