تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     19-11-2019

نواز شریف کے لیے دعائیں اور حکومتی اتحادی

جناب نوازشریف کی لندن روانگی کے لیے تمام تیاریاں مکمل ہوچکیں۔ منگل کی صبح قطر سے ایئر ایمبولینس کی لاہور آمد اور پھر علاج کے لیے مریض کی پرواز‘ عدالتِ عظمیٰ سے تاحیات نااہلی کے بعد ‘جسے اس کی جماعت نے تاحیات اپنا قائد منتخب کرلیاتھا ۔جولائی2018ء کے عام انتخابات میں اس کے امیدواروں نے (الیکشن کمیشن کے اعلان)کے مطابق ا یک کروڑ اٹھائیس لاکھ ووٹ حاصل کئے تھے۔ جنوبی پنجاب کے بعض حلقوں میں اس کے امید واروں نے اس وقت اس کے ٹکٹوں سے لاتعلقی کا اعلان کردیا ‘ جب نئے کاغذات نامزدگی داخل کرنے کا وقت گزر چکا تھا(اور یوں ان حلقوں میں ''شیر‘‘ کا کوئی امید وار نہ ہونے کے باعث اس کے ووٹ کسی قطار شمار میں نہ آسکے) رائے عامہ کا جائزہ لینے والے معتبر اور بااعتماد اداروں کی تازہ ترین سروے رپورٹس کے مطابق سواسال کے اس عرصے میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ سنگین بیماری کے دوران ‘ حکومت کے رویے اور حکومتی ذمہ داروں کے غیر ذمہ دارانہ بیانات نے''غیر جانبدارووٹرز‘‘ میں بھی اس کے لیے ہمدردی کی لہر پیدا کردی ( دل آزار بیانات کا حوالہ دیا جائے تو پورا کالم بھی شاید کم پڑجائے۔ لال حویلی والے شیخ کا گزشتہ روز کا بیان تو اخلاقی پستی کی آخری انتہا کو چھورہاتھا)۔منگل کی صبح نوازشریف لاہور سے سفر پر روانہ ہوں گے تو کروڑوں ہم وطنوں کی دعائیں ان کے ساتھ ہوں گی۔ سعودی عرب میں مقیم ہمارے پاکستانی دوست ایس ایم ایس ‘ ٹیلی فون کالز اور سوشل میڈیا کے ذریعے بتا رہے تھے کہ اس جمعہ کو حرمین میں ہزاروں لبوں پر اپنے محبوب لیڈر کی صحت وسلامتی کے لیے دعائیں تھیں۔ وطن سے دور‘ علاج کے دوران بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
افواہیں ‘ قیاس آرائیاں اور سازش تھیوریاں ''مینجمنٹ‘‘ ،''انجینئرنگ‘ اور''ارینجمنٹ ‘‘والے سیاسی نظام میں معمول کی حیثیت رکھتی ہیں؛ چنانچہ اپنے ہاں بھی آئے روز نت نئی سیاسی افواہیں جنم لیتی اور سوشل میڈیا کے ذریعے اندرون ملک ہی نہیں‘ بیرون ملک بھی جہاں جہاں پاکستانی آباد ہیں ‘ پھیل جاتی ہیں۔ یہ افواہیں ‘ قیاس آرائیاں اور سازش تھیوریاں‘ میڈیا کے سیاسی تجزیوں اور تبصروں کا حصہ بھی بن جاتی ہیں۔ یہ ویک اینڈ اس حوالے سے بھر پورتھا۔جمعہ5نومبر کو آرمی چیف کی وزیر اعظم سے ملاقات سرکاری پریس ریلیز کے مطابق مغربی سرحد‘ کشمیر کی صورتحال اور اندرونی سلامتی کے معاملات پر تبادلۂ خیال کے لیے تھی۔ ''اندرونی سلامتی کے معاملات‘‘ کے حوالے سے یاردوستوں کے تبصرے''فکر ہرکس بقدرِ ہمت اوست‘‘ کے مصداق تھے۔ نوازشریف کی علاج کے لیے بیرونِ ملک روانگی ‘ مولانا کے آزادی مارچ کے آئندہ مراحل‘ چودھری برادران کا مولانا سے تازہ ربط وضبط اور ECLسے نوازشریف کا نام نکالنے کے حوالے سے ‘سرکار سے مختلف موقف کو بھی ‘‘ اندرونی سلامتی کے معاملات‘‘ میں شامل کیا جارہاتھا۔
اس کے ساتھ وزیر اعظم کی دوچھٹیوں کی خبر نے معاملے کو دوآتشہ کردیاتھا ۔ اس طرح کی باتیں بھی کہنے سننے میں آئیں ‘کہ وزیر اعظم نے کچھ عرصہ قبل بھی اظہارِ معذرت کرتے ہوئے کہہ دیا تھا ''پھر مجھے اجازت دیں‘‘۔ جناب ایاز امیر نے گزشتہ دنوں لکھا ‘ اس طرح تو باورچی خانہ نہیں چلتا کہ پتیلی کے سامنے کوئی اور شخص کھڑا ہو اور پیچھے سے ہدایات کوئی اور دے رہا ہو۔یا یوں کہہ لیں کہ سٹیئرنگ پر کوئی اور بیٹھا ہو اور اسے کنٹرول کوئی اور کررہا ہو۔
اطلاعات کے مطابق‘ وزیر اعظم نے یہ دو دن مکمل طور پر غیر سرکاری اور غیر سیاسی مصروفیات میں گزارے ۔ اہل خانہ کے علاوہ پرانے دوستوں سے گپ شپ ‘ جس میں ڈومیسٹک کرکٹ کے نئے ڈھانچے پر گفتگو میں (سابق کپتان) سرفراز اور مصباح الحق کے حوالے سے نیک توقعات کا اظہار بھی شامل تھا۔
سوموار کو وزیر اعظم صاحب معمول کی حکومتی سرگرمیوں کی طرف لوٹ آئے تھے۔سہ پہر جس وقت یہ سطور قلم بند کی جارہی تھیں‘ وزیر اعظم کے شیڈول میں مانسہرہ حویلیاں موٹروے کا افتتاح شامل تھا۔ مسلم لیگ(ن) کی مقامی قیادت نے اسے ''جعلی افتتاح‘‘ قرار دیتے ہوئے‘ وزیر اعظم کی آمد پر سیاہ پرچم لہرانے کا اعلان کیا تھا۔مسلم لیگ نے اسے اپنے قائد کا منصوبہ قرار دیتے ہوئے‘ شہر کو نوازشریف والے بینرز سے سجا دیا تھا اور اس کے ساتھ یہ دھمکی کہ نوازشریف کا ایک بینر بھی اتارا گیا تو سارا شہر بند کردیا جائے گا(حویلیاں ‘مانسہرہ موٹروے سی پیک منصوبے کا حصہ ہے) ۔
اُدھر چودھری پرویز الٰہی کے تازہ بیان کو سیاسی مبصرین ڈیمیج کنٹرول ایکسرسائز قرار دے رہے ہیں‘ جس میں گجرات کے چھوٹے چودھری صاحب کا کہنا تھا کہ قاف لیگ حکومتی اتحادی ہے اور اتحادی رہے گی۔ اتحادیوں میں اختلاف یا غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوئی کوشش‘ کوئی سازشی تھیوری کامیاب نہیں ہوگی‘ اور ایسا کرنے والے ناکام رہیں گے۔چودھری پرویز الٰہی نے اپنے بیان کا پریس ریلیز جاری کرنے کی بجائے اسے ویڈیوکی صورت میں جاری کرنا ضروری سمجھا‘کلام شاعر بزبانِ شاعرکہ اسے سوفیصد مصدقہ سمجھا جائے۔
نوازشریف کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی غیر مشروط اجازت دینے کے موقف کوچودھری برادران کی روایتی وضعداری پر قیاس کرلیا جائے‘ تب بھی مولانا سے ان کی حالیہ ملاقاتوں پر تبصرے اور تجزیے محض دور کی کوڑی نہیں تھے اور پھر ایک ہی روز پرویز الٰہی کے چار‘ پانچ ٹی وی انٹرویوز‘ جس میں وہ مولانا کے سیاسی موقف کے قریب تر اور ان کی امن دوستی اور قانون پسندی کے لیے رطب اللسان بھی نظر آئے۔ انہیں حکومت کی معاشی کارکردگی اور احتساب پالیسی کو ہدفِ تنقید بنانے میں بھی عار نہ تھی۔وہ مولانا کی اسلام آباد سے پرُ امن روانگی کا کریڈٹ بھی لے رہے تھے اور اس کے ساتھ یہ دعویٰ بھی کہ انہوں نے مولانا سے آزادی مارچ کے پلانBکو پر امن رکھنے کی یقین دہانی بھی حاصل کرلی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مولانا کے ساتھ ''کچھ چیزیں طے پاچکیں‘‘جو بعد میں سامنے آئیں گی(کہ ابھی یہ ''امانت‘‘ ہیں) انہوں نے ایک انٹرویو میں یہ ذکربھی ضروری سمجھا کہ کئی ممتاز شخصیتوں کو قاف لیگ سے توڑ کر پی ٹی آئی میں شامل کرایا گیا تھا۔ وہ اس کے لیے جنرل شجاع پاشا کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ (ان شخصیات میں‘ انہوں نے جہانگیر ترین اور علیم خان کا نام بھی لے دیا۔) یاد آیا‘ 30اکتوبر 2011ئکے مینار پاکستان کے ''سونامی‘‘ جلسے کے بعد خبریں آئی تھیں کہ اس کاسارا خرچ علیم خان نے دیا تھا(پی ٹی آئی میں ان کی باضابطہ شمولیت بعد میں ہوئی) انہی دنوںجنرل کیانی سے چودھری برادران کی ملاقات کی خبر بھی آئی‘ جس میں چودھریوں نے شکایت کی کہ جنرل پاشا ان کے بندے توڑ کر‘ پی ٹی آئی میں شامل کررہے ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے بعض فون نمبرز کا حوالہ بھی دیا۔ یہ کہانی چودھری پرویز الٰہی نے اپنے تازہ انٹرویو میں تفصیل سے بیان کی‘ جس کے مطابق کیانی صاحب نے جنرل پاشا کو فون کیا اور کہا کہ وہ چودھری برادران کی شکایات کے ازالے کے لیے انہیں کھانے پر بلائیں۔ کھانے پر پاشا صاحب چودھریوں کی اس شکایت کوبے بنیاد قرار دے رہے تھے۔ پھر چودھری شجاعت حسین بات کسی اور طرف لے گئے۔ ایک موقع پر پاشا صاحب کہنے لگے‘ چودھری صاحب آپ میں بڑی ''وزڈم‘‘ ہے۔ میں عمران خان سے آپ کی ملا قات نہ کرادوں۔ جس پر شجاعت صاحب نے کہا‘ دیکھا‘ ہم نے پکڑ لیا۔ ابھی تو آپ کہہ رہے تھے کہ عمران خان سے آپ کا کوئی تعلق نہیں۔
حامد خان ایڈووکیٹ (کبھی پی ٹی آئی میں سینئر نائب صدر ہوتے تھے) گزشتہ شب ایک انٹرویو میں علیم خان اور جہانگیر ترین کے ساتھ پرویز خٹک کا نام بھی لے رہے تھے۔ حامد خان کو گلہ تھا کہ موقع پرستوں‘ ابن الوقتوں اور موروثی سیاستدانوں کی آمد سے پارٹی کا اصولی اور نظریاتی چہرہ مسخ ہوگیا۔ چودھری شجاعت حسین کا ایک اور بیان یاد آیا‘ جس میں انہوں نے کہاتھا ''جڑواں شہر‘‘ میں ڈرائی کلیننگ پلانٹ لگا ہے‘ جس میں لوگ صاف ستھرے ہو کر پی ٹی آ ئی میں شامل ہورہے ہیں۔ جس پر خان صاحب کا جواب تھا‘ کرپٹ معاشرے میں فرشتے کہاں سے لائوں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved