تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     17-11-2019

امن کی راہداریاں

ایستھر ہکس(Esther Hicks) کا کہنا ہے کہ ''جو چیزیں آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ اُن کا راستہ خوشی کی راہداری سے ہو کر نکلتا ہے۔‘‘کرتارپور راہداری بابا گرو نانک کے لاکھوں پیروکاروں کو خوشی دے سکتی ہے ‘لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ راہداری کشمکش اور تنازع کا شکار لائن آف کنٹرول میں بھی امن کا پل ثابت ہوسکتی ہے؟ کرتار پور راہداری کھولتے ہوئے پاکستان انڈیا کو دفاعی قدموں پر لے آیا ۔ اب‘ بھارت کے سامنے ''نہ پائے ماندن‘ نہ جائے رفتن ‘‘ والا معاملہ ہے ۔ 
انڈیا نے کشمیر کی خصوصی حیثیت غیر قانونی طور پرختم کرتے ہوئے ‘اس نے اسے اپنے نقشے میں شامل کرلیا ‘لیکن نہ وہ کرتارپورپرکچھ نہیں کر سکتے ہیں اور نہ ہی بھارتی شہریوںکو اپنے مقدس مقامات کی زیارت سے روک سکتے ہیں۔ کرتار پور کا سفر محض قانونی حدود میں رہتے ہوئے ایک غیر متنازع بارڈر پر آمدوروفت کی سہولت ہی نہیں‘ یہ پیش رفت اس طاقت کا علامتی اظہار ہے کہ عوامی جذبے سیاسی‘ قانونی‘ جغرافیائی اور ثقافتی حدود وقیود سے ماورا ہوتے ہیں۔ 
بابا گرونانک سکھ مذہب کی سب سے محترم شخصیت ہیں۔ اُن کی غیر معمولی زندگی اور کردار اُنہیں گزشتہ ساڑھے پانچ سوسال کی ایک غیر معمولی شخصیت بناتے ہیں۔ اُن کا نیک سیرت انسان کاسا کردار ایک کھلی کتاب کی ماند تھا۔ پچیس سال دھرتی پر مسافت میں بسر کرنے والے گرونانک نے اپنے دور میں سب سے زیادہ سیاحت کی ۔ روحانی یا شاعرانہ تصورات ایک طرف‘ گرونانک کی شہرت یہ بھی تھی کہ اُنہوں نے رب کی زمین کو خوب جی بھر کے دیکھا۔ وہ تلونڈی (ننکانہ صاحب)سے مشرق میں بنگال سے لے کر جنوب میں سری لنکا ‘ شمال میں تبت اور مغرب میں عرب ممالک کی سیاحت کو گئے اور پھر آخر میں کرتارپور آکر زندگی کے آخری سترہ برس گزارے۔ اُنہوں نے اس عرصے میں یہاں کاشت کاری بھی کی ۔
کرتارپور محض ایک مذہبی اثاثے سے کہیں بڑھ کر ہے ۔ وزیراعظم عمران خان نے کرتارپورپیش رفت میں ذاتی دلچسپی لی ۔ ویزہ فیس اور دیگر لوازمات کو ختم کرتے ہوئے یاتریوں کے سرحد پار کرنے کے عمل کو آسان بنا دیا۔ اس راہداری کا مقصد بھارتی سکھ یاتریوں کی غیر ضروری مشکلات کو کم کرنا ہے ۔ اس سے پہلے محض چند کلومیٹر دور کرتارپورآنے کے لیے واہگہ بارڈر ‘ لاہور سے ایک طویل سفر طے کرکے یہاں آنا پڑتا تھا۔ اس کاافتتاح ایک تاریخ ساز واقعہ تھا۔ حکومت ِ پاکستان نے گروبابانانک کے پانچ سو پچاس ویں جنم دن پر یادگاری سکہ بھی جاری کیا۔ 
کچھ ناقدین اسے پاکستان کی ایک عقلمندانہ سیاسی قدم قرار دیتے ہیں‘لیکن یہ صرف ایک راہداری نہیں‘ بلکہ پاکستان کی سیاحتی صنعت کا ایک اہم باب ہے۔پاکستان میں ہر سال صرف چھے ہزار بھارتی سکھ آتے ہیں‘ جبکہ ننکانہ صاحب سے صرف ایک سو بیس کلو میٹر دور سالانہ پچاس لاکھ سکھ گولڈن ٹمپل کی زیارت کرتے ہیں؛ چنانچہ کرتار پور راہداری پر ویزہ کی پابندی اٹھانے سے روزانہ پانچ ہزار یاتریوں کی آمد متوقع ہے۔ورلڈ ٹریول اینڈ ٹورازم کونسل کے تخمینے کے مطابق‘ سیاحت پر صرف کیا جانے والا ہر روپیہ 1.46 روپے کی اضافی سرمایہ کاری‘ اور سیاحت کی صنعت میں پیدا ہونے والی ہر ملازمت متعلقہ شعبوں میں 1.55 اضافی ملازمتوں کا باعث بنتی ہے ۔ اس تخمینے کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ سکھ یاتریوں سے سالانہ 44 بلین روپے حاصل ہونے کے علاوہ بیاسی ہزار ملازمتوںکے نئے مواقع پید اہوںگے ۔ 
پاکستان کے پاس اپنی شاندارثقافت کی نمائش کا موقع ہے ۔ ہندو مندرجیسا کہ کٹاس راج‘ خوبصورت گرجا گھر جیسا کہ راجہ پال چرچ راولپنڈی ‘ تخت بھائی کے بدھ مت کے نوادرات اور ملتان کے مزارات کی خطے میں کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ان میں سیاحوں کے دیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے ۔ سعودی عرب‘ ایران اور اٹلی جیسے ممالک مذہبی سیاحت سے بھاری زر ِ مبادلہ کماتے ہیں؛ چنانچہ پاکستان کو کرتار پورکے بعد مندرجہ ذیل سمتوں پر توجہ دینی چاہیے:۔
