تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     17-11-2019

سرخیاں ‘متن اور ابرارؔ احمد کی نظم

راستے میں پڑا پتھر اٹھانا ہو تو مشقت اٹھانا پڑتی ہے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''راستے میں پڑا پتھر اٹھانا ہو تو مشقت اٹھانا پڑتی ہے‘‘ جیسے کہ خاکسار حکومت کے راستے کا بڑا پتھر ہے اور اس کو اُٹھانے کے لیے حکومت کو میرے وزن کے حساب سے ہی مشقت اٹھانا پڑ رہی ہے‘ جبکہ دھرنے سے تو میں خود ہی اٹھ آیا ہوں‘کیونکہ نہ وزیراعظم عمران خان کا استعفیٰ مل رہا تھا اور نہ الیکشن ہونے کی کوئی صورت بن رہی تھی ‘تاہم میں خود نہ سہی‘ میرا دل ضرور پتھر کا ہے‘ جو خود تو راتوں کو دوستوں کے ہاں حلوہ کھاتا رہا ہوں اور طلباء بیچارے سردی اور بارش میں ٹھٹھرتے رہے ۔آپ اگلے روز نوشہرہ میں مارچ کے شرکاء سے خطاب کر رہے تھے۔
اگلے سال تک نئے انتخابات یا نیا وزیراعظم ہوگا: بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''اگلے سال تک نئے انتخابات یا نیا وزیراعظم ہوگا‘‘ جبکہ اس سے پہلے میرے اندر ہونے کے بھی زبردست امکانات موجود ہیں‘ کیونکہ جعلی اکاؤنٹس کیس میں میرے خلاف بھی انتقامی کارروائی کسی وقت ہو سکتی ہے اور میں نے غور کرنا شروع کر دیا ہے کہ جیل جاتے ہی مجھے کونسی مہلک بیماری لاحق ہوگی ‘کیونکہ جیل میں بی کلاس تو دشمنوں نے ویسے ہی بند کر دی ہے‘ جیل کے ہسپتال میں کم از کم پنگھے وغیرہ تو ہوتے ہی ہوں گے‘ بلکہ علاج کیلئے بیرون ملک جانے کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ آپ اگلے روز میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عدالت نے کیس کی سنگینی کو سمجھا‘ امید ہے ریلیف ملے گا: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''عدالت نے کیس کی سنگینی کو سمجھا‘ امید ہے ریلیف ملے گا‘‘ اور میاں نواز شریف جلد از جلد بیرون ملک روانہ ہوں گے‘ کیونکہ یہاں پر یہ دوڑ لگی ہوئی ہے کہ اُن کے بعد نواز لیگ کی سربراہی کون سنبھالے گا؟ جبکہ پارٹی میں پہلے ہی دو گروپ بنے ہوئے ہیں؛ ایک کی رہنمائی شہباز کر رہے ہیں اور دوسرے کی مریم نواز۔ آپ اگلے روز میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
حیران ہوں پارلیمنٹ میں لوگ کس دیدہ 
دلیری سے جھوٹ بولتے ہیں: فواد چودھری
وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری نے کہا ہے کہ ''میں حیران ہوں کہ پارلیمنٹ میں لوگ کس دیدہ دلیری سے جھوٹ بولتے ہیں‘‘ جبکہ پارلیمنٹ سے باہر پورا پاکستان اس کام کیلئے دستیاب ہے تو پارلیمنٹ کے اندر اس کی کیا ضرورت ہے ؟کیونکہ ہم نے پارلیمنٹ کے اندر کبھی جھوٹ نہیں بولا اور پارلیمنٹ سے باہر کبھی سچ نہیں بولا ‘کیونکہ جس طرح بقول شخصے رشوت کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی‘ اسی طرح جھوٹ کے بغیر سیاست بھی نہیں ہو سکتی‘ جبکہ حکومت اگر سچ بولنا شروع کر دے ‘تو وہ حکومت کر چکی‘ بلکہ حکومت کے بارے بھی سچ بولنا کوئی مناسب بات نہیں اور ہمارے عوام و خواص کو حکومت بارے سچ بول کر اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ٹوئٹرپیغام جاری کر رہے تھے۔
آخر میں ابرار احمد کی ایک نظمـ:
بیتا ہوا دن
ایک ہجوم ہے ہر سو رقصاں
بچے‘ بوڑھے‘ لڑکے‘ بالے
جھمک جھمک زیور ہیں جھمکتے
لش لش کرتے کپڑے
گوٹا لگے دوپٹے ہیں
اور کہیں منقش کھسّے
فربہ عورتیں‘ پیاری لڑکیاں
مہندی لگے ہیں ہاتھ کہیں پر
آس بھری ہیں آنکھیں
ڈھونگ رچاتے‘ ہنستے گاتے
سنگی ساتھی بیلی
شب بیداری‘ شاپنگ کا ہنگامہ---
جگ مگ کرتے شوکیسوں پر
جیبوں میں سے نکل رہے ہیں
میلے اجلے نوٹ
زندگی اپنے جوبن پر اتر آتی ہے
اور اس دن کے وسط میںتنہا
غم سے اور خوشی سے خالی
ساتھ اپنے لے کر پھرتا ہوں
اپنے بیوی بچے
قیمتی کپڑے‘ اچھے تحفے
ہنس کر بانٹ رہا ہوں سب کو---
ایسے میں اک ہاتھ سا کوئی
دل کو مسلنے لگتا ہے
دور بہت ہی دور کہیں پر
یا پھر میرے آس پاس
کوئی دُھول سی اُڑنے لگتی ہے
کوئی بارش گرنے لگتی ہے
گاڑی کے شیشے سے باہر تکتا ہوں
دُور کہیں کو جانے والی لاری کو
دل ہی دل میں ہاتھ ہلانے لگتا ہوں
بھولی بسری بستی میں
آواز لگانے لگتا ہوں---
آج کا مطلع
غزل کا شور ہے اندر پرانا
بہت گونجے گا یہ پیکر پرانا

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved