ایک وقفے کے بعد کیا پھر سے شطرنج کی نئی بساط بچھنے کو ہے؟کیا ایک وقفے کے بعد پھر سے کسی کو اوقات میں رہنے کی تنبیہ کر دی گئی ہے؟اور ایک طویل وقفے کے بعدکیا پھر سے پیر صاحب آف پگاڑو مرحوم والی ترغیب کسی کو دی جائے گی؟ایک طویل وقفے کے بعد کیا پھرعرصۂ سفر مختصر کرنے کا سوچ لیا گیا ہے؟ کیاایک نامور اور تیز ترین فاسٹ بائو لر کو ڈیڈ وکٹ‘ دینے کے بعد اس کے ایک فل ٹاس پر کلین بولڈ کرنے والی گیند کو نو بال قرار دینے کا عزم کر لیا گیا ہے؟لاکھوں کی تعداد میں اوور سیز پاکستانیوں کی آنکھوں میں چمکنے والی روشنی کو پھر سے ماند کرنے کا منصوبہ بنا لیا گیا ہے؟ کیا وہ کھیل پھر سے شروع ہونے والا ہے‘ جو جنرل مشرف کے احتساب کے با وجود بطورِ گارنٹی یہاں رہ جانے والے کسی منظورِ نظر کیلئے پنجاب اور مرکز میں اقتدار کی طاقتور باگ ڈور سنبھالنے والوں نے کھیلا تھا۔
2018 ء کے انتخابی نتائج سامنے آتے ہی پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کیلئے دو ایسے فریق راز و نیاز کی راہ پر محو سفر ہوگئے کہ با خبر لوگ جانتے ہی حیران رہ گئے اور یہ دو فریق چوہدری پرویز الہٰی اور حمزہ شہباز شریف تھے۔ مجھے یقین ہے کہ اکثریت میرے ان الفاظ پر مشکل سے یقین کرے گی‘ لیکن پس پردہ وہ کچھ ہوتا ہے‘ جس کی خبر مدتوں بعد ملتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف تک یہ اطلاع پہنچی‘ تو سب دنگ رہ گئے کہ اگر وہ چوہدری برادران کے ساتھیوں کے مقابلے میں اپنے امیدوار دست بردار نہ کراتی تو سوائے چکوال اور بمشکل یزمان بہاولپور کی نشست کے ان کے پاس کیا رہ جاتا؟ آج اٹک کی پی ٹی آئی سمیت کچھ آزاد اراکین چوہدری صاحبان کی جانب محبت سے دیکھنا شروع ہو گئے ہیں‘ جو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور ایسا لگتا ہے کہ انہیں کہیں سے شاید کچھ سنگھادیا گیا ہے۔
کل تک میاں نواز شریف سے ایک ایک پائی وصول کرنے والے شیخ رشید اپنی ایک اضافی خاندانی نشست کے ساتھ چوہدری برادران کی خواہش کا ساتھ دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کو مشورہ دینے لگے کہ نواز شریف کو جلد از جلد غیر معینہ مدت کیلئے ملک سے باہر بھیج دیا جائے اور ان کا ساتھ دینے والے بقیہ نقاب پوش بھی وزیر اعظم عمران خان کی نظروں کے سامنے ہوں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو بھی جلد ہی کسی '' آفتاب سلطان‘‘ کی ضرورت پیش آنے والی ہے۔ بہر حال وزیر اعظم عمران خان نے اپنی ان دو چھٹیوں میں اکیلے بیٹھ کر لازمی کچھ فیصلے کئے ہوں گے‘ اگر نہیں کئے تو پھر سب سے پہلے انہیں پانچ سو سے زائد ایسے تاجروں اور بڑے بڑے گوداموں والوں کو ملکی قوانین کے تحت پابند سلاسل کرتے ہوئے سخت کارروائی کرنا ہو گی‘ جنہوں نے جان بوجھ کر اشیائے ضروریہ کی بہت سی اشیاء کی قیمتوں کو آسمان پر چڑھا دیا ہے اور اس کی خبر ملک کے تمام ا داروں کو بھی ہے ۔
وزیر اعظم عمران خان پاکستانی قوم کی نفسیات ‘ پسنداور نا پسند سے لا علم ہونے کی وجہ سے کچھ بھی نہیں جانتے یا پھر گھر پر چڑھائے گئے قرضوں اور اخراجات میں کمی کرنے کے جنون اورارادوں میں شاید وہ بھول گئے ہیں کہ یہ لوگ شادی بیاہ‘ لباس‘ ظاہری چمک دمک ؛حتیٰ کہ قرض کی کھانے کے عادی ہو چکے ہیں‘ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس مہنگائی کا سب سے زیا دہ حصہ انتظامی غفلت اور چشم پوشی کی وجہ سے بڑھتا جا رہا ہے اور اس کی روک تھام کیلئے وہی رسمی اور پرانا اور گھٹیا سا طریقہ کار کہ اسسٹنٹ کمشنر نے ایک دو دن چھاپے مار کر جرمانے کئے اور پھروہی مہنگائی۔ وزیر اعظم عمران خان سبزی اور پھل فروشوں سے پولیس‘ محکمہ صحت‘ ٹائون میونسپل ایڈ منسٹریٹرز‘ کارپوریشن‘ محکمہ لیبر اور بھتہ خوروں کا ماہانہ ٹیکس ختم کروا دیں‘ سبزیوں‘ پھلوں اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا چوتھا حصہ کم ہو جائے گا اور اگر آڑھتیوں سے لے کر دکانداروں تک سب کو مسلسل دن رات مانیٹر کیا جانے لگے تو یہ مہنگائی نصف درجے کم ہو سکتی ہے‘ آزمائش شرط ہے‘ لیکن اس کیلئے مائوزے تنگ والا نسخہ آزمانا ہو گا۔
اندرون اور بیرون ممالک بیٹھے ہوئے لوگوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی وزیر اعظم عمران خان کو نجات دہندہ سمجھتی ہے۔بیرون ملک رہنے والے لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کا کپتان کچھ کرنا چاہتا ہے ‘بے شک اسے ڈیڈ وکٹ دی گئی ہے‘ لیکن ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ اپنی ٹیم سے کچھ کھلاڑیوں کو باہر بٹھاکر انتظار میں بیٹھے ہوئے اپنے مخلص دوستوں اور ساتھیوں کو متحرک کرے‘ تو نتائج اس قدر بہتر ہو جائیں گے‘ جن کا شاید وہ تصور بھی نہ کر سکتے ہوں‘ ورنہ ان کے خلاف ملک کا بد دیانت طبقہ ایک مافیا کی شکل میں اکٹھا ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے اندر بھی نقب لگا چکا۔
چوہدری برادران کی جڑیں سیا ست کے اندر اس قدر گہری ہیں کہ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے کہ جب پنجاب اسمبلی کے سپیکر کے انتخاب میں چوہدری پرویز الہٰی کو نواز لیگ کے 13 ووٹ حاصل ہوئے ‘جو حمزہ شہباز شریف سے ان کے تعلقات کی بدولت حاصل ہوئے اور یہ اراکین ِپنجاب اسمبلی جن میں قصور سے تعلق رکھنے والے چہرے بھی شامل ہیں‘ آج بھی گواہی دینے کیلئے تیار ہو سکتے ہیں کہ انہوں نے کس کے اشارے پر چوہدری پرویز الہٰی کیلئے اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ایسا لگتا ہے کہ پنجاب میں کسی بھی وقت حامد ناصر چٹھہ کی جونیجو لیگ اور منظور وٹو والا کھیل‘ پھر سے شروع ہونے والا ہے‘ جب ڈیڑھ درجن اراکین پنجاب اسمبلی مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کیلئے انتہائی اہمیت اختیار کر گئے تھے۔ ایک جانب میاں نواز شریف اور شہباز شریف منظور وٹو کو اپنی جانب کھینچنا شروع ہوئے تو دوسری جانب آصف علی زرداری اور سردار فاروق لغاری اپنے دائو پیچ دکھانے لگے اور جیت بالآخر حامد ناصر چٹھہ اورمیاں نواز شریف کی ایک دوسرے سے نفرت کے حصہ میں آئی‘ جس کے نتیجے میں میاں منظور وٹو ‘پنجاب کے شمس ون اور پیپلز پارٹی کے فیصل صالح حیات شمس ٹو بن کر پنجاب پر حکومت کرنے لگے تھے۔
پاکستان تحریک انصاف کے بنیادی اور نظریاتی اراکین‘ جو اس وقت مرکز‘کے پی کے اور پنجاب کابینہ کے علا وہ مرکزی حکومت کی جانب سے ملنے والی کسی بھی حیثیت میں اقتدار میں ہیں‘ ان کو بزرگ سیا ستدان چوہدری شجاعت حسین نے اناڑی کھلاڑی کے خطاب سے نوازتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کو مشورہ و نصیحت کی ہے کہ وہ ان اناڑیوں کی باتوں میں نہ آئیں اور میاں نواز شریف کو بغیر کسی شرط کے خود جا کر رخصت کریں ‘کیونکہ اگر نواز شریف کو فوری طور پر امریکہ علاج کیلئے نہ بھیجا جاتا تو ممکن ہے کہ کوئی ایسا داغ ان کے ماتھے پر ثبت ہو جاتا‘ جسے وہ ساری عمر مٹانے کی کوشش کرتے‘ تو مٹا نہ سکتے۔ کمال دیکھئے کہ آج ایک سیا ستدان کو غربت اور افلاس میں ڈوبے ہوئے ملک پر اس طرح ترجیح دی جا رہی ہے ۔
چوہدری شجاعت حسین کے نزدیک اناڑی کھلاڑی وہ ہیں‘ جو کرپشن کے پہاڑوں سے ٹکرانے کے حق میں ہیںاور '' مٹی پائو‘‘ کے حق میں نہیں ۔ اسی لیے تو میںکہا رہا ہوں کہ ایک وقفے کے بعد پھر سے شطرنج کی نئی بساط بچھنے کو ہے۔