1۔ جنوب مشرقی ایشیا کی راہداریاں: تخت بھائی جیسے نوادرات کی بھی تزئین و آرائش کرکے نا صرف بدھ مت کے پیروکاروں ‘بلکہ دیگر سیاحوں کی توجہ حاصل کی جاسکتی ہے ۔ تخت بھائی کو بھی کرتار پور کی طرح عقیدے کے مرکز کے طور پرپیش کیا جاسکتاہے ۔ 
2۔ شاہی سفارت کاری: مشہور افراد کی سیاحت سے کوئی مقام شہرت حاصل کر لیتا ہے ۔ تخت بھائی نوادرات کا افتتاح کرنے کے لیے جاپان کے نوجوان بادشاہ کومدعو کیا جاسکتا ہے۔ اس سے یہ واقعہ عالمی توجہ کا مرکز بن جائے گا۔ اس کے ساتھ دیگر بہت سے مقامات پر تقریبات منائی جاسکتی ہیں۔
3۔ مسلکی ہم آہنگی پیدا کرنے والے سفارت کار:جنگ کی بجائے بین المذاہب ہم آہنگی کے ذریعے امن قائم کیا جاسکتا ہے ۔ اس پیش رفت کو روایتی مذہبی رہنمائوں تک محدود نہ کیا جائے ۔ صرف پوپ اور دالائی لاما ہی نہیں‘ بلکہ تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی عوامی شخصیات کو بھی تقریبات کا حصہ بنایا جائے۔ 
کرتارپور راہداری کی کل لمبائی نو کلو میٹر ہے( چار کلو میٹر سرحد پار) لیکن یہ صرف ایک نیا راستہ نہیں‘ یہ ایک نئی سوچ ‘نئی جہت اور نیا انسانی تعلق ہے ۔ یہ سکھوں کی اُن امیدوں اور آرزوں کی تکمیل ہے‘ جس کے خواب وہ تقسیم ِ ہند سے ہی دیکھا کرتے تھے کہ اُنہیں گرونانک کی جائے پیدائش اور آخری آرام گاہ پر تقریبات منانے کی سہولت حاصل ہو۔ یہ دو متحارب ممالک کی تاریخ میں امن کو دیا گیا ایک نایاب موقعہ ہے ۔ یہ اس بات کا علامتی اظہا ر ہے کہ مذہب جھگڑے کا باعث نہیں‘ بلکہ تعاون کاذریعہ بن سکتا ہے ۔ یہ امید کی کرن ہے کہ انسان اپنے تعصبات سے بلند ہو کر مشترکہ اقدار کے لیے جدوجہد کرسکتے ہیں۔ 
تمام مذاہب امن اور بھائی چارے کی تبلیغ کرتے ہیں۔ اس میں پاکستان کے پاس مہربان اور ہمدردانہ رویہ دکھانے کا اچھا موقعہ ہے ۔ جس دوران انڈیا میںہندوتوا مسلمانوں اور بابری مسجد کے خلاف کمربستہ ہے ‘ پاکستان اُن کے ہاں سے آنے والے یاتریوں کے لیے مذہبی مقامات تک رسائی آسان بنا رہا ہے ۔ جب لوگ روحانی طور پر ایک دوسرے کے ہم سفر ہوتے ہیں تو وہ پورے خلوص کا مظاہر ہ کرتے ہیں۔ 
ہری پورکی پہاڑیوں میں دریائے ہارو کے نزدیک بدھ مت کی ایک قدم ترین یادگار‘ بھاملہ سٹوپا موجود ہے ۔ حال ہی میں بھاملہ سٹوپا پر پاکستان سنٹر فار کلچر اینڈ ڈولپمنٹ اور ڈائریکٹوریٹ آف آرکالوجی اور میوزیمز کی طرف سے بدھ مت کی رسم ادا کی گئی ۔ سینئر بدھ راہب‘ ڈاکٹر نینگ ہر سینم (Dr. Neung-her Sinim) کی قیادت میں کوریا کے ایک وفد نے وہاں عبادت کی۔ راہب جیوک کیانگ اور راہب جیونگ وائی نے بھی عبادت میں شرکت کی اور خطے میں امن کے لیے دعا کی ۔ بھاملہ سٹوپا پر مراقبے کے تجربے کے بعد راہب ڈاکٹر نینگ نے گلف نیوز کو بتایا کہ ''پاکستانیوں اور دنیا کو بدھ مت کے پیروکاروں کے لیے بھاملہ کی روحانی اہمیت کا احساس ہونا چاہیے ۔ ہمارے آبائو اجداد نے اس مقام کا انتخاب کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے یہاں عبادت کی اور خطے اور دنیا میں امن کے لیے دعا کی ۔‘‘
ایسی راہداریاں محض جغرافیائی خدوخال سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہیں‘ ان سے روحانی سکون کی راہ نکلتی ہے ۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہیںدنیا میں بے چینی کی وجہ روحانیت سے دوری ہے ‘ جیسا کہ پیری چردین (Pierre Chardin) ہمیں یادلاتے ہیں کہ ''ہم روحانی تجربے سے گزرنے والے انسان نہیں ‘بلکہ ہم ایسی روحیں ہیں ‘جوتھوڑی دیر کے لیے انسانی تجربے سے گزر رہی ہیں۔‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved